جنگ کے بادل چھا رہے ہیں



\"ershad کنٹرول لائن پر کشیدگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بھارتی فوج کا یہ دعویٰ کہ اس نے آزاد کشمر میں گھس کر بقول ان کے \”دہشت گردوں\” کو ہلاک کیا ہے، ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کے فوجی ترجمان عاصم باجوہ نے ایسے کسی بھی حملے کی تردید کر دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی حکومت جو کچھ عسکری طور پرحاصل نہیں کرسکی وہ اسے میڈیا وار کے ذریعے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بھارتی ٹی وی چینلز دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصل جنگ ان چینلز کی سکرین پر برپا ہے۔ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے چکر میں غیر مصدقہ خبریں اور تجزیے چلائے جا رہے ہیں۔ سینئر انڈین سفارت کار اور فوجی مبصرین بھی اس قدر نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں کہ کم ہی کوئی عقل اور دانش کی بات کرتا سنائی دیتا ہے۔ سب مل جل کر مودی حکومت کو بھڑکا رہے ہیں۔ جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔

بعض مبصرین جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں اور ان کے سیاسی مقاصد بھی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مودی سرکار کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا جائے تاکہ اگلے الیکشن تک اس کی ہوا نکل جائے۔ بی جے پی کا ترقی اور عالمی طاقت بننے کا خواب بکھر جائے اور وہ اگلے عام الیکشن میں بے نیل مرام ایوان اقتدار سے رخصت ہوسکے۔

نریندر مودی اور ان کے گرد موجود ٹیم کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ کوئی نہ کوئی کھڑاک کرنے کے موڈ میں ہیں تاکہ ان کا عوامی امیج بحال ہوسکے۔ دوسری صورت میں انہیں حزب اختلاف کی جماعتیں اور اگلے چند ماہ بعد بھارت میں ہونے والے ریاستی الیکشن میں منہ کی کھانا پڑے گی۔ دہلی میں سیاسی اور عسکری لیڈر سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ وہ کیا ایسی چال چلیں کہ سانپ بھی مرجائے اور رسی بھی نہ ٹوٹے۔ دقت یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اور سیاسی لیڈر شپ ہر قسم کی مہم جوئی کا جواب دینے کو تیار بیٹھی ہے۔ عوام اورطفوج کا جذبہ حیرت انگیز طور پر بلند ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جو بھی ہونا ایک بار ہوجائے تاکہ روز روز کا یہ سلسلہ ختم ہو۔

بھارت کا اصل گیم پلان یہ ہے کہ کنٹرول لائن پر ایسی صورت حال پیدا کر دی جائے کہ دنیا کی توجہ کشمیر میں جاری تحریک مزاحمت کی بجائے پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی اور جنگ کے خطرات کو کم کرنے پر مرکوز ہو جائے۔ اوڑی ہو یا اب کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں، بھارت کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دنیا کشمیر کی بات کرنے کی بجائے پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کم کرانے میں مصروف ہو جائے۔ کشمیری بھی اس دوران تھک جائیں گے اور رفتہ رفتہ زندگی معمول کی طرف لوٹ آئے گی۔ یوں تحریک کا جوش وخروش قصہ پارینہ بن جائے گا۔

پاکستان کی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ اس خطرہ کا ادراک رکھتی ہے اور وہ کسی بھی صورت میں کشیدگی کو اس حد تک نہیں لے جانا چاہتی جہاں سے واپسی کا راستہ ہی نہ ملے۔ علاوہ ازیں کشمیر کی تحریک پس منظر میں چلی جائے۔ کارگل کی جنگ کے دوران بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ ملاقات میں جتن کیے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی حامی بھریں لیکن وہ نہ مانے۔ نوازشریف نے درخواست کی کہ وہ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے یقین دہانی حاصل کریں کہ وہ جنگ کے بعد کشمیر پر بات کریں گے لیکن وزیراعظم نوازشریف کو باور کرایا گیا کہ وہ ایٹمی جنگ کا خطرہ پیدا کرکے نہ صرف عالمی حمایت حاصل نہیں کرسکتے بلکہ ان کی مسئلہ کے حل کے لیے امریکی مداخلت کی خواہش بھی پوری نہیں ہوگی۔
بھارت نہ صرف پاکستان پر عسکری دباؤ بڑھا رہا ہے بلکہ سفارتی اور سیاسی سطح پر بھی پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا۔ سارک کانفرنس کا التواء اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کی پاکستان سے نفرت اور بھارت نوازی کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں حسینہ واجد نے پاکستان کی حمایت کرنے والے بنگلہ دیشی سیاستدانوں اور شخصیات کا چن چن کر عدالتی قتل عام کیا تاکہ بنگلہ دیش کی سر زمین پر پاکستان سے محبت کرنے والوں کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہے۔

افغانستان کی حکومت نے بھارت کی ہاں میں ہاں ملا کر جس کم ظرفی کا مظاہرہ کیا اس نے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید زہر گھول دیا ہے۔ افغان حکومت نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کے لاکھوں شہری پاکستان میں مقیم ہیں۔ جو پاکستان میں کاروبار اور ملازمتیں کرتے ہیں۔ اس فیصلے کا ان پر کیا منفی اثر پڑے گا؟

بدقسمتی سے افغانستان کی اکثر حکومتوں نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان مخالف طرزعمل اختیار کیا۔ جس کا خمیازہ عام افغانی شہریوں کو بھگتا پڑتا ہے لیکن حکمران ٹس سے مس نہ ہوئے۔ حکومت پاکستان جو گزشتہ طویل عرصے سے افغان طالبان اورحکومت کے مابین صلح کرانے کی کوششوں میں لگی ہوئی تھی اب اس کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان طالبان اور صدر اشرف غنی کی حکومت کو اپنے حال پر چھوڑ دے۔ تاہم اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے لیکن مصالحت اور ثالثی کی کوششوں میں اپنا وقت ضائع نہ کرے کیونکہ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں۔ جب بھی پاکستان کی کوئی کاوش منطقی انجام کے قریب پہنچتی ہے تو امریکہ بہادر ایک ڈرون حملہ کر کے ساری کوششوں اور محنت کو سبوتاژ کردیتا ہے۔

عالمی برداری بالخصوص امریکہ نے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر جس طرح کی خاموشی اختیار کیے رکھی ہے وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ نوجوانوں میں خاص طور پر مایوسی پیدا کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری بحثوں کے سرسری جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اب یہ محسوس کرتی ہے کہ پرامن سیاسی جدوجہد سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے۔ تین ماہ سے جاری کرفیو اور قربانیوں کے باوجود عالمی ضمیر پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایک نوجوان نے ٹویٹر پر سوال کیا کہ عالمی ضمیر کو بیدار کرانے کے لیے مزید کتنا خون بہانا پڑے گا؟

جنگ پاکستان یا کشمیریوں کے مفاد میں نہیں لہٰذا اس سے بچنے کی کوشش جاری رکھی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں عالمی اداروں کو بھی متحرک کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ یہ خطہ کسی تباہی سے بچ سکے۔ علاوہ ازیں جنگ کے نتیجے میں کشمیر ایشو ایک بار پھر کئی برسوں کے لیے پس منظر میں چلاجائے گا۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments