گلگت بلتستان : نوآبادیات کا گمنام گوشہ


کہا جاتا ہے کہ نوآبادیاتی دنیا مخصوص مقاصد کے حصول کو سامنے رکھتے ہوئے پیدا کی گئی دنیا ہوتی ہے، یہ فطری ماحول کی پیداوار نہیں ہے نہ ہی کسی مہذب نظریے کی ارتقاء کا معراجِ ہے بلکہ نوآبادیاتی دنیا ایک ایسی سفاک اور استبدادی دنیا ہوتی ہے جس میں طاقتور قومیں چھوٹی اور کمزور قوموں کے علاقوں پر جارحیت کرکے ان پر آپنا تسلط قائم کرتی ہیں۔ لہٰذا نوآبادیاتی دنیا میں پائی جانے والی صورت حال کوئی فطری یا منطقی صورت حال نہیں ہے بلکہ مخصوص مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی تشکیل کی جاتی ہے۔

یہ انسانوں کے مخصوص گروہ کے ہاتھوں مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے برپا کی جانے والی صورت حال ہے اس گروہ کو نوآبادکار کار کا نام دیا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر یورپ کے نوآبادکاروں میں تاج برطانیہ اور فرانس بہت مشہور تھے۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان بھی تاج برطانیہ کی ان بے شمار کالونیوں میں سے ایک کالونی تھی جہاں دنیا بھر کی نوآبادیات کی طرح ایک پرتشدد نوآبادیاتی نظام رائج کیا گیا، جس کے تحت ذریعے مقامی لوگوں کا سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی استحصال کیا گیا، جس کے اثرات اور شاخسانے گلگت بلتستان میں آج بھی موجود ہیں۔

دنیا بھر کی کالونیوں میں رائج نوآبادیاتی نظام حکومت Might is right اور Divide and Rule کی پالیسی پر چلایا جاتا ہے نہ کہ تھامس مور کی ”یوٹوپیا“ پر، اس لئے نوآبادیات میں رائج الوقت نظام کی بنیاد انصاف، مساوات اور برابری کی بجائے ظلم جبر اور تشدد پر رکھا جاتا ہے تاکہ زیر تسلط کمزور اقوام کی قوت، ثقافت اور تہذیب وتمدن کو تباہ کیا جائے اور ان کو فرقہ نسل اور رنگ کی بنیاد پر تقسیم کرکے آپس میں لڑا کر ان کے قومی وسائل پر آسانی سے قبضہ کرلیا جائے۔

فرانز فینن، ”افتادہ گان خاک“ میں لکھتے ہیں کہ ”نوآبادکار کی دنیا مقامی باشندوں کی دنیا کو خارج کرنے کے اصول پر قائم رہتی ہے۔ تاکہ طاقت ور ملک چھوٹے اور کمزور علاقوں پر آپنا تسلط برقرار رکھ سکے اور ان کے وسائل کا استحصال جاری رکھا جائے۔ نوآبادکار اپنی نوآبادیاتی ذہنیت کے مظاہرے کے لئے سیاسی وسماجی معاشی تعلیمی شعبوں کو منتخب کرتے ہیں اور ان میں اپنی اییڈیالوجی کا بیج بوتے ہیں۔ “

فرانز فینن، البرٹ میمی اور ایڈورڈ سعید تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ نوآبادیاتی اقوام نوآبادکار کے دیے ہوئے تصور ذات اور کردار کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے نوآبادیاتی نظام قائم رہتا ہے۔

گلگت بلتستان میں رائج الوقت نظام، معروضی حالات، اور تاج برطانیہ کے دور سے رائج نوآبادیاتی قوانین کو سمجھنے سے قبل برٹش انڈیا کے نوآبادیاتی نظام کو سمجھنا ضروری ہے چونکہ گلگت بلتستان 1840 سے لے کر 1947 تک براہ راست یا بالواسطہ تاج برطانیہ کی ایک کالونی تھی اور یہاں رائج وقت نظام برٹش انڈیا کے نوآبادیاتی نظام سے بالواسطہ تعلق اور مماثلت رکھتا ہے۔ اگرچہ یکم نومبر انیس سو سینتالیس کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے بعد یہاں سے ڈوگرہ حکومت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا اور یہ خطہ پاکستان کے زیر انتظام آیا مگر ستر سال گزرنے کے باوجود آج بھی یہ علاقہ سر زمین بے آئین کہلاتا ہے۔

اس لئے یہاں رائج الوقت نظام کو سمجھنے کے لیے برصغیر پاک و ہند میں برٹش انڈیا کے دور حکومت میں رائج کالونیل سسٹم اور قوانین کا تقابلی جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ درحقیقت 1876 تک تاج برطانیہ نے انڈیا کو اپنی کالونی بنا کر وہاں نوآبادیاتی قوانین متعارف کرایا گیا تھا۔ جن کی باقاعدہ بنیاد ہمیں 1757 میں جاکر ملتی ہے جب برٹش نیوی اور مرچنٹس تجارت کی غرض سے انڈیا پہنچ گئے اور آہستہ آہستہ برصغیر میں سیاسی اور فوجی کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے گئے اور بالآخر 23 جون 1757 میں جنگ پلاسی میں انڈیا کی شکست کے بعد انڈیا دو سو سال کے لئے برطانوی سلطنت کے تسلط میں چلا گیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد 1707 میں ملکہ برطانیہ الزبتھ اول نے رکھی تھی۔ کامن لاء کی انڈیا میں شروعات اس وقت سے ہوئی جب 1726 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس، بمبئی اور کلکتہ میں Mayor ’s Courts کا قیام عمل میں لایا، اور اس کے ساتھ Indian codified laws کی شروعات ہوئی۔ برصغیر میں عدالتی نظام متعارف کرانے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار ایک تجارتی کمپنی سے بدل کر ایک حکمران پاور کی شکل اختیار کرلی۔

1772 میں Warren Hastings نے اصلاحات متعارف کرائیں اور دیوانی مقدمات کی سماعت کے لیے ڈسٹرکٹ دیوانی عدالت اور فوجداری مقدمات کی سماعت کے لیے ڈسٹرکٹ فوجداری عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں کرمنل مقدمات کی سماعت کے دوران انڈین افسران کی مدد قاضی اور مفتی کیا کرتے تھے جبکہ دیوانی مقدمات کی سماعت ایک کلکٹر کے سپرد کر دی گئی، اس عدالت میں ہندوؤں کے لیے ہندو قوانین اور مسلمانوں کے لیے مسلم قوانین کے تحت مقدمات کی سماعت کی جاتی تھی۔ کپیٹل سزا دینے سے قبل صدر نظامت کی پیشگی اجازت لینا لازمی ہوتی تھی جس کی سربراہی ڈپٹی نظام کرتا تھا جس کی مدد کے لیے چیف قاضی اور چیف مفتی بھی مقرر تھے۔ اس عدالت کی تمام تر ایڈمنسٹریشن کلکٹر کیا کرتا تھا۔ پھر ریگولییٹنگ ایکٹ 1773 کے تحت کلکتہ میں سپریم کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

انڈیا ایکٹ 1784 کے ذریعے تاج برطانیہ نے انڈیا میں براہ راست مداخلت کرنا شروع کی۔ ۔ 1786۔ 1793 کے دوران Crown Wills کے زیر نگرانی اصلاحات متعارف کروائی گئیں اور ڈسٹرکٹ فوجداری عدالت کو ختم کر کے ان کی جگہ کلکتہ، ڈھاکہ، مرشداباد اور پٹنہ میں سرکٹ کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا جو سول اور کرمنل مقدمات میں کورٹ آف آپیل کی حیثیت سے کام کرتا تھا، مگر یہ عدالت یوروپی ججرز کے زیر نگرانی تھی۔ کرؤان ولز نے صدر نظامت کی عدالت کو کلکتہ منتقل کرکے اس کو گورنر جنرل اور ممبران سپریم کونسل کی نگرانی میں دیا۔ جن کی مدد چیف قاضی اور چیف مفتی کیا کرتے تھے۔

جبکہ ڈسٹرکٹ دیوانی عدالت کا نام بدل کر ڈسٹرکٹ، سٹی، اور ضلع کورٹس کا نام دیا گیا جو کہ ڈسٹرکٹ جج کے انڈر کام کیا کرتے تھے۔ جبکہ اس نے سول کورٹس کو بڑھا کر ان کو ہندو اور مسلم منصف کورٹس کا درجہ دیا۔ ساتھ ساتھ رجسٹرار کورٹس، ڈسٹرکٹ کورٹ، صدر دیوانی عدالت، اور گنگ ان کونسل کا قیام عمل میں لایا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3