اعلیٰ تعلیم ایک بین الاقوامی صنعت


دنیا بھر کے ملکوں میں موسمِ خزاں سے مراد نئی تعلیمی کلاسوں کا آغاز ہوتا ہے لیکن در اصل والدین کے لئے اس سے کچھ اور ہی مراد ہوتی ہے۔ امریکہ میں ایک عام فرد اپنے بچے کے اسکول کے سامان پر اوسطاً 685 ڈالر خرچ کرتا ہے، مطلب یہ کہ اسکول کے سامان پر سالانہ خرچ تقریباً ساڑھے 27 ارب ڈالر آتا ہے۔ اگر اس میں جامعات کے اخراجات بھی شامل کر لئے جائیں تو یہ رقم بڑھ کر 83 ارب ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ اس سامان میں سب سے مہنگی چیز کمپیوٹر ہے، جن کی اوسط قیمت 299 ڈالر ہے۔ ملبوسات پر 286 ڈالر، الیکٹرانکس پر 271 ڈالر، جب کہ فولڈر، بائینڈر، کتابیں، قلم اور ہائی لائٹرز پر 112 ڈالر صرف کیے جاتے ہیں۔

مختلف ملکوں میں تعلیم پر آنے والے اخراجات مختلف ہو سکتے ہیں۔ اگر فیس، کتابوں، آمد و رفت اور رہائش کا خرچ ملا دیا جائے تو ہانگ کانگ طلبہ کو سب سے مہنگا پڑتا ہے۔ ہانگ کانگ میں والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر سالانہ سوا لاکھ ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر عرب امارات ہے، جہاں یہ خرچ 99 ہزار ڈالر ہے، جب کہ سنگاپور کا 71 ہزار ڈالر کے ساتھ تیسرا نمبر ہے۔ امریکہ میں بچے کی تعلیم پر 58 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ تاہم امریکی والدین اس خرچ میں سے صرف 23 فیصد اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ سب سے کم تعلیمی خرچ فرانس میں آتا ہے، جہاں والدین بچے کی تمام تر تعلیم پر زندگی میں صرف 16 ہزار ڈالر خرچ کرتے ہیں۔

تائپی میں بی بی سی کی نامہ نگار سنڈی سوئی کا کہنا ہے کہ تائیوان کے قانون کے مطابق بالغ بچوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عمر رسیدہ والدین کی دیکھ بھال کے لیے پیسے دیں، تاہم اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اکثر والدین ان پر مقدمہ نہیں کرتے لیکن حال ہی میں تائیوان کی ایک اعلیٰ عدالت نے ایک شخص کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی ماں کو اس کی پرورش اور اس کی دندان سازی کی تعلیم پر آنے والے اخراجات کے حوالے سے اسے دس لاکھ ڈالر واپس کرے۔

ماں نے اپنے بچے کے ساتھ 1997 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جب وہ 20 سال کا تھا۔ معاہدے کے مطابق بچے نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی ماں کو اپنی ماہانہ آمدنی کا 60 فیصد حصہ دینا تھا۔

جب کئی سال تک بچے نے معاہدے کے مطابق پیسے نہیں دیے تو ماں نے اس پر مقدمہ کر دیا۔ نامہ نگار کے مطابق یہ مقدمہ اس لیے بھی غیر معمولی ہے کہ اس میں بچے اور والدین (ماں ) کے درمیان معاہدے کو شامل کیا گیا ہے۔

لیکن تعلیم کا بوجھ صرف والدین ہی نہیں اٹھاتے، بلکہ درخت بھی قربانی دیتے ہیں۔

ورچوئل ریئلٹی، تھری ڈی پرنٹنگ اور ڈرونز کے دور میں بھی دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں جس آلے کا سکہ چلتا ہے، وہ سادہ پنسل ہے۔ ایجاد کے 400 سال بعد آج بھی ہر سال 15 سے 20 ارب پنسلیں بنتی ہیں۔

امریکہ کے شمال مغربی ساحلی علاقے میں پیدا ہونے والی دیار کی لکڑی سب سے زیادہ پنسلوں میں استعمال ہوتی ہے، جب اس کا سکہ زیادہ تر چین اور سری لنکا کی کانوں سے آتا ہے۔ دنیا کی پنسلوں کی فراہمی برقرار رکھنے کے لیے ہر سال 60 ہزار سے 80 ہزار درخت کاٹے جاتے ہیں۔

دنیا بھر سے اعلی تعلیم کے خواہش مند افراد کو اپنی طرف راغب کرنے میں امریکہ اب تک سب سے زیادہ کامیاب رہا ہے۔ اس سے امریکہ کو قابل قدر مالی فائدہ بھی حاصل ہو ا اور ساتھ ہی دنیا بھر میں اپنا ایک روشن چہرا پیش کرنے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں بھی مدد حاصل ہوئی۔ امریکہ میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد اس وجہ سے بھی مسلسل بڑھ رہی تھی کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد تین برس تک پیشہ وارانہ تجربہ اور مہارت حاصل کرنے کا موقع بھی ایک خصوصی سکیم کے تحت میسر تھا لیکن حال ہی میں جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں غیر ملکی طلبا وطالبات کے اندارج میں سات فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ مسلسل دوسرا سال ہے کہ امریکی جامعات اور کالجوں میں غیر ملکی طلباء اور طالبات کے داخلوں میں کمی ہو رہی ہے اور اس وجہ سے گزشتہ سال امریکی معیشت کو مجموعی طور پر بیالیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کے مطابق جب انھوں نے طلبہ و طالبات سے امریکہ میں داخلوں کے لیے درخواستیں نہ دینے کے بارے میں پوچھا تو ان کی طرف سے عملی مشکلات اور اخراجات جیسی کئی وجوہات بیان کی گئیں نیز ویزا درخواستوں میں دشواریاں امریکہ میں داخلے نہ لینے کی سب سے بڑی وجہ قرار دی گئی۔

امریکہ جانے والے طلباء اور طالبات کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی جن ملکوں سے واقع ہوئی ہے ان میں انڈیا، جنوبی کوریا، میکسیکو اور سعودی عرب شامل ہیں۔ لیکن یہ رجحان مغربی ملکوں کے طلبہ میں بھی دیکھنے میں آیا ہے اور ان میں برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے امریکہ کے اتحادی ملک بھی شامل ہیں۔ اگر چین سے آنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ نہ ہو رہا ہوتا تو یہ کمی اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی۔ اس وقت امریکہ میں چینی طلبہ کی تعداد باقی تمام ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔

تازہ ترین اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کو داخلے دینے کے بارے میں امریکی تعلیمی اداروں کا مغربی ملکوں کی بجائے مشرقی ملکوں پر کس قدر زیادہ انحصار ہے۔ چین اور انڈیا دو ایسے ملک ہیں جن کی طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یورپ کے تمام ملکوں کی بنسبت برطانیہ سے سب سے زیادہ نوجوانوں پڑھنے کے لیے امریکہ جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ میں غیر ملکی طلبہ میں برطانوی طلبہ کی شرح ایک فیصد ہے۔

غیر ملکی طلبہ کے اندراج میں گزشتہ دو برس میں دس فیصد کی قابل تشویش کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں تک برقرار رہنے والی امریکہ کی کشش اب ماند پڑ رہی ہے۔

اگر مختلف ممالک میں سال بھر کے دوران تعلیمی سرگرمیوں کا تناسب دیکھا جائے تو ڈنمارک کے طلبہ اوسطاً 200 گھنٹے سالانہ سے زیادہ زیرِ تعلیم رہتے ہیں۔ 33 ترقی یافتہ ملکوں میں روس میں سب سے کم وقت کے لیے تعلیم دی جاتی ہے۔ وہاں طلبہ صرف 500 گھنٹے سالانہ پڑھتے ہیں، جب کہ عالمی اوسط 800 گھنٹے ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ روسی تعلیمی میدان میں کسی سے کم ہیں۔ وہاں شرحِ خواندگی تقریباً سو فیصد ہے۔ تعلیم کبھی نہ کبھی ختم ہو جاتی ہے اور طلبہ عملی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ لیکن نیوزی لینڈ میں ایسا دو عشروں کے بعد ہوتا ہے۔ البتہ آسٹریلیا اس میدان میں بازی لے گیا ہے، جہاں طلبہ چھ سے لے کر 28 سال تک سکول، کالج اور یونیورسٹی میں گزارتے ہیں۔ یہ کل ملا کر 22.9 سال بنتے ہیں، یعنی آسٹریلیا کے شہریوں کی اوسط عمر کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ تعلیمی سرگرمیوں میں گزرتا ہے۔

دوسری طرف نائجر کے طلبہ تعلیم کو سب سے کم وقت دیتے ہیں۔ وہاں بچے سات برس سے لے کر تعلیمی سفر کا آغاز کرتے ہیں اور اوسطاً صرف 5.3 سال زیرِ تعلیم رہتے ہیں۔

اس وقت پانچ لاکھ طلبا و طالبات جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے کینیڈا میں حصول تعلیم کے لیے مقیم ہیں۔

منسٹری آف گلوبل افیئرز کے اندازوں کے مطابق سنہ 2014 میں بیرون ملک سے آنے والے طالبعلموں نے کینیڈا کی معیشت میں 11.4 بلین ڈالر کا اضافہ کیا۔ تب سے وہاں بین الاقوامی طالبعلموں کی تعداد سوا تین لاکھ سے بڑھ کر پونے چھہ لاکھ تک پہنچ گئی ہے جو کہ 75 فیصد اضافہ ہے۔

کینیڈا میں باہر سے آنے والے طالب ِعلموں کو وہاں کے مکینوں کی نسبت اوسطً چار گنا زیادہ فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ دیگر ممالک میں بھی لگ بھگ یہی فارمولا لاگو ہوتا ہے۔ سان ڈیاگو میں موجود یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں بیرون ملک سے آنے والے 20 فیصد طالبعلم سالانہ تین گنا زیادہ فیس ادا کرتے ہیں۔

اتنی ہی تعداد میں برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی میں موجود بین الاقوامی طلبا ملکی طالبِ علموں سے دو گنا زیادہ فیس بھرتے ہیں۔

بیرون ملک سے آنے والے طلبا و طالبات کو بھرتی کرنے والے ڈینی زیرٹسکائے کے مطابق ’ساری بات نفع ونقصان کی ہے اور ایسا صرف کینیڈا ہی میں نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ سب پیسے کاکھیل ہے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).