کیا ننکانہ کی جگجیت کور کا مذہب زبردستی تبدیل کر کے شادی کرائی گئی ہے؟


محبت کی کہانی، داستان یا واقعہ۔ ایک بات واضح کرتے ہیں کہ محبت کرنے والے دو فرد مذہبی اور سماجی پابندیوں کو عموما ً نظر انداز کردیتے ہیں۔ کچھ مذہبی اور سماجی دباؤکے باعث اپنا رستہ بدل بھی لیتے ہیں جبکہ چند ان رکاوٹوں کی شعوری یا غیر شعوری نفی کرتے ہوئے محبت کے رشتے کو ہی اہم گردانتے ہیں۔ اوریوُں ان کا فیصلہ سماجی سطح پر ایک ہلچل پیدا کر دیتا ہے۔

ان دنوں پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب میں رونما ہونے والے ایسے ہی واقعہ نے ہلچل مچا رکھی ہے۔ اس واقعہ کے بعد دو طرح کی رائے ہمارے سامنے موجود ہے۔ ایک طرف یہ کہا جارہا ہے کہ سکھ لڑکی کا زبردستی مذہب تبدیل کروا کر ایک مسلمان لڑکے سے نکاح پڑھوا دیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ یہ مانتے ہیں کہ محبت کرنے والے دو فرد بسا اوقات مذہبی اور سماجی دباؤ کو با لائے طاق رکھتے ہوئے اپنے جذبے کوہی مقدم جانتے ہیں۔

ننکانہ صاحب میں رہائش پذیر سکھ فیملی کی یہ لڑکی جگجیت کور اپنے بیانِ حلفی میں یہ کہہ چکی ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر کے شادی کی ہے اور گھر چھوڑا ہے۔ سکھ کمیونٹی کی طرف سے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر اس کیس کی طرف توجہ دے جس کے بعد وزیرِاعظم نے پنجاب گورنمنٹ کو تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا۔ اس وقت اعلی سطحی تحقیقات جاری ہیں۔ جگجیت کوردارالامان میں پناہ لے چکی ہے اور محفوظ ہے۔

انٹرنیشنل سکھ کنونشن میں شرکت کے لئے دنیا بھر سے آئے سکھ کمیونٹی کے لوگ آج کل لاہور میں موجود ہیں۔ امریکہ، یوکے اور کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ایکٹیوسٹ خواتین، گورنر پنجاب کی بیگم کے ہمراہ جگجیت سے ملاقات کے لئے دارالامان گئیں، اس ملاقات میں جگجیت کور کے خاندان والے بھی شامل تھے۔ جگجیت کور نے اپنی فیملی کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ اب تک جگجیت کو گھر واپس لانے کی کئی بار کوشش کی جا چکی ہے۔ سکھ کمیونٹی کی تشویش کے پیشِ نظر اس مسئلے کو حل کرنا اب صوبائی اور وفاقی حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔

پاکستان میں کئی ایسی شادیاں ہوتی ہیں جن میں گھر والوں کی رضامندی شامل نہیں ہوتی ان شادیوں میں حالانکہ مذہب آڑے نہیں آتالیکن ذات برادری اور معاشی تفاوت اہم عناصر ہوتے ہیں اور یوں سماج ان رشتوں کو آسانی سے قبول نہیں کرتا۔ لیکن جہاں دو مختلف مذاہب کے ماننے والے آپس میں شادی کرنا چاہیں ان کے جذبات کی نفی کرنے کے لئے صرف اور صرف مذہب کارڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا بھارت میں سکھ لڑکیاں ہندو لڑکوں کے ساتھ محبت کرکے شادیاں نہیں کرتیں؟ مغربی کلچر میں پلنے والی مسلمان لڑکیا ں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں نہیں کرتیں؟ کیا یورپی لڑکیاں اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر کے ہندو، مسلمان اور سکھ مردوں سے شادیاں نہیں کرتیں؟ جس معاشرے میں ایک ذات برادری سے باہردوسرے قبیلے میں شادی کرنا انتہائی دشوار عمل ہو، وہاں ایک مذہب چھوڑ کر دوسرے مذہب میں رشتہ جوڑنا ناممکن ہی ہوتا ہے۔ اب تک کئی لڑکیاں ذات برادری اور مذہب کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔

کچھ سیاسی مفاد پرست ٹولے اور سکھ مسلم بھائی چارے کے دشمن اس معاملے کو مختلف حوالوں سے اچھال کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ سکھ کمیونٹی اور پاکستانی با شعور افراد یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کیوں اس واقعے کو ہوا دی جا رہی ہے۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیاپر پاکستان کے خلاف سکھوں کو اکسایا جارہا ہے کہ ایک طرف سکھ نوجوانوں نے کشمیری خواتین کو بحفاظت گھروں تک پہنچنے میں مدد کی جبکہ دوسری طرف پاکستانی نوجوان سکھ لڑکیوں کو ورغلا رہے ہیں۔ حتی کہ سکھوں کو یہ طعنہ دیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کی ہمیشہ حمایت کرتے ہیں لیکن پاکستان میں سکھوں کو دبایا جا رہا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کچھ موقع پرست کرتار پور راہداری کو نہ کھولے جانے کے مشورے بھی دے رہے ہیں۔

بلاشبہ سکھ ایک بہادر اور انسان دوست قوم ہے۔ نہ صرف کشمیر میں بلکہ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانیت مشکل میں پڑتی ہے وہاں بچاؤکے لئے سکھوں کی ایک بڑی تعداد پہنچ جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں ایک سکھ تنظیم اپنی امدادی سرگرمیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں جانی جاتی ہے اور اس تنظیم کو مسلمان بھی سراہتے ہیں۔ سکھوں اور مسلمانوں کے باہمی رشتے صدیوں پرانے ہیں۔ سکھوں کے پہلے گورو بابانانک اور ان کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ، پانچویں گورو ارجن دیو اور مسلمان صوفی میاں میر کے محبت کے رشتے آج سکھ مسلم دوستی کی بنیاد ہیں۔

آخری سکھ گوروگوبند سنگھ کی پہاڑی راجوں سے کئی بار لڑائیاں ہوئیں یہ پہاڑی راجے ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے لیکن ہندودانشور اور میڈیا ہمیشہ اورنگزیب سے ہونے والی لڑائی کا حوالہ دے کرآج کے دور میں سکھ مسلم بھائی چارے کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گورو گوبند سنگھ نے فارسی میں ”ظفر نامہ“ لکھا، جس میں اورنگزیب کو حقائق سے آگاہ کیا اور مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان شکوک پیدا کرنے والے عناصر کا ذکر کیا۔

جگجیت کور والے واقعہ پر واویلا مچانے والے سکھ اور ہندوبھارت میں سکھوں کے ساتھ ہونے والے 1984 ء کے ظلم و ستم کو شاید بھول گئے ہیں۔ بھارت میں 90 کی دہائی میں ایک پلان کے تحت سکھوں کی نسل کشی کی گئی اور آج تک جاری ہے۔ بھارت میں یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ بھارت کو مستقبل میں ایک ہندو راشٹر یعنی ہندو ملک بنادیا جائے گا۔ ایسی صورتِ حال میں بھارتی اقلیتوں خصوصا ً ان سکھوں کا کیا ردِعمل ہو گا جو اس وقت پاکستانی معاشرے کو نشانہ بنا رہے ہیں؟ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اگر واقعی آنے والے دنوں میں بی جے پی حکومت بھارت کو ایک ہندو سٹیٹ بناتی ہے تو پنجابی سکھ کس طرف کھڑے ہوں گے؟ حالانکہ بھارتی آئین سکھوں کو ایک الگ مذہبی شناخت ہی نہیں دیتا اور انہیں ہندو ہی مانتا ہے۔

پاکستان کے آئین میں کسی بھی اقلیت سے اس کی مذہبی شناخت نہیں چھینی گئی اور نہ پاکستان میں کوئی سیاسی یا مذہبی تنظیم ایسی ہے جو اقلیتوں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہو۔ اگرجگجیت کور کو اغواء کر کے زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا ہے تو ایسے معاملے میں پاکستانی عدالتوں کو گناہکاروں کو سزائیں دینی چاہییں تاکہ آئندہ کسی کو یہ جرات نہ ہو وہ کسی دوسرے سے اس کا مذہب چھین سکے۔

اگرسکھ لڑکی جگجیت کور نے اپنا فیصلہ اپنی مرضی سے کیا ہے تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس معاملے کو سیاسی اور مذہبی رنگ دے۔ جگجیت کورشاید جانتی بھی نہیں ہوگی کہ اُس کے فیصلے کے بعد سکھوں اور پاکستانیوں کی دوستی کو نقصان پہنچانے کے لئے کس حد تک استعمال کیا جائے گا۔

زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی پنجاب میں سکھوں کے انتہائی اہم مذہبی مقامات ہیں۔ گورو بابانا نک کی پیدائش ننکانہ صاحب ہوئی جبکہ وہ کرتار پور میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یو ں سکھوں کی پاکستان سے وابستگی کم نہیں کی جا سکتی۔ عمران خان حکومت نے سکھوں کی دیرینہ خواہش کے پیشِ نظر کرتار پور کوریڈور کھولنے کا وعدہ کیا اور اس سال یہ وعدہ پورا ہونے جا رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے کئی بار یہ اعادہ کیا ہے کہ چاہے پاکستان اور بھارت کے درمیان جیسے بھی تعلقات ہوں، سکھوں کے لئے کرتار پور کھول دیا جائے گا۔ بھارتی ڈپلومیسی کے لئے یہ بڑھتے تعلقات تشویش کا سبب بن رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).