کج امید اے زندگی مل جائے گی


گوجرانوالہ میں ہر برادری نے رفاہی ہسپتال بنا رکھے ہیں۔ ایک ایسے ہی ہسپتال کی تعمیر شروع کرنے کے لئے اس برادری کے معززین چندہ اکٹھا کرنے کی مہم پر نکلے ہوئے تھے۔ یہ قافلہ اپنی برادری کے ایک امیر کبیر شخص کے ہاں جا رکا۔ اس بندے کی شہرت ایک تنگ دل اور کنجوس آدمی کی تھی۔ اس سے چندہ کی اپیل کی گئی۔ چندہ دینے کی بجائے اس نے یہ سوال اٹھایا کہ ہسپتال کی تعمیر کرنا سرے سے پبلک کے آدمیوں کا کام ہی نہیں۔ اس کا مدعا تھا کہ حکومتوں کے کرنے کے کام حکومتوں کے ذمے ہی رہنے دینے چاہئیں۔ وہ لوگ بہت بدمزہ ہوئے اور خالی ہاتھ اٹھ کر چلے آئے۔

کالم نگار سوچ رہا ہے کہ اس شخص نے پورا سچ نہیں بولا۔ پورا سچ یوں ہے کہ اسکول، ہسپتال، سڑکیں، پل، پارک اور دیگر تمام ترقیاتی کام کرنے حکومت کا کام ہے۔ جان و مال کی حفاظت اورفرد کے لئے کسی روزگار کا اہتمام بھی حکومت کا فرض ہے۔ لیکن عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ تمام سرکاری واجبات اور ٹیکس پوری دیانتداری سے ادا کریں۔ کیا ہم یہ فریضہ صحیح طریقے سے ادا کر رہے ہیں؟

اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں ہے۔ مثال کے طور پر چیئرمین واسا گوجرانوالہ نے بتایا کہ شہر میں پانی کے ایک لاکھ پینتیس ہزار کنکشن تھے۔ انہوں نے 65 ہزار مزید غیر قانونی صارفین ڈھونڈ نکالے ہیں۔ اس طرح صارفین کی تعداد دو لاکھ ہو گئی ہے۔ شیخ عامر الرحمان کو جی ڈی اے اور واسا کا چیئرمین مقرر ہوئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ وہ پوری محنت اور جانفشانی سے کام کر رہے ہیں۔ یہ ”چور صارفین“ ہمارے افسران کی کارکردگی کے بارے میں ایک تلخ سوال ہے۔

 پار برس واسا کی وصولی محض تین کروڑ تیس ہزار روپے تھی۔ پچھلے برس آٹھ کروڑ بیس لاکھ روپوں تک پہنچ گئی۔ اس سال شیخ عامر الرحمان وصولی کا ہدف پچیس کروڑ بنائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے ہزاروں پرانے نا دہندگان اور 65 ہزار نئے غیر قانونی صارفین سے ریکوری کے لئے ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔

بینظیر بھٹو کی حکومت میں میجر جنرل ظہیرالاسلام عباسی مارشل لاءلگانے کی ناکام کوشش کے جرم میں پکڑے گئے تھے۔ خود کشی کرنے اور مارشل لا لگانے میں ناکامی ہی جرم ہے، ورنہ کامیابی کی صورت میں بندہ صاف بری ہو جاتا ہے۔ ظہیر الاسلام عباسی کا کورٹ مارشل بھی ہوا اور سزا بھی سنائی گئی، جو انہوں نے بھگتی بھی۔ رہائی پر ایک روز انہیں کونسل آف نیشنل افیئرز لاہورکے ایک اجلاس میں بلایا گیا۔ بتانے لگے۔ اگر میری مارشل لاء لگانے کی کوشش کامیاب رہتی تو میری پہلی نشری تقریر میں سرکاری اداروں کی تمام اراضی کی لیزوں کی منسوخی کا حکم جاری کر دیا جانا تھا۔ ان پر کی گئی تمام تعمیرات بھی بحق سرکار ضبط ہوجانی تھیں۔ ان لوگوں نے قومی خزانے کو بہت لوٹا ہے۔

اس بات پر کالم نگار کو اپنا شہر یاد آگیا۔ گوجرانوالہ میں میونسپل کارپوریشن کی ملکیتی پانچ سو سے زیادہ دکانیں آنوں ٹکوں کے عوض عرصہ دراز سے کرایہ پر چڑھی ہوئی ہیں۔ ان میں بے شمار دکانیں ایسی بھی ہیں کہ ان کا کرایہ ایک لاکھ روپیہ ماہوار سے زیادہ ہونا چاہیے۔ لیکن وہ صرف ایک ہزار روپیہ مہینہ ادا کر رہے ہیں۔ سرکاری افسران اورسیاسی ذمہ داران کی غفلت اور نا اہلی کی سزا میونسپل کارپوریشن اپنے وسائل کی کمی کی صورت میں بھگت رہی ہے۔

 ادھر چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی بتا رہے ہیں کہ پاکستانیوں کے ایک سوبیس ارب ڈالر غیر ملکی بینکوں میں پڑے ہیں اور انہیں واپس لانا بھی کچھ آسان نہیں۔ یہ ٹیکس کی مد سے بچائے ہوئے پیسے، سرکاری ٹھیکوں میں ککس بیکس کے پیسے اور رشوت کے پیسے دراصل حکومت پاکستان کے پیسے ہیں۔

ایک تازہ خوفناک خبر اور بھی ہے۔ پچھلے دنوں ”تبدیلی والی سرکار“ نے با اثر صنعتکاروں، کھاد فیکٹریوں، سی این جی اسٹیشنزاور پاور پلانٹس کے مالکان کو دو سو آٹھ ارب روپے ایک آرڈیننس کے ذریعے معاف کر دیے ہیں۔  ٹیکس کی یہ رقم وہ عوام سے وصول کر چکے ہیں۔ لیکن سرکار کو دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہے تھے۔ معافی ہو گئی۔ قصہ ختم ہوا۔

کوئی بھی حکومت عوام کو ٹیکسوں کی وصولی کے بغیر سہولتیں مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن ایسی بے تکی معافیاں، سیاستدانوں کی لوٹ مار اور نوکرشاہی کی کرپشن عوام کو بھی ٹیکس چوری کرنے اور سرکاری املاک پر مفت میں قابض رہنے کی ترغیب دیتی ہے ں۔ انہیں ضمیر کی خلش بھی نہیں ہوتی کہ اگریہ لوگ اتنے مفاد اٹھا رہے ہیں تو بہتی گنگا سے یہ کیوں نہ ہاتھ دھو لیں؟

 لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مقروض اور خالی جیب حکومت کے لئے اپنے شہریوں کو سہولتیں مہیا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جب تک ان کے مالی مسائل دور نہیں ہوں گے یہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ فارسی محاورے کے مطابق دور دراز ملک عراق سے تریاق آتے آتے سانپ سے ڈسے مریض کے بچنے کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ ان حالات میں برادریوں اور مخیر حضرات کی امداد مرتے لوگوں کے بہت کام آتی ہے۔ معاشرے میں بہت سے لوگ موجود ہیں جو اس طرح مشکل گھڑی میں خلق خدا کے کام آتے رہتے ہیں۔

شہر گوجرانوالہ میں داخل ہونے والوں کا حاجی مراد علی آئی ہسپتال کی وسیع و عریض رقبہ پر شاندار بلڈنگ استقبال کرتی ہے۔ یہ ہسپتال ایک اکیلے مخیر شخص حاجی مراد علی کی کاوش ہے۔ اللہ ان کی قبر نور سے بھرے۔ خود غرض، بد دیانت اور دولت کی شدید ہوس میں مبتلا ہمارے معاشرے سے کبھی کبھی کوئی ایسی خبر بھی آجاتی ہے جو استاد دامن کے لفظوں میں ”کجھ امید اے زندگی مل جائے گی“ کا پیغام ثابت ہوتی ہے۔ خبر یوں ہے کہ پچھلے دنوں ٹھٹھہ داد تحصیل گوجرانوالہ سے چوہدری زبیر احمد چیمہ نے پانچ پانچ مرلہ کے دس مکان، پینتیس رکشے اور پانچ سو سلائی مشینیں اپنے علاقہ کے بے گھروں، بیروزگاروں اور غریب بیوہ عورتوں میں تقسیم کی ہیں۔ بیشک ایسی درد دل رکھنے والی عظیم مخیر شخصیتیں ہی کسی شہر، بستی، گاؤں کی عزت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).