67 الفاظ کے وزن کے نیچے دبی ہوئی دنیا


جب یہ 67 الفاظ لکھے گئے تو لکھنے والے کو بھی یقیناً اس کا اندازہ نہیں ہوگا کہ اس مختصر تحریر کا نتیجہ اس کی سوچ کی وسعتوں سے کہیں زیادہ ہو گا۔ اگر ہم دنیا کی سیاست اور معیشت پر ان 67 الفاظ پر مشتمل اعلامیہ کا اثر دیکھیں تو اس کی نظیر تاریخ میں نہیں مل سکے گی۔ اس تحریر پر عمل کرنے کے نتیجے میں ان گنت لوگ مارے جاچکے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ معذور ہو چکے ہیں، لاکھوں خاندان اپنے گھربار کھو چکے ہیں، گاؤں کے گاؤں اجڑ چکے ہیں، نسل در نسل مہاجر کیمپوں میں پل رہے ہیں، زمینداروں کے باغات اور کھیت چھینے جا چکے ہیں یا پانی کے لیے ترس رہے ہیں، نقل و حرکت پر سخت پابندی ہے اور لوگ ذلّت اور تحقیر کی زندگی گزار رہے ہیں۔

پہلی جنگِ عظیم میں برطانیہ، فرانس اور روس ایک طرف تھے اور دوسری طرف جرمنی، ترکی، آسٹریا اور ہنگری تھے۔ برطانیہ نے اپنا پلڑابھاری کرنے کے لئے صیہونی تحریک کی مدد لینا چاہی اور ان کی خوشنودی کے لئے 67 الفاظ پر مشتمل ایک اعلامیہ جاری کر دیا۔ یہ تحریر دو نومبر 1917 کو برطانوی وزیرِ خارجہ آرتھر بالفور Arthur Balfour نے ایک خط میں لکھی جو نو نومبر کو اخبارات میں شائع ہوئی۔ اسی لئے اس کو ”بالفور اعلامیہ“ کا نام دیا گیا۔

His Majesty ’s government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people، and will use their best endeavours to facilitate the achievement of this object، it being clearly understood that nothing shall be done which may prejudice the civil and religious rights of existing non۔ Jewish communities in Palestine، or the rights and political status enjoyed by Jews in any other country۔

ترجمہ:
”بادشاہِ معظم کا سرکاری نظریہ یہودی لوگوں کے لئے فلسطین میں ایک علیحدہ ملک کے قیام کے حق میں ہے اور اس کی کامیابی کے حصول کے لئے ہر ممکن وسائل کو استعمال کیا جائے گا، یہ واضح رہے کہ ایسا کچھ نہیں کیا جائے گا جس سے فلسطین میں موجود غیر یہودی کمیونیٹیزکے شہری اور مذہبی حقوق متاثر ہوں، یا جس سے کسی دوسرے ملک میں رہائش پذیریہودیوں کے حقوق اور سیاسی حیثیت پر فرق پڑے۔“

اس اعلامیہ سے صیہونی تحریک کو بہت وزن ملا اور انہوں نے فوراً برطانوی حکومت کے ساتھ مل کر اس ریاست کے قیام کا لائحہ عمل تیار کرنا شروع کر دیا۔ صیہونی تحریک کے رہنما وائزمین کے شریفِ مکہ سے اچھے تعلقات تھے اور عرب قومیت کے علمبردار شریفِ مکّہ حسین ابن علی کو فلسطین میں اس ریاست کے قیام پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ یہ واضح رہے کہ اس وقت فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔

سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد ہزاروں یہودی ہر ماہ یورپ سے فلسطین کوچ کرنے لگ گئے۔ اس کے بعد وہاں جو کچھ ہوا اس کی تاریخ صرف خون سے ہی لکھی جا سکتی ہے۔ یہی ریاست جس کا قیام ان 67 الفاظ کے مطابق فلسطین کے ایک ٹکڑے پر محدود ہونا تھا اب پورے فلسطین پر ہی نہیں بلکہ شام کے پہاڑی علاقے جولان پر بھی قابض ہے۔ اس اعلامیے کے برعکس 1967 میں قبضہ کیے ہوئے علاقوں میں غیر یہودی آبادی، جس میں مسلمان اور عیسائی دونوں شامل ہیں، کے انسانی حقوق کی دھجیاں ادھیڑ دی گئی ہیں۔ اس ریاست کی خفیہ ایجنسیوں کی پہنچ دنیا کے ہر کونے تک ہے او ر دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کی سیاست اور ذرائع ابلاغِ پر اس لابی کا مکمل کنٹرول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).