وزیر اعظم کا عوامی حکم


ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کر دی۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کو ریلیف پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے اور ایسا مربوط نظام وضع کیا جائے جس سے غریب آدمی پر کسی قسم کا اضافی بوجھ نہ پڑے۔ ہول سیل منڈیوں میں روزانہ کی بنیاد پر ضروری اشیاء خورو نوش کی قیمتوں کی کڑی نگرانی کے لیے مؤثر نظام پر عمل در آمد یقینی بنایا جائے۔

وزیر اعطم کا یہ قدم یقینا عوامی فلاح کے لیے ہے اور نیک نیتی پر مبنی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اس وقت ڈالر کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں ادھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط سے پورے ملک میں مہنگائی کاطوفان برپا ہے۔ جو غریب عوام کی چیخیں نکلوا رہا ہے۔ روزگار کے مواقع کم پڑتے جا رہے ہیں۔ ملوں، فیکٹریوں اور کارخانوں کے علاوہ دیگر نجی اداروں سے مزدوروں اور ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح غریبوں کے گھروں میں زندگی سسکنے پر مجبور ہے اور اس کی ذمہ داری ان کی حکومت پر عائد کی جا رہی ہے جبکہ صورت حال قطعی مختلف ہے مگر عوام کسی دوسری دلیل کو تسلیم نہیں کر رہے اور حکومت پر برس رہے ہیں یہ کیفیت موجودہ حالات میں نہیں پیدا ہونی چاہیے کیونکہ سرحدی صورت حال لمحہ بہ لمحہ بگڑتی چلی جا رہی ہے۔

اس کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم متحد ہو کر کھڑے ہوں تاکہ سامنے موجود بد خواہ کو واضح پیغام پہنچ سکے کہ بائیس کروڑ عوام حکومت کے ساتھ ہیں اور کسی بھی جارحیت کی صورت میں جواب دندان شکن آئے گا۔ ایسا منظر نہ بھی ہو، حکومت کو حکمرانی ملی ہی اس لیے ہے کہ وہ پچھلی حکومتوں سے مختلف ہو یعنی عوام کو سکھ دے ان کے لیے مہنگائی جیسے مسائل کو حل کرے اگر اس نے انہیں حل نہیں کرنا یا ان کو گھمبیر بنانا ہے تو پھر عوام اسے پسند کیسے کریں گے اور عمران خان وزیر اعظم کو قابل اور ذہین کیسے تصور کریں گے؟ لہٰذا انہوں نے ایسی گرانی و مہنگائی کو ختم کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہے جو نہ کسی ادارے نے کی ہے نہ پٹرول مہنگا ہونے کی بنا پر ہوئی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ معمولی فرق اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے پڑا ہے مگر وہ قابل برداشت ہے جو مہنگائی و گرانی ازخود افراد نے کی ہے وہ برداشت نہیں ہو رہی۔ مثال کے طور سے اشیاء کی قیمتیں ایک فیصد بڑھی ہیں تو ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے پانچ فیصد بڑھا دی ہیں یا ان کے طرز عمل سے بڑھ گئی ہیں۔ یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے۔

وزیر اعظم کے نیک جذبے کو سلام سوال مگر یہ ہے کہ ان کی ہدایت و حکم پر عمل در آمد کون کروائے گا؟ بیورو کریسی، وہ تو اپنی من مرضی کرتی ہے اور پھر ایک تاثر کے مطابق ان کی حکومت سے خفا خفا ہے۔ شاید اس لیے کہ اس کے ناز نخرے اب اٹھائے نہیں جا رہے انہیں عیش و عشرت کی باقاعدہ و با ضابطہ اجازت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ موج میلہ نہیں کر رہی وہ اپنی پسند و نا پسند کا بھی خیال رکھ رہی ہے جہاں تک ممکن ہو سکے ”قلمی سینہ زوری“ بھی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بالخصوص صوبہ پنجاب میں اسے کسی کی پروا نہیں۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم کی اس خبر کہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے کے ساتھ یہ خبر بھی شائع ہوئی ہے کہ پنجاب کی بیورو کریسی حکومتی احکامات کو من و عن نہیں مان رہی لہٰذا روزانہ ایک سو سے زائد توہین عدالت کی درخواستیں دائر کی جانے لگی ہیں۔

اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون عوام کا خیر خواہ ہے اور کون نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے تجارتی نجی ادارے اور چھوٹے دکاندار عوام کی کھال ادھیڑ رہے ہیں۔ ٹاؤنوں کی حدود میں مختلف ناموں سے بازار بھی سجھائے جاتے ہیں مگر ان میں بھی عوام کی جیبوں پر ڈنکے کی چوٹ پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں اکثر یہ بازار پہلے والے لوگ ہی لگاتے ہیں اور دکانداروں سے اپنا حصہ وصولتے ہیں۔ ٹاؤن والے بھی اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں سڑک کنارے اور عوام کے لیے مختص راستوں پر ٹھیلے ریڑھیاں ان ہی کی مرضی سے اپنا ”کاروبار“ کرتے ہیں۔

پچاس کی چیز سو روپے میں فروخت کرتے ہیں کوئی ان سے پوچھ بیٹھے اتنی مہنگی کیوں ہے تو بدتمیز بدمعاش نما ریڑھی بان سر کے بالوں کو آتا ہے لہٰذا وزیراعظم نے قدم اٹھایا ہے تو اسے آگے بھی بڑھانا ہو گا۔ یہاں میں دوبارہ عرض کروں گا کہ ایسے کام پولیس کو دیے جائیں اور اس سے نتائج حاصل کیے جائیں کیونکہ جس محکمے نے بھی اگر طوعاً و کرہاً حکومتی اقدامات پر عمل درآمد کرانا ہے تو اس کے ساتھ پولیس لازمی ہو گی تو پھر کیوں نہ علاقے کے تھانیدار کو یہ فرض سونپ دیا جائے۔

بہرحال عمران خان کی نیت صاف ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں شفاف اور مثبت تبدیلی آئے مگر ان کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی ہیں جنہیں انہیں عبور کرنا ہے۔ خطرناک مافیاز ہیں جو لوٹ کھسوٹ کے عمل کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اہل اختیار اور اہل اقتدار بھی کچھ ہیں جو قانون اور عوام کی بہتری کو ضروری نہیں سمجھتے چاہتے ہیں ان کی پانچوں گھی میں ڈوبی رہیں۔ تبدیلی نہ آئے عوام ان کے زیر اثر رہیں۔ وہ ابھی تک نمبرداری نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں کہ جس میں ایک نمبردار پورے گاؤں کا ایک طرح سے مالک ہوتا ہے۔

اس کا ایک حکم لوگوں کے لیے پریشانیاں پیدا کر سکتا ہے کیونکہ وہ مالیاتی و انتظامی اداروں کا کارخاص ہوتا ہے اب اگرچہ اس کے اثر و سوخ میں کمی واقع ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوا۔ لہٰذا حکومت کو بیورو کریسی کے حوالے سے یعنی وہ ادارے جو اس کے کسی خیال کو مجسم کرنے کے لیے درکار ہوں پہلے ان کے بارے میں کوئی تیاری کی جائے ان کے سربراہوں سے یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ وہ عوامی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی سستی و کاہلی نہیں کریں گے یہ کہ وہ غفلت کے مرتکب ہوئے تو انہیں قانون کے مطابق سزا وار قرار دے دیا جائے۔ تب جا کر نیا پاکستان بنے گا۔

خالی خولی باتوں سے اس نظام کو نہیں بدلا جا سکتا کیونکہ یہ خرابی کی آخری حد کو چھو رہا ہے جس کو ٹھیک کرنے کے لیے انقلابی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ ہرحائل رکاوٹ کو نظر انداز کر دیا جائے۔ آخر میں یہ بھی عرض کروں کہ حکومت کو فی الفور میڈیا کے ساتھ ایک بڑی نشست کا اہتمام کرنا چاہیے ان کے گلے شکوے سنے جائیں اور انہیں دور کیا جائے کیونکہ وہ اسے اعتماد میں لیے بغیر جتنے بھی پروگرام بنائے گی اور منصوبے تیار کرے گی، ان کی شکل و صورت مبہم و دھندلی ہو گی۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).