سیکولرزم کے بارے میں ”اکابر“ کیا کہتے ہیں؟


مولوی صاحبان یوں توہرموضوع پر ”اکابر“ کی رائے کوحرف آخرسمجھتے ہیں مگرنامعلوم وجوہ کی بنا پر، ”سیکولرازم“ بارے چند دیسی صحافیوں کی درفنطنیوں کومتفق علیہ فتوی سمجھنے لگے ہیں۔

گئے دنوں میں، تبلیغی جماعت میں بڑے زمینداروں کی ایک خاص جماعت بھی ہوا کرتی تھی۔ یاد پڑتا ہے کہ ناشتہ کے بعد کا ”انفرادی وقت“ تھا۔ سندھ کا ایک جاگیردار وڈیرہ، کسی بات میں اپنی ”پجارو“ گاڑی کا نام لے رہا تھا کہ ایک نوجوان نے تصحیح کرانا ضروری سمجھا ”سائیں، اس کو پجارونہیں بلکہ پجیرو کہتے ہیں۔“ سائیں نے بلاتوقف اس سے پوچھا کہ ”تیرے پاس پجارو ہے؟“ اس نے کہا کہ ”میرے پاس توموٹر سائیکل بھی نہیں۔“ اس پرسائیں نے تبسم آمیز مٹھاس سے کہا ”ادّا، گاڑی تومیر ے پاس ہے۔ اب میں اسے پجاروکہوں یا پجیرو، تیرے کو کیا؟ “

کچھ دن پہلے ایک نوجوان نے خاکسار کو سیکولرازم کی ”اصلی“ ڈیفینیشن بتانے کی کوشش کی تو اسی انداز میں پوچھا کہ ”بھائی، کیا آپ سیکولر ہیں؟“ اس کے استغفار پرعرض کیا کہ ”سیکولر تو میں ہوں۔ چنانچہ اس کی وہی تشریح معتبر ہوگی جو میں عرض کروں گا نہ کہ آپ۔“

میں نے کہا ”ہم سیکولرز کے ہاں اکابر اورائمہ نہیں ہوا کرتے کہ کسی کے فرمودہ کو وحی کا درجہ دیں۔ ( ایک حقیقی غیرمقلد کوبھلا کسی شخصیت کا حوالہ دیا جاسکتا ہے؟)“

میں نے کہا ”ماضی سے نکلو، حال میں آؤ۔ ڈکشنری میں سیکولرازم کا کیا مطلب ہے یا لغت میں اسلام کا کیا معنی ہے؟ اسلاف کے ہاں اسلام کی جامع تشریح کیا ہے یا انگریزوں نے سیکولرازم بارے کیا لکھا ہے؟ یہ سب کتاب کی باتیں ہیں۔ انہیں کتاب فروشوں کے لئے چھوڑ دو۔“

میں نے کہا ”مستقبل کو چھوڑو، حال کی بات کرو۔ آئیڈیل اسلام اور کامل سیکولرازم، فقط ایک رومانس ہیں۔ یہ کبھی مکمل وجود پذیرنہیں ہوسکتے ہیں۔ یہ خواب کی باتیں ہیں۔ انہیں خواب فروشوں کے لئے چھوڑ دو۔“

میں نے کہا ”آؤ! ہم سے سنو کہ سیکولرازم کسے کہتے ہیں؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر دنیا میں اپنے عقیدہ کی بقا اور احترام چاہیے تودوسروں کے عقائد کا احترام کرنا سیکھو۔ خدا نے ہرعقیدہ والے انسان کو ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا کیا ہے اور تم کو ان پرتھانیدار یا داروغہ بنا کرنہیں بھیجا کہ بزور بازو اس کا عقیدہ بدلو۔ اگر آپ پورے اخلاص سے یہ سمجھتے ہوکہ کسی کا عقیدہ اس کے لئے دنیا وآخرت میں نقصان کا سبب بن سکتا ہے تو اس کی خیرخواہی کرتے ہوئے، اس کو سیکولرانداز میں بدلنے کی کوشش کرو۔ نہ کہ دھونس اوردباؤ سے۔“

میں نے کہا ”ایک ہٹے کٹے نوجوان کو دن دھاڑے، اس کے خاندان کے سامنے اغوا کر کے لے جانا کتنا مشکل کام ہے؟ مگر تم نے تبلیغ والوں کا چمتکار دیکھا ہے؟ تبلیغی جماعت والے، کسی کی بیٹھک میں جاتے ہیں۔ اسی کے گھر کا کھانا نوش کر کے، پھراسی کا بستر اس کے سر پر اٹھوا کر، مہینوں کے لئے اس کو گھر سے بے گھر کردکھاتے ہیں۔ اس منتر کا نام کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ پہلے دل لو، پھردن لو۔ بس اسی رویہ کا نام سیکولرزم ہے۔“

میں نے کہا ”سیکولر رویہ کے علاوہ سیکولرنظام حکومت بھی ہوتا ہے مگر یہ کسی خاص عقیدہ کا نام نہیں بلکہ فقط ایک طریقہ حکومت کا نام ہے۔ جدید سیکولرنظام حکومت کا خلاصہ یہ ہے کہ مذہب، ہرفرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ ریاست کا کام مذہب کی بقا یا ترویج نہیں ہے بلکہ ریاست کی ذمہ داری، امن اور معیشت کی فراہمی ہے۔ ریاست کسی عقیدہ یا مذہبی رسم کے خلاف بھی نہیں ہوگی تاوقتیکہ کہ وہ مذہبی رسم، امن عامہ میں خلل نہ ڈالے یا ریاست کی اقتصادیات پرمنفی اثر نہ ڈالے۔ چنانچہ، دنیا میں امن وآشتی سے رہنا چاہتے ہوتو سماج میں اسی قانون کو رواج دینا پڑے گا جوسوسائٹی کے ہرسٹیک ہولڈر نے باہمی رضامندی سے ترتیب دیا ہو۔ اسی کو سیکولرنظام حکومت کہتے ہیں۔“

معذرت کہ تمہید کچھ زیادہ طویل ہوگئی ہے۔

عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اہل مذہب کا فرض ہے کہ سیکولرازم، بارے اپنے ان مستند اکابر دین کی رائے معلوم کریں جن کا اس موضوع سے عملی علاقہ رہا ہو۔ انڈیا میں سیکولرازم ہے۔ وہاں کے مشہور مفسر قرآن مولانا وحیدالدین خان نے سیکولرازم کی تعریف یوں کی ہے کہ ”فردی عقائد کو اجتماعی معاشرے کے امنِ عام اور بقائے باہمی میں مانع نہیں ہونا چاہیے۔“

جمیعت علمائے ہند، مسلمانان ہند کی پہلی مذہبی سیاسی جماعت ہے۔ ہم سیکولرز تو ”اکابر“ سے محروم لوگ ہیں مگر اکابر پرستوں سے میرا سوال ہے کہ سابقین علمائے دیوبند، سیکولرازم کا معنی ”ہمہ گیریتِ ادیان“ کیا کرتے تھے۔ آپ نے چند کالم نگاروں کے بھرے میں آ کر، اس کا ترجمہ ”لادینیت“ کیوں پسند فرمایا ہے؟

ذرا مولانا عبیداللہ سندھی صاحب کی بھی سنتے جایئے جنہیں دیوبندی حضرات ”امام انقلاب“ کا لقب دیتے ہیں۔ ( دیوبندی حضرات نے ”بیس بڑے مسلمان“ کے نام سے ایک کتاب میں اپنے اکابرکا تذکرہ کیا ہے۔ اس فہرست میں حضرت سندھی بھی شامل ہیں۔ ) وہ فرمایا کرتے تھے کہ ”گاندھی جی دنیا کے بہت بڑے انسان اور بلند پایہ روحانی بزرگ ہیں۔ میرے دل میں ان کی بڑی عظمت ومحبت ہے لیکن میرے نزدیک ان سے یہ بہت بڑی بھول ہوئی ہے کہ انہوں نے سیاست کے ساتھ مذہب اور کلچر کا رشتہ جوڑدیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ملک میں سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ ماضی پرستی اور رجعت پسندی بھی ترقی کر رہی ہے۔“

مولانا عبید اللہ سندھی فرماتے تھے کہ ”ایک مذہبی ملک میں سیاست کے ساتھ مذہب کا اتنا تعلق، نہ صرف مناسب بلکہ ضروری ہے کہ لوگوں سے معاملہ کرتے وقت مذہب کے بنیادی اصول اخلاق کا لحاظ رکھا جائے، یعنی جھوٹ نہ بولا جائے، کسی کو فریب نہ دیا جائے، کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کی جائے لیکن ہندوستان ایسے ملک میں جہاں مختلف قومیں اور مختلف مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں وہاں سیاست پر گفتگو کرتے وقت مذہب کانام لینا یا کسی خاص فرقے یاقوم کے کلچر اور اس کی روایاتِ کہن کا چرچا کرنا ملک اور سیاست کو آگے بڑھانے کی بجائے پیچھے ہٹانے کا سبب ہوسکتا ہے اور اس سے فرقہ وارانہ فضا پیدا ہوکر قوم میں رجعت پسندی کے جراثیم پیدا کرسکتی ہے۔“

مولانا عبیداللہ سندھی اس سلسلے میں ترکی کا حوالہ دے کر فرمایا کرتے تھے کہ ”اگر کمال اتاترک کو مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے کا نسخہ ہاتھ نہ آتا تو ترکی کا اس درجے ترقی یافتہ ہونا تو کجا اس کا زندہ رہنا بھی دشوار ہوجاتا لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ ترکی سے مذہب رخصت ہوگیا ہے سخت غلطی ہے کیونکہ ترک بہرحال مسلمان ہیں اور اسلام ان کے جسم وجان میں اس درجہ پیوست ہوچکا ہے کہ وہ اگر اس کو چھوڑنا چاہیں تو نہیں چھوڑ سکتے البتہ ہاں اگر سیاسیات میں ترک ہمیشہ کی طرح مذہب اور خلافت کا نام لیتے رہتے تو ملکی اور سیاسی معاملات میں ان کا نقطہ نظر کبھی ترقی پسندانہ نہ ہوتا اور دوسری جانب ترکی کی حریف طاقتیں اس کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھ کر کبھی اسے پنپنے اور سیاسی طور پر مضبوط ہونے کا موقع نہ دیتیں۔“ (حوالہ برہان، شمارہ نمبر 5 نومبر 1950 )۔

مزید یہ کہ قرون اولی کی مسلمان حکومتیں، اس سیکولرموقف سے کس حد تک واقف تھیں؟ اس کی ایک جھلک ڈاکٹر حمیداللہ خان مرحوم نے اپنی تصنیف ”مرکزی ریاست اور قانون شخصی“ میں پیش فرمائی ہے۔ لکھتے ہیں :۔

”مسلمانوں نے قرآنی احکام کی تعمیل میں مفتوحہ علاقوں میں اپنا قانون جاری نہیں کیا بلکہ ہر طبقے کو قانونی اور عدالتی آزادی دے دی۔ مسلمانوں کے لئے اسلامی قانون اور غیرمسلموں کے لئے ان کے اپنے قانون پر عمل رہا حتی کہ حاکم عدالت بھی اس سے مستںثنٰی نہ تھے۔ اگر فریقین مقدمہ نسطوری فرقے کے عیسائی ہوتے تو قانون بھی نسطوری قانون کے مطابق فیصلہ کرتا تھا اور ہر فرقے کے مذہبی پیشواؤں کو اجازت تھی کہ وہ اپنا حاکم عدالت مقرر کریں۔

”مسلمان عدالتیں ہزار سال سے زیادہ تک اس پر عمل کرتی رہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیرمسلم رعایا نے نہ کبھی مذہبی اساس پر بغاوت کی اور نہ اپنے ہم مذہب بیرونی حملہ آوروں کی مدد کی۔ یہ طریقہ مدینہ، دمشق، بغداد اور قسطنطنیہ ہی میں نہیں بلکہ دہلی اور حیدر آباد میں بھی تھا۔ کیا ہندو بتا سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہزار سالہ دورحکومت میں حکومت نے کبھی ہندوؤں پر ان کے شخصی مسائل میں اپنا قانون جاری کیا ہو؟ نکاح، طلاق، وراثت، عقد بیوگان اور اس کے ممثال دوسرے معاملات میں ہمالیہ سے لے کر لنکا تک، ہر فرقہ اور ہر مذہب اپنے قانون پر عمل کرتا رہا۔ “

قارئین کرام! خاکسار اپنی اس رائے پہ قائم ہے کہ اشتراکیت کا جامع تصور، کارل مارکس نے نہیں، بلکہ شاہ ولی اللہ نے دیا تھا، ایسے ہی سیکولرازم کا پہلا داعی ’دین اسلام‘ ہے جس نے ”لا اکراہ فی الدین“ اور ”لکم دینکم ولی دین“ سے اس کی بنیاد رکھی۔

باقی یہ کہ سیکولررویہ کی تشریح ہو یا سیکولرنظم حکومت کا خاکہ ہو، یہ خاکسار نہ تواہل یورپ سے متفق ہونا لابدی سمجھتا ہے اور نہ مذکورہ اہل علم کی فکری تقلید کوواجب گردانتا ہے۔ خاکسار نے سیکولرازم کو جیسے سمجھا، ویسے ہی اپنے الفاظ میں بیان کردیا۔ خاکسار خود کو سیکولر مسلم قراردیتا ہے۔ آپ کوپورا حق ہے کہ میری ساری تشریحات کو ردی کی ٹوکری کی نذر کردیں مگر کوئی مجھ پہ یہ فتوی نہیں لگا سکتا کہ میں ”سیکولرزم کا مرتد“ ہوگیا ہوں۔

اس لئے کہ سیکولرزم کی ٹرمینالوجی، نہ تو کسی کی ذاتی جاگیر ہے اورنہ کسی خاص مذہب کا نام ہے کہ اس کی کسی جزو یا کل سے اختلاف پہ کوئی بندہ، اس کے کفر میں داخل ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).