ڈینگی برادران اندر اور ڈینگی مچھر آزاد


کراچی سے پشاور تک ڈینگی نے دوبارہ حملہ کر دیا ہے۔ بیماری کا سب سے زیادہ زور دو شہروں میں ہے، راولپنڈی اور پشاور۔ گزشتہ ایک ماہ میں راولپنڈی میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے اور پشاور میں بارہ سو سے سے زیادہ۔ لاہور میں بھی ڈینگی شرارت پر تلا ہوا ہے اور اس نے دیگر افراد کے علاوہ قذافی سٹیڈیم میں شاہین آفریدی پر حملہ کر دیا ہے اور وہ تین ہفتے کرکٹ سے دور رہیں گے۔ کراچی میں ہاکس بے میں قائم اٹامک انرجی پلانٹ پر چینی کام کررہے تھے جن میں سے دو سو ڈینگی کا نشانہ بنے۔

سنہ 2010۔ 11 ء میں ڈینگی مچھر نے پنجاب میں عموماً اور لاہور میں خصوصاً تباہی مچائی۔ 25000 سے زیادہ لوگ بیماری کا شکار ہوئے جن میں سے 350 جان کی بازی ہار گئے۔ شہباز شریف اور نواز شریف نے اسے نہایت سنجیدگی سے لیا اور ڈینگی کے خلاف ایسی مہم چلائی کہ انہیں ”ڈینگی برادران“ کا خطاب دیا گیا۔

انہوں نے سری لنکا اور انڈونیشیا سے ڈاکٹروں کی خصوصی ٹیمیں بلوائیں۔ اس وقت عمومی خیال تھا کہ ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بہت نفیس اور صفائی پسند ہے۔ یہ گندے جوہڑوں میں نہیں بلکہ بارش کے صاف پانی، گھریلو واٹر ٹینک کے آس پاس، صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں، گھڑوں اور گل دانوں، گملوں وغیرہ میں رہنا پسند کرتا ہے۔ ان غیر ملکی ماہرین نے بتایا کہ اس مچھر کی زیادہ افزائش کوڑے کرکٹ میں ہوتی ہے۔

اس کے بعد پنجاب میں کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا نظام زیادہ اہمیت اختیار کر گیا۔ سنہ 2010 میں لاہور سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کمپنی بنائی گئی اور دو ترک کمپنیوں کو کوڑا ٹھکانے لگانے کا کام دیا گیا۔ انہیں ہر ایک ٹن کوڑے کے بدلے سترہ ڈالر دیے جاتے تھے۔ لاہور میں صفائی کا بہترین نظام قائم ہو گیا اور ڈینگی نے دوبارہ منہ نہ دکھایا۔

پھر نیب آ گئی۔ ڈینگی برادران قید ہو گئے اور ڈینگی مچھر آزاد ہو گیا۔ رہی سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کمپنی، تو اس وقت اس کے دو مینیجنگ ڈائریکٹر نیب کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں اور تیسرا ملک سے باہر بھاگ کر بچ گیا ہے۔ کچھ نیب نے ڈرایا ہے باقی مشینوں کی مینٹننس نہ کرنے سے یہ کمپنی ناکارہ ہوئی ہے۔ حالات کو بیان کرتے ہوئے ٹاؤن شپ کے ایک شہری احتشام نے ڈان کو بتایا ہے پچھلے ایک برس سے صورت حال ایسی بگڑی ہے کہ لاہور کا جلد ہی کراچی بننے والا ہے۔

دوسری طرف سب سے زیادہ متاثرہ شہر راولپنڈی میں صورت حال مزید دلچسپ ہے۔ ادھر ڈینگی کنٹرول کرنے کے لئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے لیمڈا کلیتھورین کا سپرے کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن حکومت پنجاب نے اس کی بجائے ڈیلٹا میتھرین کا سپرے کیا جس کا اب ڈینگی مچھر پر اثر نہیں ہوتا اور وہ مسٹنڈا بدمعاشی کر رہا ہے۔ راولپنڈی کے ہسپتالوں میں لائے جانے والے مریضوں میں سے 30 فیصد کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔

پشاور میں بتایا جا رہا ہے کہ شہر نے نواحی علاقوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لوگ پانی کا ذخیرہ کر کے رکھتے ہیں جس میں ڈینگی مچھر خوب پھل پھول رہا ہے۔ مشرق اخبار کو بتایا گیا ہے کہ اگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا وقت مقرر کردیا جائے تو عوام کو پانی ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ باقی کسر محکمہ صحت کو فنڈز نہ دے کر پوری کی گئی ہے کیونکہ اس کے پاس ایندھن خریدنے اور سپرے کرنے کے لیے اضافی عملے کی خدمات لینے کے لیے فنڈز کی کمی ہے۔

پشاور میں گزشتہ 25 دنوں کے دوران ڈینگی کے 12 سو کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔ پشاور میں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر ارشد خان نے بتایا کہ 40 لاکھ کی آبادی والے شہر پشاور میں اب تک 500 سے بھی کم کیسز سامنے آئے ہیں لیکن ’صورتحال خاصی اطمینان بخش ہے اور ڈینگی کا موسم آئندہ کچھ روز میں ختم ہوجائے گا، ہم صوبے بھر میں صورتحال بہتر کرنے کے لیے تسلی بخش وسائل فراہم کررہے ہیں۔ ‘

تو صاحبو، بات یہ ہے کہ ڈینگی حملہ کر چکا ہے، اس کی افزائش کے لئے پنجاب میں کوڑا اور پشاور میں پانی فراہم کیا گیا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ صورت حال اطمینان بخش ہے اور موسم جائے گا تو ڈینگی مر جائے گا۔ متعلقہ محکموں کے پاس بجٹ نہیں ہے۔ مریض ہزاروں کی تعداد میں ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں۔ پنجاب میں ہسپتال جو مفت ادویات اور سہولیات فراہم کرتے تھے اس کا سلسلہ ختم کیا جا چکا ہے۔ جس شخص کے پاس پیسہ ہے وہ علاج کروا لے، غریب موسم بدلنے کا انتظار کرے اور اگر اس سے پہلے مر جائے تو اللہ کی مرضی۔ اس کی اتنی ہی لکھی تھی حکومت کا کیا دوش؟

ایسا نہِں کہ پنجاب حکومت کچھ نہیں کر رہی۔ وہ تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے راولپنڈی میں مرض کے پھیلنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری صحت سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور کہا ہے کہ یہ معاملہ حساس ہے، غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ سیکرٹری صحت پیسوں کے بغیر نہ جانے کیا کریں گے۔

ویسے حکومت کے پاس دو آزمودہ راستے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ بتا دے کہ سندھ میں بھی تو ڈینگی سے لوگ مر رہے ہیں اس لئے پنجاب، اسلام آباد اور پشاور کی بات نہ کی جائے جہاں ڈینگی پھیلنے کی ذمہ دار سابق حکومت ہے۔ دوسرا یہ کہ قوم کو بتایا جائے کہ ایٹمی پلانٹ پر دو سو چینی بیمار ہوئے ہیں اس لئے اس میں غیر ملکی ہاتھ ہے جسے یہ سازش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

بہرحال یہ معاملات تو چلتے رہتے ہیں۔ زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز سے کرپشن کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ نیب کی عنایت سے ڈینگی برادران اندر ہیں اور ڈینگی مچھر آزاد ہے۔ لیکن پریشان مت ہوں، ”اسے“ کہنا کہ دسمبر آ رہا ہے۔ ویسے حکومت کا یہ سارا بجٹ جا کہاں رہا ہے، اب تو نیب بھی ہے اور کرپشن بھی نہیں ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar