کشمیر کے ایشو پر مسلم اُمہ کیوں بیدار نہیں ہو رہی؟


کشمیر کا ایشو جو اب عالمگیر ایشو بن چکا ہے اور جس پر پاکستان اپنے اُصولی موقف کے ساتھ پوری شد و مد کے ساتھ دُنیا کے ساتھ رابطوں میں مصروف ہے۔ اس ضمن میں پاکستان سلامتی کونسل میں بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروا چکا بلکہ دیگر عالمی فورمز پربھی کشمیر کے مسئلے کو اُجا گر کر رہا جبکہ عالمی عدالت میں بھی جانے کا عندیہ دیا ہے۔ دُنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اس ایشو پر بات کر رہا ہے اور خاص طورپر مسلم اُمہ کے ساتھ بات کر رہا ہے کہ وہ اس ضمن میں ہمارا ساتھ دیں۔

حیر ت اور تاسف کی بات یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر عالمی برادری جن میں صرف چین، ترکی اور امریکہ کی طرف سے حمایت کا اعلان کیا گیا لیکن مسلم اُمہ کی طرف سے نہ تو انفرادی طور پر کسی مسلم ملک نے اور نہ ہی مسلم ممالک کی بنائی جانے والی تنظیم او آئی سی (Organization of Islamic Cooperation) نے کوئی بیان دیا ہے۔ مزید حیرت اُس وقت ہوئی جب متحد ہ عرب امارات نے کشمیر میں شدید اضطراب کے عالم کے باوجود انڈیا کے وزیر اعظم کودعوت دی اور اُنہیں ملک کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ ”زاید ایوارڈ“ سے نوازا گیا جبکہ ا س موقع پر ایک یادگاری ٹکٹ کا بھی اجراء کیا گیا جس پر مہاتما گاندھی کی تصویر کنندہ ہے۔

یو اے ای کی طرف سے کیے ان اقدامات سے وفاقی وزیر، فواد چودھری صاحب کو یہ ٹویٹ کرنی پڑی کہ ”ہمیں مسلم اُمہ کی بجائے اپنے ملک کی فکر کرنی چاہیے“۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے اتنے بڑے احتجاج کے باوجود مسلم اُمہ کیوں بیدا ر نہیں ہو رہی؟ کیوں وہ انڈیا کوغاصب ملک ماننے کو تیا ر نہیں ہیں؟ کیوں وہ مودی اور اُس کی کابینہ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں؟ یاد رہے کہ نریندر مودی کے موجودہ دور ے سے پہلے او آئی سی کے اجلاس میں انڈیا کو بطور مبصر دعوت دی گئی حالانکہ اس وقت بھی پاکستان نے شدید احتجاج کیا تھا کہ انڈیا جب او آئی سی کا رُکن ہی نہیں ہے تو اُسے کیوں مدعو کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود انڈیا کو مدعو کیا گیا۔

اس تمام صورتحال کے بعد ایک بات تو ہمیں ادراک ہو جانا چاہیے کہ مسلم امُہ کی انڈیا سے قربت کی وجہ مذہب نہیں بلکہ کاروباری شراکت داری ہے جو اُنہیں ہر حال میں عزیز ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کشمیر ایشو پر پاکستان کی حمایت کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ اس تناظر میں ہمیں یہ تو مان لینا چاہیے کہ دنیا کے مسائل کو مذہب کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے حقیقت میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اب ہمیں یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا بحیثیت قوم ہم اس ایشو پر متحد ہیں اور اگر متحد ہیں تو کیا وجہ ہے کہ معروف لکھاری تنویر قیصر شاہد کو اپنے کالم (روزنامہ ایکسپریس 26 اگست 2019 ) میں قوم کے دوہرے رویے کے بارے میں لکھنا پڑا اُسے پڑھ کر لگتا ہے کہ کشمیر کے ایشو پر شاید ہم متحد نہیں ہیں۔

وہ لکھتے ہیں ”حیرانی کی بات ہے کہ ملک بھر میں کشمیریوں کی محبت میں ایک طرف تو بھارت کے خلاف بیانات کے شعلے بھڑکائے جا رہے ہیں تو انہی دنوں ایک بھارتی گلو کار میکا سنگھ کو پاکستان میں مدعو کیا گیا اُس نے کراچی میں پرفارم بھی کیا، بھارتی گانے گائے اور لاکھوں روپے فیس بھی وصول کی۔ شنید ہے کہ میکا سنگھ کا واہگہ بارڈر پر سرکاری سطح پر سواگت ہوا اور لاہور کے ایک بڑے سرکاری گھر میں اُسے کھانا بھی دیا گیا۔

سرکاری سطح پر ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ بھارت سے تمام ثقافتی تعلقات منقطع کیے جا چکے ہیں لیکن اس سرکاری اعلان کے باوجود میکا سنگھ کیسے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں گاتے پھرے؟ ہمارے ہاں تو اس بھارتی گلوکار کے خلاف کوئی خاص ردِ عمل نہیں آیا کہ ہم ٹھہرے فراخ الذہن اور وسیع القب لیکن بھارتیوں نے میکا سنگھ کو پاکستان جانے پر معاف نہیں کیا۔ میکا سنگھ نے لندن جا کر بھارتیوں سے معافی بھی مانگی لیکن اُسے معاف نہیں کیا جا رہا۔ ”

ہم کتنے قوم پرست ہیں اگر ہم نے اس کا ثبوت دینا ہے تو ہم انڈیا کا ہر سطح پر بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے کیا ہم ایسا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، ہم ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری اکثریت انڈین فلموں کی دلدادہ ہے، ہم انڈین کاسمیٹیکس، انڈین جیولری، انڈین ملبوسات کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ یعنی ہمیں صرف انڈیا کی صرف حکومت بُری لگتی ہے انڈیا نہیں۔ چلئے ایک لمحے کے لئے یہ مان لیتے ہیں کہ ہمیں صر ف مودی سرکار سے نفرت کرنی چاہیے انڈین عوام سے نہیں لیکن یاد رہے کہ انڈین عوا م کی اکثریت پاکستان سے ہر سطح پر تعلقات منقطع کرنے پر زور دیتی ہے۔ گو کہ ان تمام اقدامات سے دونوں ممالک کے درمیان امن کی تمام کوششیں ژبوتاز ہوں گی لیکن کیا کیا جائے کیونکہ انڈیا ہماری کوئی بھی دلیل سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ویسے بھی امن کی کوشش دو طرفہ ٹریفک کی طرح ہے لیکن اگر ایک طرف سے ٹریفک بند ہو جائے تو پھر اس کو شش کو کیسے آگے بڑھا یاجائے؟

یہ وہ تمام وہ چیزیں ہیں جو دُنیا اورمسلم اُمہ کو کشمیر کے ایشو پر ہماری حمایت سے روکتی ہیں کیونکہ اُنہیں علم ہے کہ اس ایشو پر سرکاری موقف کچھ اور ہے اور عوام کا نقطہ نظر کچھ اور ہے۔ یہا ں کشمیر کے معاملے پر حکومت کی حکمت عملی پر بھی سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ نہ صرف وہ ملک بلکہ ملک سے باہر بھی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جہاں جہاں دُنیا بھر میں پاکستانی موجود ہیں اُنہوں نے احتجاج ریکارڈ کروایا ہے بھلے اُن کی تعداد کم ہی سہی اور اس میں سکھ کمیونٹی نے کسی حد اُن کا ساتھ دیا ہے لیکن یاد رہے کہ سکھوں کی خالصتان کی اپنی تحریک ہے جسے وہ کشمیر کی آزادی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح ملک کے اندر بھی تاحال عوام کی طرف سے اُس طرح کا جذبہ نظر نہیں آیا اور نہ ہی بڑی تعداد میں لوگوں نے مارچ کیے ہیں۔

اس صورتحال کو دُنیا کے ساتھ مسلم اُمہ بھی دیکھ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری حمایت کرتے نظر نہیں آ رہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کشمیر ایشو پر جو جوائنٹ سیشن ہوئے اُن کی ناکامی کی کہانی سب کے سامنے ہے کہ کس طرح حکومت اور اپوزیشن سیاستدانوں نے ایشو سے ہٹ کر سیاست کی اور اس ایشو پر جوائنٹ بیان کی بجائے علیحدہ علیحدہ بیان دیے جس سے قوم جو اس ایشو پر پہلے ہی تقسیم نظر آتی ہے وہ مزید تقسیم ہو چکی ہے۔ اب حکومت کی طرف سے اپیل کی گئی ہے کہ عوام زیادہ سے زیادہ تعداد میں باہر نکلیں اور کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کریں لیکن ایک دفعہ پھر حکومت کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

میرے نزدیک عوام کی موجودہ حکومت کی بے رُخی کی وجہ یہ کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مہنگائی کے چنگل میں جس طرح پھنسا دیا ہے اُن کے لئے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا ہی محال ہے ایسے میں وہ کیسے حکومت کی بات مان کر اپنی دیہاڑی کو توڑ کر حکومت کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ عوام پہلے ہی حکومتی ٹیکس اپیل کو مسترد کر چکی ہے جس کی وجہ سے حکومت ٹیکس کی مد میں عوام کا خون نچوڑ کر بھی اپنا وہ ہدف پورا نہیں کر سکی جس کی وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر دعوے کیا کرتے تھے۔

اس ضمن میں حکومت کے لئے مشورہ ہے کہ پہلے عوام کا اعتماد بحال کرے، اُن کی ضرورتوں کو پورا کرے تو پھر عوام یقینا اُن کا ساتھ دے گی ورنہ یہ جتنی مرضی جذباتی تقریریں کر لیں اب عوام ان کے چکر میں نہیں آنے والی۔ بالکل یہی تاثر عالمی سطح پر بھی ہے کیوں کہ ہر ملک انڈیا کا داخلی معاملہ کہہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم اُمہ نے نریندر مودی کا کشمیر کے حوالے سے موقف کو مان لیا ہے۔

اس لئے اب ہمیں مذہب کو علیحدہ رکھ کر عقل کے ساتھ یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے مسلم اُمہ اپنے تجارتی مفادات کو سامنے رکھ کر انڈیا سے روابط بڑھا رہی ہے اور یہی تجارتی مفادات مسلم اُمہ ہمارے ساتھ بھی استوار کیے ہوئے ہے تو اگر وہ کشمیر ایشوپر ہماری حمایت نہیں کر رہے تو کیاہم اُن سے تجارتی تعلقات ختم کر لیں۔ سوشل میڈیا پر غم و غصے سے بھرے پاکستانی تو شاید یہی چاہتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ غم و غصہ کے اس ماحول میں حکومت کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اُن طاقتور ملکوں سے بارہا درخواست کرنے کی ضرورت ہے جو انڈیا پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ہمیں

مسلم امہ کو کشمیر ایشو کو دوبارہ بتانے کی ضرورت ہے جس میں صرف اور صرف آزاد کشمیر کی بات ہو۔ ہمیں ملک کے اندر اپوزیشن اور عوام کو نرم لہجے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ِ وقت کے لئے ایسا کرنا ازحد ضروری ہے تب ہی دُنیا کو دکھایا جا سکے گا کہ کشمیر کے ایشو پر پورا ملک آزاد کشمیر کا مطالبہ کر رہا ہے۔ میڈیا کو اس ضمن میں ساتھ ملانے کی ضرورت ہے کیونکہ شاید یہی ایک ایسا میڈیم ہے جس کی وجہ سے ہماری پوری دُنیا میں اپنے پیغام کو تیزی کے ساتھ پہنچا سکتے ہیں۔

کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو ثبوت کے ساتھ دکھانے کی ضرورت ہے۔ پورے ملک بلکہ پوری دُنیا سے دستخطی مہم کے ذریعے یو این او تک اپنے تاثرات پہنچانے کی ضرورت ہے۔ مسلم اُمہ کے ساتھ نئے سرے سے جڑت بنانے کی ضرورت ہے اس بات سے قطع نظر کہ انڈیا کے اُن سے کیسے تعلقات ہیں۔ انڈیا کے ساتھ اگر تجارتی معاہدے کرنا مجبوری ہے تو اُسے کشمیر کی آزادی کے ساتھ مشروط کیا جانا چاہیے۔ یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ ان تمام اقدامات میں ہمیں انتہائی سوچ سمجھ کے ساتھ قدم بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ شدتِ غم میں ہم کوئی ایسی غلطی نہ کر بیٹھیں جس کی وجہ سے ہم دُنیا سے علیحدہ ہو جائیں اور دُنیا ہمارا موقف سُننے کے لئے تیار نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).