وزیر اعظم کی دھمکیاں پاکستان کو غیر ذمہ دار ریاست قرار دلوا سکتی ہیں


ایک بحران سے دوسرے بحران میں پاؤں رکھتی تحریک انصاف کی حکومت ایسی ہر صورت حال کو اپنی ناکامیوں کو پس پردہ رکھنے کا تیر بہدف نسخہ سمجھ رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے 5 اگست کو آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیریوں کے مخصوص حقوق سلب کرنے کا جو افسوسناک اقدام کیا تھا ، اب عمران خان کی قیادت میں حکومت نے اسے اپنی سرخروئی کا علم بنا کرتقریروں ، بیانات، احتجاج اور دھمکیوں کی ایک نئی مہم شروع کی ہوئی ہے۔ یہ جانے بغیر کہ اس مہم جوئی کے ملکی معیشت و سیاست کے علاوہ عالمی سفارتی تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ بحرانوں سے لڑنے کی بجائے بحران پیدا کرنے کے ماہر وزیر اعظم اس رویہ کو اپنی کامیابی سمجھنے کی شدید غلط فہمی میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔
عمران خان اس وقت کشمیر کے معاملہ کو لے کر نریندر مودی کی حکومت کو ہندو توا کے ایجنڈے پر گامزن اور راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی مکروہ اور نسل پرست شکل بتانے کی حتی الامکان کوشش کررہے ہیں جسے وہ اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں ہٹلر کے نازی ازم سے مماثل قرار دیتے ہوئے دنیا سے مدد کی اپیل کررہے ہیں۔ آج جب پوری پاکستانی قوم کو دن کے بار ہ بجے سے ساڑھے بجے کے درمیان گھروں، دفتروں، دکانوں اور اسکولوں سے باہر نکلنے کا ’حکم‘ دیا گیا تھا تو اسی کے ساتھ نیویارک ٹائمز میں عمران خان کا ایک مضمون بھی شائع ہؤا ہے جس میں وزیر اعظم نے ان سب باتوں کو دہراتے ہوئے ایک بار پھر دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت عسکری طور سے آمنے سامنے ہوئے تو اسے جان لینا چاہئے کہ یہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی ہوگی جس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔
پاکستانی وزیر اعظم ایک سے زیادہ مرتبہ بالواسطہ طور سے برصغیر میں جوہری تصادم کا اشارہ دے چکے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی آج کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لئے وزیر اعظم ہاؤس کے باہر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اس وقت تک بھارت کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا جب تک وہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بھارتی آئین میں کی گئی ترمیم کو واپس نہیں لیتا اور کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال نہیں کی جاتی۔ عمران خان کے خیال میں اس طرح بھارتی حکومت نے نہ صرف بھارتی آئین کا مذاق اڑایا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی بھی کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان نے کبھی بھارتی آئین کی شق 370 کے تحت پنڈت جواہر لال نہرو کے دور حکومت میں کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ لیکن اس کی تنسیخ پر اب پاکستانی حکومت سیخ پا ہے۔
نریندر مودی کی حکومت نے بلاشبہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے گریز کی پالیسی اختیا رکئے رکھی ہے۔ لیکن دنیا کے کسی ملک کی طرف سے اس پالیسی کی تائید نہیں کی گئی۔ بلکہ اس معاملہ پر ہمیشہ پاکستان کے اس مؤقف کو سراہا گیا ہے کہ بات چیت کے ذریعے ہی دونوں ملک خود کو درپیش مسائل حل کرسکتے ہیں۔ اس لحاظ سے سفارتی محاذ پر مشکلات کا سامنا کرنے والے پاکستان کو اس مثبت اور سیاسی لحاظ سے مضبوط مؤقف کی وجہ سے نرم گوشہ ملتا رہا ہے۔ اب اگر پاکستانی حکومت بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرے گی اور اس کے لئے ایسی شرائط عائد کی جائیں گی جنہیں ماننے کا مطلب فریق مخالف کے سامنے غیر مشروط ہتھیار پھینکنا ہو، تو اس کا نقصان بھارت سے زیادہ پاکستان کو اٹھانا پڑے گا۔ ایک تو پاکستان مثبت سفارتی و سیاسی مؤقف سے دستبردار ہو کر بھارت جیسی ہٹ دھرمی اختیار کرنے کا اعلان کررہا ہے۔ دوسرے دونوں ملکوں کے درمیان بڑھنے والی بے یقینی کا نقصان بالآخر پاکستانی معیشت اور عام شہریو ں کو ہی اٹھانا پڑے گا۔
وزیر اعظم عمران خان کشمیر کے مسئلہ پر اپنی سفارتی اور سیاسی مہم جوئی میں ناکامی کا الزام بھی دنیا کو دیتے ہیں اور آج اس کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا ہے کہ کشمیر میں اگر مسلمانوں کی بجائے کسی دوسرے عقیدہ کے لوگ آباد ہوتے تو دنیا کا طرز عمل مختلف ہوتا۔ اس بیان کے ’مقبول جذباتی‘ پہلو کو نظر انداز کرکے، جائزہ لیا جائے تو اس کا سادہ کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا اعتراف کررہے ہیں ۔ حالانکہ تحریک انصاف اور حکومت کے نمائیندے معیشت کے سوال پر ٹال مٹول کرنے کے بعد خارجہ شعبہ میں اپنی حکومت کی شاندار کامیابیوں کے قصیدے بیان کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سر فہرست عمران خان کا دورہ امریکہ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ’متاثر‘ کرنے کا معاملہ رہا ہے اور اس کے بعد کشمیر کے سوال پر حکومت کے سخت مؤقف کو بھی خارجہ پالیسی کی کامیابی کہا جاتا ہے۔ اس مؤقف کے مطابق اب دنیا کشمیر کی بات کرنے لگی ہے، عالمی میڈیا کشمیر پر توجہ مبذول کئے ہوئے ہے جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پچاس برس میں پہلی بار اس معاملہ پر غور کیا ہے۔
تاہم وزیر اعظم کے آج کے بیان سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ دنیا کشمیریوں کے مسلمان ہونے کے باعث خاموش ہے۔ اسلامی امہ کی رومانیت پسندی میں مبتلا پاکستانی شہری ہوسکتا ہے کہ عمران خان کے اس بیان کو بھی ان کی دلیری اور کامیابی ہی قرار دیں لیکن اس صورت میں حکومت کو یہ جواب تو دینا ہوگا کہ اگر دنیا کشمیریوں کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ان پر ہونے والے مظالم پر خاموش ہے تو دنیا کے 50 مسلمان ملک کیوں منقار زیر پر ہیں؟ پاکستانی وزیر اعظم کشمیر کو مسلمان بمقابلہ ہندو یا اسلام بمقابلہ دنیا قرار دے کر اس بحران کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ البتہ ہندو شدت پسندی کا جو الزام وہ نریندر مودی اور ان کی حکومت پر لگا کر اسے دنیا سے قبول کروانا چاہتے ہیں، اس کوشش میں ان کا اپنا رویہ ہی راستے کا پتھر بن جائے گا۔ دنیا تو یہی سمجھے گی کہ یہ ایک انتہا پسند ہندو لیڈر اور ایک انتہا پسند مسلمان لیڈر کا جذباتی معاملہ ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مضمون میں عمران خان نے ایک بار پھر برصغیر میں ایٹمی جنگ کی بات کی ہے۔ تاہم اس کے لئے انہوں نے بھارتی وزیر دفاع کو الزام دیتے ہوئے کہا کہ راج ناتھ سنگھ نے ’ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے‘ کی حکمت عمل تبدیل کرنے کا اشارہ دے کر دراصل برصغیر میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی ہے۔ دو ہفتے قبل بھارتی وزیر دفاع نے ایک مختصر بیان میں کہا تھا کہ بھارت صورت حال کے مطابق اپنی نیوکلئیر ڈاکٹرائن تبدیل کرسکتا ہے۔ یہ خطرناک بیان تھا جس کا دنیا کی سب سنجیدہ اور بڑی طاقتوں کو نوٹس لینا چاہئے لیکن عمران خان جس طرح متعدد بار برصغیر میں جوہری جنگ کی وارننگ دے چکے ہیں ، کیا پاکستانی حکومت نے اس کے عواقب پر بھی غور کیا ہے؟
عالمی سفارت کاری یا سیاست میں جوہری ہتھیاروں کو بلیک میلنگ کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ورنہ دنیا پاکستان کے بارے میں یہ تصور قائم کرے گی کہ جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے یہ ایک غیر ذمہ دار ملک ہے۔ امریکہ ہمیشہ سے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا مخالف رہا ہے اور یہ قیاس آرائیں بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں کہ امریکہ اسرائیلی ائیر فورس کی مدد سے پاکستان کے جوہری اثاثوں کو تباہ کرنے کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ نے اس حوالے سے متعدد دوسرے آپشنز پر بھی کام کیا ہو کیوں کہ پاکستانی جوہری مواد کے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جانے اور ان کی طرف سے ’ڈرٹی بم‘ بنانے کی افواہیں عالمی تبصروں کا حصہ بنتی رہی ہیں۔
حالیہ برسوں میں یہ تبصرے سامنے آتے رہے ہیں کہ بھارت کی ’کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن‘ کے مقابلہ میں پاکستان نے مختصر رینج تک مار کرنے والے ایسے موبائل وار ہیڈز تیار کئے ہیں جو چھوٹے ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بھی اندازہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس اس قسم کے 100 سے 200 چھوٹے جوہری ہتھیار ہیں۔ کولڈ اسٹارٹ منصوبہ کے تحت بھارت کسی محاذ پر اچانک بہت بڑی قوت سے حملہ کرکے پاکستان کے وسیع علاقے پر قبضہ کرلے گا تاکہ اسے اپنی شرائط پر امن قائم کرنے پر مجبور کرسکے۔ اس اچانک حملہ کو روکنے کے لئے پاکستان نے مبینہ طور پر چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنائے ہیں۔ اس طرح اس نے پہلےجوہری ہتھیار داغنے کی حکمت عملی کو اپنے دفاع کی بنیاد بنایا ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم کے ایٹمی تصادم کے اندیشوں کو ان قیاس آرائیوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان خود کو دنیا میں ایک ’خطرناک اور غیر ذمہ دار ریاست‘ کے طور پر پیش کررہا ہے۔ یہ تاثر ملک کے وسیع تر معاشی، سماجی، سیاسی اور سفارتی مفادات کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali