سیاحت سے اختیاری دوری ، کیوں ؟


\"Sarwat

روز کی بھاگ دوڑ، گھڑی کی ٹِک ٹِک کے ساتھ لگے بندھے معمول کے دن و رات ، ٹریفک کے شور اور دھویں سے آلودہ زندگی ، انسانوں کے سمندر جیسے شہر کی گہما گہمی سے بلا آخر فرار ملا اور سکون کے چند دن نصیب سے جھولی میں آ گرے تب ملک کے شمالی علاقہ جات تک رسائی کا نایاب موقع ہاتھ لگا ۔ سچ مانیں کہ پاکستان واقعی قدرت کا ایک حسین تحفہ ہے ، پاک سر زمین سبزو شاداب نظاروں سے بھری پڑی ہے ۔ قدرت کے کرشموں کو جتنا سراہا جائے کم ہے ۔ یوں کہہ لیجیئے کہ سیاحت کا جنون میری سرشت میں شامل ہے ، جبکہ مہم جوئی کا شوق ایک چیلنج کی مانند اپنی جانب دعوت دیتا ہے ۔ نئے مقامات کو تسخیر کرنا، وہاں کے ماحول کو اپنے اندر تک اُتارنا، غیر معمولی موسم کو جھیلنا، کٹھن راستوں سے گذرنا، طویل مسافت پیدل طے کرنا، جغرافیائی تغیر کے باعث مقامی افراد کی رہائشی سہولیات اور درپیش مشکلات کو دریافت کرنا ، شدید تھکن کے باوجود جان ہتھیلی پر رکھ کر سفر کی لذت کا مزہ کسی کو کیا معلوم ؟ بلاشبہ سیاحت کا جوش و جذبہ مجھے فطری طور پر ملا اور مواقع قدرت نے عطا کیے ۔ سفر اگر جستجو کے جذبے سے عاری ہو تو اسے کرنا وقت اور پیسہ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔

سفر کی ہر یاد ذہن کے پردے پر نقش ہے جسے کاغذ پر اُتارنا آسان نہیں کہ اس کو بیان کرتے ہوئے اس کے حسن میں فرق یا کمی اگر رہ گئی تو قدرتی نظاروں کے خالق کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی ۔ اس پر سیرِ حاصل گفتگو کسی اگلے وقت پر اُٹھا رکھتے ہیں ۔ ابھی اس موضوع کا بیان یوں عمل میں آیا کہ کل ہی عالمی سطح پر سیاحت کا دن منایا گیا ۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر اس موضوع کو اس کے دن پر بھی خاطر خواہ جگہ نہ مل سکی ۔ کیا کریں کہ ملکی سیاست کو میڈیا نے عوام کے لہو تک میں شامل کردیا ہے ! ملک کا ہر شہری دہشت گردی ، کرپشن ، پڑوسی ملک کے جنگی جنون، سیاسی و مذہبی جماعتوں کی حکومت سے اَن بَن، مخالفین کے دھرنوں اور مارچ کے عندیے ، بلدیاتی نظام کی ناہمواری سمیت دیگر عوامل میں چاروں طرف سے جکڑا ہوا ہے ۔ اس لیے ان ہی موضوعات اور معلومات کو ہمارے اِردگرد خبروں کے تانے بانے کی صورت میں مضبوطی سے بُن دیا جاتا ہے ، جنھیں سننا اور دیکھنا یوں ضروری ٹہرا کہ اِن سے نبرد آزما بہرحال ہمیں ہی ہونا ہے ۔ ایسے میں جغرافیائی سطح ہر وقتی تبدیلی یا دوسرے الفاظ میں تفریح یا تبدیلی کی غرض سے سیاحت کا سوچنا بلاشبہ ناقابلِ یقین امر ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میری سفر سے واپسی ہوئی تو ایک ساتھی نے عجیب چبھتا ہوا سوال کیا کہ کیا تمھارے پاس سیر سپاٹوں کے لیے زائد پیسہ اور گھومنے پھرنے کے لیے بہت فالتو وقت ہے ؟ تب میرے دل نے میرے ذہن سے سرگوشی کی اور میرے ضمیر کو یوں مطمئین کیا کہ یہ میرا شوق اور خواہش بھی ہے ! خوشی بھی ہے اور میرے فطری جذبے کی تسکین کا ذریعہ بھی ! یہ نہ وقت کا ضیاع ہے اور نہ رقم کا ۔ یہ خود پر کی جانے والی وہ سرمایہ کاری ہے جس کے بعد زندگی ایک خوشگوار وقفہ لے کر تازگی کے احساس کے ساتھ مثبت انداز میں نئی جہت کے ہم راہ متعین راہوں پر توانائی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے ۔

عام مشاہدہ ہے کہ ہماری عوام جب لگے بندھے معمولات سے اُکتا جاتی ہے تو تفریح یا تبدیلی کی غرض سے فیملی کے ہمراہ شہر کے ملکی و غیر ملکی ریستورانوں میں ٹھنڈی مشین کے سامنے بیٹھ کر پیٹ بھرتی ہے اور جیب خالی کرکے اُٹھتی ہے ۔ پھر سوشل میڈیا پر حلقہء احباب کو اِس سے آگاہ کرتی ہے ۔ نوجوانوں کا رجحان ہے کہ وہ کسی شاپنگ مال کے تهیٹر میں چیک اِن کرتے ہیں اور کمرشل مووی کی اُچھل کوُد اور اوچھے گانوں سے مزین فلم، جبکہ بچے مار دھاڑ سے بھرپور اینی میٹڈ مووی دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ وہ خود کو انٹرٹین کررہے ہیں ۔ گویا ثقافتی طور پر اپ ڈیٹ رہنا اِن کی واحد تفریح ہے اور ان کے خیال میں یہ ہرگز پیسے اور وقت کا ضیاع نہیں ہے ۔

آخر سیر و تفریح کی اصل روح کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں ہے ؟ آئیے معاشرے کے دونوں طبقوں میں جھانک کر دیکھیں ! کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ آس پاس کوئی امیر یا صاحب حیثیت خاندان چھٹی والے دن کسی فارم ہاؤس کے لان میں انگیٹھی پر گوشت بھون کر کھاتا ہے یا سمندر کنارے زمین پر بیٹھ کر آتی جاتی لہروں کے شور کو سُنتا ہے ، سادہ اور عام سے لباس میں ساحل پر چہل قدمی کرتا ہے ، گرد آلود ہوا دھول مٹی کی پرواه کیۓ بغیر کھلے آسمان کے نیچے وقت گذار کر سمجھتا ہے کہ یہ وقت اسے عارضی طور پر تفریح کے احساس کے ساتھ گذارنا ہے تاکہ اسے اپنی زندگی کے معمولات سے کچھ پل کے لیے چھٹکارا مل سکے ۔ دوسری طرف ایک متوسط یا سفید پوش خاندان اپنی تنخواه اور گھریلو خرچ سے پیسے بچا کر ، بہن بھائی اپنے جیب خرچ سے بہ مشکل کچھ رقم جوڑ کر نسبتاَ بڑے علاقے کے مشہور ریستوران میں کھانا کھانے جاتے ہیں اور حاصل ہونے والے اِن شاذ ونادر مواقوں کو کئی دنوں تک یادوں میں محفوظ رکھتے ہیں اور دوست احباب سے تذکرہ کرکے خوش ہوتے ہیں کیونکہ یہ لمحات انھیں تبدیلی کے احساس کے ساتھ تفریح بھی فراہم کرتے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری عوام سیر و سیاحت پر رقم خرچ نہیں کرتی ؟ کیا مہنگے کھانوں پر اپنی استطاعت سے زائد خرچ کرنا فضول خرچی نہیں؟ ہماری تفریح چار دیواری کی حد تک کیوں محدود ہے ؟ جدید ماڈل کے موبائل فون پر چیٹ کرنا اور کانوں میں ہینڈز فری گھُسا کر تیز میوزک سنتے رہنا ، ٹیبلیٹ پر گانوں کی وڈیوز ڈاؤن لوڈ کرنا ، اسمارٹ ٹی وی پر ڈرامے، آئی فون پر گیمز کھیلنا تفریح کے ذرائع ہیں ؟ وائی فائی کا غیر ضروری اور بے جا استعمال وقت کا ضیاع نہیں؟ کتنے فیصد لوگ ان ذرائع کا دُرست استعمال کر رہے ہیں ،یہ الگ بحث ہے ۔ بہرحال یہ آلات ہمیں گھروں میں قید،فطری ماحول سے دور اور اپنوں سے الگ تھلگ زندگی گذارنے پر مجبور کررہے ہیں ۔

ان تمام سوالوں کے جواب مجھے اُس وقت ملے جب دو ہفتے متواتر سفر میں رہنے کے دوران مجھے قدرتی آب و ہوا اور فطری ماحول میں محو ہوکر نہ تو کبھی گھڑی دیکھے کا خیال آیا ، نہ یہ فکر ستائی کہ پسندیدہ ڈرامے کی قسط نکل گئی یا واٹس ایپ پر کسی کو جواب نہ دیا تو وہ برا مان جائے گا یا فیس بک پر کتنے اور کس کے نوٹیفیکیشن آچکے ہوں گے ؟ مذکورہ تمام عناصر کو ہم آگ، ہوا ،مٹی اور پانی کے زیادہ ضروری سمجھنے لگے ہیں ، ان سے کچھ عرصہ دُور رہ کر دیکھیں کہ ذھنی و قلبی سکون کی اصل قدر و قیمت کیا ہے ؟ ملک کو درپیش امن و امان کے مسئلے ، حکومت کی سیاحت کے فروغ میں عدم توجہی اور دور دراز علاقہ جات تک وسائل کی خاطر خواہ سہولتوں کی عدم فراہی اپنی جگہ، ہم بذات خود جب تک اس سفر کی نیت نہیں کریں گے ، معاشی طور پر ہمارا ملک اس شعبے کے اندر حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کرسکے گا اور آپ قدرت کے تخلیق کردہ دلکش نظاروں، فلک بوس پہاڑوں سے بہتے شفاف چشموں ، سرسبز وادیوں میں چھپی آنکھیں خیرہ کرنے والی جھیلوں کے خاموش حُسن سے خود کو محروم پائیں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments