وزیر اعظم اور وزرا سخت پہرے میں اور عوام اللہ کے حوالے


مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور کشمیریوں کی نسل کشی پر ہر آنکھ اشک بار ہے۔ آزادی کے 72 سالوں میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان ہندوستان کے مابین تین جنگوں سمیت کئی سرد جنگیں جاری ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے مسلمان بھائیوں کے حق خود ارادیت اور بھارتی مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے اور 15 دسمبر 1971 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاک بھارت جنگ کے دوران اپنی جذباتی تقریر کر کے پوری دنیا کو حیران و پریشان کر دیا تھا کہ میں کیوں اپنا وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ضائع کروں میں واپس جاتا ہوں اور ہم لڑیں گے۔

کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے اور اے کشمیری مجاہدو جیسے ترانے بچپن سے کانوں میں گونجتے آئے ہیں ساتھ ساتھ جنرل ضیاء کا اسلام، جہادی خون کی ہولی نے کئی گھر برباد کیے اور ملک کا سکھ و چین چھین لیا۔ مگر لوگ تو جنرل ایوب خان کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ اگر وہ محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کر کے الیکشن میں نہ ہراتا تو شاید پاکستان کے دو ٹکڑے کبھی نہ ہوتے کیوں کہ بنگالی محترمہ فاطمہ جناح پر بھروسا کرتے تھے اور وہی ایک زنجیر تھیں پاکستان کو متحد رکھنے کی۔

کراچی میں جن اردو بولنے والوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے لالٹین کو ووٹ دیا بعد میں ان کے گھر انہی لالٹینوں سے جلائے گئے اور اس آگ سے سارے ہی ہاتھ سینکتے رہے اور کراچی کا امن تباہ ہو گیا۔ جنرل ایوب فیملی حبیب اللہ انڈسٹریز لگاتے لگاتے کالے اور سفید کی مالک بن بیٹھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے وزیر برائے انسانی حقوق محترمہ شیریں مزاری کے باپ عاشق مزاری صاحب، جو اس وقت سیکرٹری انڈسٹریز تھے، نے بھی مشرقی پاکستان میں انڈسٹری لگنے نہیں دی وہ اپنی انڈسٹری کو کراچی میں ترقی کرواتے رہے اور کچھ کردار مشرقی پاکستان میں حالات کی خرابی کا جناب پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے اسد عمر اور پاکستان مسلم لیگ ن کے زبیر احمد کے باپ جنرل غلام عمر نے بھی ادا کیا جس سے بقایا کام تمام ہو گیا۔

یہ ملک کبھی بنیادی جمیوریت، تو کبھی ریفرنڈم، تو کبھی اسلام، تو کبھی جہاد فی سبیل اللہ اور کرپشن کے بھنور میں پھنسا رہا۔ اس وقت حزب اختلاف کی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے احتساب اور یوم یکجہتی کشمیر کے منانے کو حکومتی چال قرار دے کر کہہ رہے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے یا پھر پوری دال ہی کالی ہے اور مودی عمران اور ٹرمپ ایک ایسے ڈائنا مائیٹ کی تیاری میں مصروف ہیں جس سے امن قائم کرنے کا نوبل پرائز تو کیا، امن کی فاختہ ہی مر جائے گی۔

اپوزیشن کی تنقید کس حد تک جائز ہے کہ وزیر خارجہ قریشی صاحب کو یوم یکجہتی کشمیر سے زیادہ اپنے عمر کوٹ کے جلسے کی زیادہ فکر ہے شاید وہ عمر کوٹ سے سفارت کاری کریں گے اور وزیر اعظم عمران خان صاحب ٹیلیفون پر ہی بیرونی ملک کے دورے کر رہے ہیں۔ لوگ تو یوم یکجہتی کشمیر پر بھی سوئی ہوئی انار کلی کی فوٹو لگا کر اسے یہ کہہ کر اٹھا رہے ہیں کہ اٹھو انار کلی تمھیں جمعہ کے دن آدھا گھنٹہ کشمیر کے لیے کھڑا بھی ہونا ہے۔

باقی رہ گئے بیچارے سرکاری ملازمین تو بھئی نوکر کی تے نخرا کی، اسکول کے بچوں، غریب عوام کو جہاں بادشاہ سلامت کا حکم ملتا ہے چلے ہی جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء کی زبردستی کی نماز، جنرل مشرف کے قومی ترانے اور اسمبلی بھی اس قوم کو نہیں بدل پائے تو اس سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ ایک طرف تو آپ بھارت سے تجارت بند ہونے پر نعرہ تکبیر لگا رہے ہیں تو دوسری طرف دوائیوں، پھل اور سبزیوں سمیت دیگر اشیا پر ہمارے ہی تاجر اپنی ہی قوم کو لوٹنے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تو نئے پاکستان اور ریاست مدینہ میں سب برابر ہیں کے نعرے مارتی ہے مگر یہ کیسا نیا پاکستان ہے اور کیسی ریاست مدینہ ہے جس میں قوم کی بچے، عام عوام کی سکیورٹی تو اللہ کے آسرے اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور وزراء کرام کی سکیورٹی سخت پہرے میں۔ بیچارے سرکاری نوکر، اساتذہ اور اسکول کے طلباء و طالبات روڈ سے بادشاہ سلامت کا بارہ دری سے نظارہ کرتے رہے اور جناب وزیر اعظم صاحب اور ان کی کابینہ سخت پہرے میں۔

ایک طرف تو آپ نازک حالات اور سکیورٹی خطرات کی بات کرتے ہوئے نوٹس پہ نوٹس لگا رہے ہیں دوسری طرف آپ اتنے سارے انسانوں کی جانیں داؤ پر لگا کر اللہ کے حوالے کر رہے ہیں اگر وزیر اعظم اور وزراء کی جانیں اتنی اہم ہیں کہ ان کو سکیورٹی کلیئرنس نہیں مل رہا ہے تو عوامی جانوں کی سکیورٹی کی ذمہ داری کس کے سر ہے؟ اسکول بسوں، سرکاری ملازمین، عام عوام اور ٹریفک اسگنلز پر کس کا پتہ کہ کون کیا ہے اور کون سے سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات ہیں کہ کوئی بھی دہشگردی نہیں ہو پائے گی؟ ویسے بھی اس ملک کا وتیرہ ہے کہ ہم ہر آنے والی مصیبت کے بعد سوچتے ہیں اور ہمیشہ ہاتھ ملتے ہی نظر آتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف اور صرف بات چیت سے ہی حل ہو سکتا ہے جنگوں سے نہیں کیوں کہ جنگ سوائے تباہی کے کچھ نہیں لاتی ماضی میں دنیا میں ہوئی جنگیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس لیے قوم کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ مربوط سفارت کاری اور بین الاقوامی حمایت کی اشد ضرورت ہے مگر یاد رہے کہ اس ملک کی مربوط سفارت کاری کی انوکھی مثال محترمہ ملیحا لودھی صاحبہ ہیں جو بھی حکومت رہے گی وہ اقوام متحدہ کی پاکستان کی مستقل مندوب ہی رہیں گی۔

دوسری طرف امریکا بہادر میں سفارت کاری کی اعلیٰ مثال علی جہانگیر صدیقی ہے کہ چاہے حکومت پاکستان مسلم لیگ کی ہے یا پھر عمران خان کی علی جہانگیر صدیقی کے بغیر پاک امریکا تعلقات آگے بڑھ ہی نہیں سکتے اس لیے آپ خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہماری سفارتی حکمت عملی کیا ہے اور مسئلہ کشمیر پر سوائے شور مچانے کے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اگر واقعی یوم یکجہتی کشمیر منانا بھی احتساب کے عمل کی طرح ہی اپنے قدم جمانے کے لیے کیا جا رہا ہے تو وہ دن دور نہیں جب لوگ مہران بینک اسکینڈل سمیت کئی اہم کرداروں کے متعلق سوال پوچھیں گے جو اس وقت موجودہ حکومتی امور چلانے میں مصروف عمل ہیں۔

اگر پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں موروثی سیاست موجود ہے تو پھر جنرل ایوب کے دور کی وہی 22 فیملیاں بھی پاکستان تحریک انصاف میں کسی نہ کسی روپ میں موجود ہیں جن کے آباؤ اجداد نے یا تو انگریزوں سے وفاداری نبھائی یا پھر اپنے ہی ہم وطنوں کا خون چوسا۔ موجودہ حالات میں جہاں نہ ملک میں سیاسی استحکام ہے نہ ہی معاشی استحکام ہے ملک اندرونی اور بیرونی انتشار کا شکار نظر آتا ہے اور ہم خود کو (FATF) کی لسٹ سے نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے نظر آ رہے ہیں ایسے حالات میں ہم کشمیر کو آزاد کرانے چلے ہیں جہاں ہمیں اپنی خود کی حکمت عملی واضح نہیں ہے کہ ہمیں آخر کرنا کیا ہے؟ بقول چینی دانشور کنفیوشس کہ جب انتقام کی راہ پر چلو تو دو قبریں کھود کر رکھو ایک اپنے دشمن کے لیے اور ایک خود کے لیے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جوش کے ساتھ ہوش کے ناخن لیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).