سینما سکینڈل: پیار کرنے دیں


کیا آپ نے کبھی کسی سینما میں جاکر کچھ رومانوی کرنا چاہا؟ یا سوچا؟ آخر چند جوڑوں نے پیار کرنے کے لیے سینما ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ کہیں اور بھی تو کرسکتے تھے۔ کہیں اور کہاں؟ یہاں ایک اور سوال جنم لیتا ہے۔ اگر آپ کسی کا سر سے پاؤں تک احتساب کرنا چاہتے ہیں تو نیب کے دفتر کے سوا آپ کے پاس کیا کیا آپشن موجود ہیں؟

کیا نوجوان اپنے محبوب کو گھر لے جا سکتے ہیں؟ اگر اکثریت کو دیکھا جائے تو بالکل نہیں۔ کیوں نہیں؟ اس کا جواب رد عمل میں چھپا ہے۔ یا تو گھر والوں کا مذہب جاگ جائے گا یا پھر غیرت۔ نہیں تو معاشرہ کیا کہے گا؟ منہ کالا مت کرو جیسے طعنے۔ اور تو اور ماں باپ کی جانب سے بے حد اذیت ناک اور جذباتی بلیک میلنگ کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ چلیں آپ ایک کشادہ سوچ کے حامل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ اپنے محبوب کو اپنے گھر لے جا سکتے ہوں گے۔

کیا آپ اپنے کمرے میں لے جاکر اسے پیار بھی کر سکتے ہیں؟ پیار تو کیا ہاتھ بھی تھام سکتے ہیں؟ جواب ہاں میں ہے تو آپ خوش قسمت ہیں۔ یہ معاشرہ تو میاں بیوی کو بھی پیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ جوائنٹ فیملی میں رہنے والے جوڑوں سے پوچھیں! پیار؟ وہ تو بہت دور کی بات ہے، خوشگوار احساس ہے۔ یہاں تو میاں بیوی کے کمرے سے قہقہے کی آواز بلند ہونے پر مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہنی مون پر میاں بیوی کے ساتھ پورا خاندان چلا جاتا ہے۔ شوہر کے گھر آنے سے قبل بیوی ذرا سا سج سنور جائے تو اس کے کردار پر سوالات اٹھنے لگتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں غیر شادی شدہ جوڑوں کا محبوب سے اپنے گھر میں میل ملاقات کرنا کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے، حقیقت نہیں۔

معاملہ کچھ واضح ہوا۔ اپنے گھر میں پیار کرنا ممکن نہیں۔ تو پھر ممکن کہاں ہے؟ کسی ہوٹل میں؟ ایک تو تیزی سے گرتی ہوئی معیشت میں ہوٹل خاصا مہنگا پڑے گا۔ دوسرا وہاں پر ماحول انتہائی خراب۔ بدبودار بستر، میلے تکیے وغیرہ وغیرہ۔ کوئی بات نہیں پیار کے لیے آپ مال اور ماحول کی قربانی دینے پر آمادہ ہو بھی گئے ہیں تو پولیس کے چھاپے کا ڈر اور ویڈیو ریکارڈنگ کا خوف آپ کو استغفار کرنے پر مجبور تو کرسکتا ہے۔ پیار کرنے پر نہیں۔

گلی محلوں میں قائم ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسوں کی بنی ہوئی ایسی بہت سی ویڈیوز انٹرنیٹ پر میسر ہیں۔ بہت سے صحافی ایسے جوڑوں کی کہانیاں بھی سامنے لا چکے جو کسی ہوٹل میں ڈیٹ کرنے گئے اور اپنی ویڈیو ریکارڈ کروا بیٹھے۔ ایک بار آپ کی ویڈیو کسی کے پاس آگئی ہے تو زندگی بھر کی بلیک میلنگ۔ اکثر لڑکیاں تو ایسی صورتحال کے بعد خودکشی تک پر مائل ہوئیں۔

اب تک پیار آپ نہ اپنے گھر میں کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہوٹل میں۔ تو پھر کریں کہاں؟ ایسی صورتحال میں انسان اپنے تخلیقی ذہن کا بہترین استعمال کرتے ہوئے نت نئے طریقے ایجاد کرتا ہے۔ بہت سے دروازوں پر دستک کے بعد آدمی اپنا دروازہ خود ہی بنا لیتا ہے۔ کچھ جوڑے پیار کرنے کے لیے گاڑی کا انتخاب کرتے ہیں تو کچھ پارک کا تو کوئی سینما چلا جاتا ہے۔ جیسے جہاں کسی کو آسانی ہو۔ کراچی کا ڈیفینس فیز ایٹ جوڑوں میں اس ہی وجہ سے خاصی شہرت رکھتا ہے۔

جہاں وہ اپنی گاڑی پارک کرکے سکون کے چند لمحے گزار سکتے ہیں۔ مگر یہ بھی محفوظ نہیں۔ پکڑے جانے پر پولیس کے ہاتھوں اچھی خاصی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پھر گاڑی ہر کسی کو میسر بھی نہیں ہوتی۔ اب پتہ چلا ہے کہ پیار کرنا سینما میں بھی ممکن نہیں کہ آپ کی ویڈیو بن کر لمحوں میں وائرل ہوجائے گی۔ اور اس کے بعد آپ گناہ گار۔

اگر ماں باپ ذرا سا سوچیں، آنکھیں کھولیں تو اولاد کو بھی شرمندگی سے بچاسکتے ہیں اور خود کو بھی۔ بجائے آپ کا جوان بیٹا یا بیٹی کسی ہوٹل کا رخ کرے، کسی گاڑی کو اپنا بیڈروم بنائے یا کسی سینما چلا جائے۔ کیوں نہ اسے تھوڑا سا اعتماد دیا جائے۔ اپنے محبوب کو گھر لانے کا اعتماد، اپنے راز ماں باپ سے بانٹنے کا اعتماد، گھر میں کسی کو ڈیٹ کرلینے کا اعتماد۔ اگر کوئی جوڑا گھر میں پیار کرتا ہے تو ماں باپ کو کم سے کم معلوم تو ہوگا کہ اولاد کس کے ساتھ کیا کر رہی ہے؟ پھر آپ فطرت کو روک بھی تو نہیں سکتے؟ آخر اولاد کو ڈیٹنگ کی اجازت اور اعتماد دینے کے سوا حل ہی کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).