مکھیوں کا شہر کچراچی


دو کروڑ نفوس کی آبادی والے شہر کراچی میں یومیہ 15 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جسے اٹھانے اور ’ری سائیکل‘ کرنے کا کوئی مربوط و موثر مرکزی نظام موجود نہیں ہے۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہر روز صرف 10 سے 12 ہزار ٹن کچرا ٹھکانے لگایا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق کراچی میں صفائی کا سنگین مسئلہ بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ شہر بھر سے نکلنے والے فضلے میں سے کچھ سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ جبکہ بقیہ ڈی ایم سیز، کنٹونمنٹ بورڈز اور دیگر شہری ادارے ٹھکانے لگاتے ہیں۔

شہر سے کچرے کو اٹھانے کی ذمہ داری اب ایک چینی کمپنی کے حوالے کی گئی ہے، جس نے ابتدائی طور پر ضلع جنوبی اور شرقی سے اپنے کام کا آغاز کردیا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کچرا اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس کی ری سائیکلنگ کا بھی منصوبہ رکھتا ہے۔

کراچی کے میئر وسیم اختر کچرا اٹھانے کا کام چینی کمپنی کو دینے سے ناخوش ہیں ان کا کہنا ہے کہ ”کچرا اٹھانا میونسپل سروسز میں شامل ہے اور ان کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت نے بورڈ بنا کر یہ ذمہ اس کے حوالے کر دیا ہے۔ کچرے میں مافیا ملوث ہے جو اس کو ڈمپنگ پوائنٹ تک پہنچنے نہیں دیتی، مختلف جگہوں پر کچرا پھینک دیا جاتا ہے، جہاں سے افغانی اور دیگر بچے کام کی اشیا حاصل کرتے ہیں، جو فیکٹریوں کو بھیجی جاتی ہیں، افسوس ہے کہ حکومت اس کو خود کیوں ہینڈل نہیں کرتی اس سے پاور جنریشن کیوں نہیں کی جاتی بجائے فائدہ لینے کے ہم اس پر خرچہ کر رہے ہیں۔“

اس وقت بھی پانچ کنٹونمنٹ، پورٹ، سول ایوی ایشن سمیت دیگر شہری علاقوں کا کچرا ڈمپنگ سٹیشن نہیں آرہا وہ کہیں اور جارہا ہے۔

شہر میں کچرا دانوں سے پلاسٹک، کاغذ اور گتا پہلے ہی چن لیا جاتا ہے۔ شہر میں درجنوں ایسی دکانیں اور گودام موجود ہیں جو یہ کاروبار کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 12 ہزار لوگ کچرے سے روزی کماتے ہیں۔

کراچی میں ایسے چار مقامات ہیں جہاں شہری ادارے کچرا پھینکتے ہیں۔ کچرے کو پہلے آگ لگائی جاتی ہے، جس کے بعد اس سے کام کی اشیا حاصل کی جاتی ہیں۔ صبح سورج نکلتے ہی یہ مزدور یہاں آجاتے ہیں اور تپش بڑھنے سے قبل واپس روانہ ہو جاتے ہیں۔ کچرے میں سے سلور، تانبہ، پیتل، شیشہ اور ہڈیاں نکالتی ہیں۔ زرعی زمین کی طرح یہاں کچرے کے ڈھیر لوگوں میں تقسیم ہیں جہاں سے وہ اپنی روزی حاصل کرتے ہیں۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں، جو بغیر دستانوں اور ماسک کے ایسے آلودہ ماحول میں کام کرتے ہیں جہاں سانس لینا بھی دشوار محسوس ہوتا ہے۔

کراچی سے حب بلوچستان جانے والی سڑک پر واقع نور محمد گاؤں کے قریب کچرے کا میدان واقع ہے، یہاں روزانہ 200 ٹرک چار ہزار ٹن کے قریب کچرا لاتے ہیں، جس سے ڈھائی سو کے قریب لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ نور محمد گاؤں کی چالیس فیصد آبادی اس کچرے پر پل رہی ہے۔ اس گاؤں میں کچرے سے حاصل ہونے والی اشیا کی خریداری کے پانچ مراکز موجود ہیں۔ جہاں دھات، ہڈیوں اور شیشے کی خریداری کی جاتی ہے جو بعد میں کراچی اور پنجاب کے مختلف کارخانوں کی طرف روانہ کر دیے جاتے ہیں، جہاں یہ خام مال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

ویسے تو ہم سبھی اپنے اردگرد مکھیاں دیکھنے کے عادی ہیں مگر اس مرتبہ یہ مسئلہ سنگین نوعیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مون سون کی حالیہ بارشوں اور عیدالاضحیٰ کے بعد مکھیوں کی آبادی میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے اور گلی محلوں، گھروں، دفاتر اور ریسٹورنٹس، غرض یہ کہ انسانوں کے زیرِ استعمال ہر جگہ پر مکھیوں کا راج ہے۔

سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر، ڈاکٹر اے ڈی سنجنانی کا کہنا ہے کہ ”کراچی کا موسم مکھیوں کی نشوونما کے لیے انتہائی سازگار ہے۔ مکھیوں کے انڈے کچرے کے ڈھیروں اور زمین کے اندر موجود ہوتے ہیں اور جب اُنھیں مناسب نمی اور درجہ حرارت ملتا ہے تو وہ افزائش کے بعد باہر آ جاتے ہیں۔“ ڈاکٹر سنجنانی نے اعتراف کیا کہ ”شہر میں مکھیوں کی بہتات کی وجہ صفائی کا ناقص نظام ہے اور تمام شہری اداروں کی ذمہ داری ہے کہ جو کچرا اُن کے دائرہِ اختیار میں پیدا ہو رہا ہے اُس کو جتنا جلد ہو سکے جمع کریں اور لینڈ فِل سائٹس تک پہنچا دیں۔“

معروف معالج ڈاکٹر شیر شاہ سید کے مطابق ”جگہ جگہ بکھرے کچرے اور گٹر کے پانی میں مکھیوں کی افزائش ہوتی ہے۔ مکھیاں انسانوں خاص طور پر بچوں کی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ بچوں کے حوالے سے بنیادی احتیاط یہ ہے کہ اُنھیں پانی اُبال کر دیا جائے اور اگر اُنھیں دست لگ جائیں تو فوراً نمکیات دیے جائیں۔ آج کل ڈائریا اور پیچش بہت عام ہیں۔ اِس کے علاوہ ہیپاٹائٹس اے، ہیپاٹائٹس ای اور آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریاں بھی مکھیوں کے ذریعے پھیلنے والے وائرس سے ہوتی ہیں۔“

ڈاکٹر سید کا مزید کہنا ہے کہ ”احتیاطی تدابیر کے طور پر باسی اور ٹھنڈا کھانا ہرگز نہ کھایا جائے بلکہ تازہ تیار کیا گیا گرم کھانا کھایا جائے۔ اگر سبزیاں اور پھل استعمال کیے جائیں تو اُنھیں اچھی طرح دھویا جائے اور پھر صاف ہاتھوں سے کاٹ کر اُسی وقت ختم کر لیا جائے تاکہ مکھیوں کو ان پر بیٹھنے کا موقع نہ ملے۔ ’لوگوں کو چاہیے کہ وہ کچرے کو کھُلا نہ چھوڑیں بلکہ اُسے کسی تھیلے یا کوڑے دان میں ڈال کر بند کر دیں تاکہ مکھیاں اُن سے جراثیم نہ اکٹھے کر سکیں۔ اِس کے علاوہ اپنے اردگرد بھی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے اور گھر کے چاروں اطراف چُونا چِھڑکنا چاہیے۔ گھر کے اندر بھی مکھیوں سے بچنے کے لیے جالیاں لگوانی چاہئیں۔“

ڈاکٹر سید کے مطابق ”مکھیوں پر قابو پانے کے لیے کچرے سے نجات ضروری ہے اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہر شخص اپنے فضلے کی ذمہ داری خود لے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).