عالمی نظم کے زوال کے تناظر میں ہماری سفارتی ناکامی


ریاست کے باہمی تعلقات کا تعین بلاشبہ ان کے مفادات سے وابستہ ہے۔ ویسٹ فیلین ڈھانچے میں قوم پرستی کی روح نے اس امر کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی کہ ریاستیں مفادات کو یکسر نظرانداز کر کے محض نیک نامی کی غرض سے تعلقات نبھائیں۔ گزشتہ تین صدیوں میں ریاستوں نے اس رویے کو بلا روک ٹوک بھرپور طور پر اپنے اپنے انداز میں استعمال کیا۔ نتیجتاً غیر یقینی اور غیر مستقل حالات نے جنگ کو ارزاں کردیا یہاں تک کہ معمولی علاقائی تنازعات عالمی جنگوں کا پیش خیمہ بن گئے۔

تاہم دوسری عالمی جنگ اپنی نوع میں ایک ایسی جنگ ثابت ہوئی جس نے اب تک کی انسانی تاریخ کے مختلف حصوں کو میں پائے جانے والے جبر ظلم اور جارحیت کو جامع کیا۔ اس جنگ میں خفیہ معاہدات سے لے کر معاہدہ شکنی تک، انفرادی پاگل پن سے لے کر اجتماعی جارحیت تک، عوامی پزیرائی سے لے کر عوام کے ہی ہاتھوں مارے جانے تک، خودکش حملوں سے لے کر یک بیک حملے تک، قتل عام سے لے کر نسل کشی تک ہر قسم کا بدترین عمل اپنی انتہا تک جاتا نظر آیا۔

اسی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اس وقت کے عالمی رہنماؤں یا یوں کہیں کہ فاتحین نے عالمی امور میں معاشی، سفارتی اور سیاسی ربط اور نظم پیدا کرنے کے لئے کچھ بین الاقوامی ادارے تشکیل دینے کی داغ بیل ڈالی جن کا بنیادی مقصد مفادات کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ریاستوں میں درمیان ایک ایسا مربوط نظام تشکیل دیا جانا تھا جو ریاست کے باہمی حالات و واقعات کو قابو میں رکھتے۔

چنانچہ عالمی اداروں کی تشکیل نے ایک خودکار تسلسل کے ساتھ ریاستی مفادات و تعلقات میں مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کی جس سے گلوبلائزیشن کا عنصر ابھر کر سامنے آیا۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اسلحہ کی دوڑ پر قدغنیں لگاتے معاہدے، علاقائی ریاستی تنظیم سازی، معاشی بلاکس وغیرہ نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کو کامیابی سے روکے رکھا۔ اگرچہ جنگیں جاری رہیں لیکن ان کے متوازی سفارتی گفت و شنید کی کوششوں نے ان کو محدود تباہ کاری کے دائرے کے اندر رکھا۔ بحیثیت مجموعی یہ دور پرامن رہا جس کی وجہ سے نسل انسانی نے سماجی و سائنسی میدانوں ترقی کی عظیم جستیں لگائیں۔

جس طرح اس عالمی نظم کو بنانے کا بیڑہ عالمی طاقتوں نے اٹھایا تھا اسی طرح اسے حرکت میں رکھنے کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی تھی۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے ان طاقتوں کی ناعاقبت اندیشی اور ہٹ دھرمیوں کی وجہ سے یہ نظام تیزی سے روبہ زوال ہے۔ امریکہ کا اقوام متحدہ کو نظرانداز کر کے عراق پر حملہ کرنا، شمالی کوریا کا این پی ٹی کو نظرانداز کر کے ایٹمی ہتھیار بنانا، روس کا جارجیا اور یوکرین کی سالمیت کو نیٹو اتحاد میں شمولیت کے ڈر سے لتاڑنا اور پھر کریمیا پر قبضہ جمانا، برطانیہ کا یورپی اتحاد سے نکلنے کے محض سیاسی نعرے کو عملی شکل دینا، شام میں پراکسی جنگ کا احیاء، اسرائیل کا گولان اور یروشلم پر قبضے کا باقاعدہ اعلان، امریکہ کا یک طرفہ طور پر انسانی حقوق کونسل سے نکلنا، ایران ڈیل سے اعلان لاتعلقی کرنا، گلوبل وارمنگ سے متعلقہ معاہدات کو خیرباد کہنا، اور مہاجرین سے متعلق سخت رویوں نے عالمی نظم کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ اسی تسلسل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو مدغم کرنے کی سعی کی۔

اس سے زیادہ المیہ کیا ہو گا کہ بھارت اس عالمی مسلے کو اندرونی مسئلہ قرار دے رہا ہے اور اس انسانی و سیاسی بحران کو اپنی معاشی اور تزویراتی اہمیت کے زور پر قابل جواز بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ عرب اور یورپ سمیت اکثر ممالک بھارت کی اس جارحیت کو اس کی معاشی اہمیت کی چندھیا دینے والی روشنی کے سبب دیکھ ہی نہیں پا رہے۔ اب اگر بھارت پر مسئلہ کشمیر پر دباؤ ہے بھی تو محض اس حد تک کہ کرفیو کا خاتمہ کر کے زندگی کی روانی کو یقینی بنانے کی یقین دہانی کرائی جائے۔ اس پورے عمل میں مقبوضہ کشمیر کی آزادانہ حیثییت کو کمال چالاکی سے نظرانداز کیا جارہا ہے۔

عالمی نظم کے زوال کی حقیقت کو سمجھنے میں شاید پاکستانی فیصلہ ساز درست طور پر تعین نہیں کر سکے اور اسی بات کا فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ اب منظرنامہ یہ سامنے آرہا ہے کہ ایک طرف پاکستان نے اپنے بیش قیمت ”اثاثہ“ طالبان کو افغان سیاسی عمل میں شامل کر کے سٹریٹجک ڈیپتھ والے بیانیے سے پیچھے ہٹ گیا اور دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کو سفارتی طور بھارت کے ہاتھوں کھو دیا۔ شاید اسی بوکھلاہٹ میں متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں۔

کبھی کہا جاتا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے اور کبھی ایٹمی جنگ کے خطرے سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ کچھ سقراط سلامتی کونسل کے غیر رسمی اجلاس کو کامیابی بنا کر پیش کر رہے ہیں اور کچھ بقراط عالمی عدالت انصاف میں جانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ایک موقع پرست وزیر کے بیان سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ گویا کہ اگر جنرل اسمبلی کے خطاب میں ”ڈی چوک“ والی توجہ نہ دی گئی تو اس سے اگلے ماہ جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ معلوم نہیں یہ بیانات باہمی مشورے سے جاری ہورہے ہیں یا استخارے کی بدولت۔

مجموعی طور پر اب بھی ہمارے سفارتی و سیاسی ذرائع ان حقائق کو تسلیم کرنے سے منکر ہیں کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت اس کی آزادانہ حیثییت کے تاثر کو انسانی حقوق کی پامالی کے بیانیے سے بدل رہا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ کشمیری ہندو مسلم فسادات کروا کر نیا بحران پیدا کیا جائے۔ مسلے کی نزاکت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کے حل کے لئے میسور کی ٹویٹ، ملتانی حلوے میں لپٹی حوصلہ افزائی اور گزشتہ کردہ ناکردہ قربانیوں کے اعادے کی دنیا سے نکل کر وزیراعظم بذات خود سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ممالک کے انفرادی طور پر دورے کرتے، اپنے ساتھ آزاد کشمیر کے وفد لے جاتے اور اس کیس کو سلامتی کونسل کے باضابطہ اجلاس میں اٹھانے کا دباؤ ڈالتے۔ جب کہ وزیر خارجہ کو کم از کم غیر مستقل ارکان سمیت دوست ممالک کی طرف ضرور بھیجا جاتا۔ لیکن محسوس یوں ہوتا ہے کہ ہم گزشتہ کچھ عرصے سے بارود اور دم درود کے سر پر ملک چلانے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).