ریحان ہو یا صلاح الدین ایوبی، چور کی سزا موت ہے


سوشل میڈیا پر بعض قانون پسند افراد نہایت غم و غصے کا شکار ہیں کہ رحیم یار خان میں اے ٹی ایم سے کارڈ چرانے والے شخص صلاح الدین ایوبی کو جو انصاف فراہم کیا گیا ہے، اس کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ یہ آج اے ٹی ایم لوٹ رہا تھا تو کل گن پوائنٹ پر لوگوں کو لوٹتا اور پرسوں شرفا کے گھر ڈاکے ڈالتا۔ اگر پولیس اس کا چالان جمع کر کے عدالت میں بھی پیش کر دیتی تو کیا ہوتا، اول تو سزا ہی نہ ہوتی اور اگر ہو بھی جاتی تو وہ دو چار ماہ بعد باہر آ کر دوبارہ یہی کام شروع کر دیتا۔ اس لئے اچھا ہوا کہ پولیس کی حراست میں ہی اسے انصاف فراہم کر دیا گیا۔ چوروں کو اسی طرح کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا تو اسمبلی میں جانے والے بھی چوری سے ڈریں گے۔

ہم نے اس موقف پر خوب غور کیا ہے اور اسے درست پایا ہے۔ قانون بیکار چیز ہے۔ اس پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ پاکستان کے سب سے زیادہ کرپٹ شخص آصف زرداری کو گیارہ بارہ برس جیل میں رکھ کر بھی محض اس بنیاد پر عدالتیں بری کر دیتی ہیں کہ اس کے خلاف ثبوت نہیں ہے۔ یعنی جب ہمیں آپ کو پتہ ہے کہ بندہ کرپٹ ہے تو سزا دینے کے لئے مزید ثبوت کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ ہمارے قانون کا یہی تو اصول ہے کہ خواہ سو بے گناہوں کو سزا ملے مگر ایک مجرم نہ بچے۔

یہ ہماری روایت بھی ہے، پرم پرا بھی ہے اور تاریخ بھی ہے۔ ممتاز مورخ شیر محمد خان ”اردو کی آخری کتاب“ میں لکھتے ہیں کہ ”مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انصاف مشہور ہے۔ ویسے تو ہندوستان کے سبھی راجاؤں کا انصاف مشہور ہے لیکن یہ واقعی سب کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے۔ سزا دینے میں مجرم اور غیر مجرم کی تخصیص نہ برتتے تھے۔ جو شخص کوئی جرم نہ کرے وہ بھی پکڑا آتا تھا۔ فرماتے تھے کہ علاج پرہیز سے بہتر ہے۔ اس وقت اس شخص کو سزا نہ ملتی تو آگے چل کر ضرور جرم کرتا“۔ یعنی یہ وہ لوک دانش اور مثالی انصاف ہے جسے سکھا شاہی کہا جاتا ہے۔

ویسے بھی صلاح الدین ایوبی کو اگر عدالت میں پیش کر دیا جاتا تو کیا ہوتا؟ عدالت نے اس کی ویڈیو دیکھنی تھی جس میں اس نے پہلے کیمرے اور پھر اے ٹیم ایم کا منہ چڑایا تھا۔ دوسری ویڈیوز بھی پیش کر دی جاتیں جن میں وہ حوالات میں دوسرے قیدیوں سے دنگا فساد کر رہا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا کہ وہ پاگلوں کی طرح ریلوے سٹیشن پر شور شرابا کر رہا تھا جب شہریوں نے اسے پہچان کر پکڑ لیا۔

اس کے چچا کا بیان بھی پیش کر دیا جاتا کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا اس لئے اس کے بازو پر اس کا نام اور پتہ کندہ کیا گیا تھا۔ نہ صرف ایسی گواہیاں سن کر جج اسے چھوڑ دیتا بلکہ اگر کسی مفتی سے فتوی لیا جاتا تو ادھر بھی اسے مرفوع القلم کہہ کر معاف کرنے کا حکم ملتا۔ تاویلیں پیش کی جاتیں کہ پاگل کو سزا نہیں دی جاسکتی۔

ویسے بھی صلاح الدین ایوبی نے ہماری قوم کی توہین کی تھی جسے ہرگز بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ نہ صرف اس نے کیمرے کے ذریعے تمام قوم کا منہ چڑایا تھا بلکہ اس نے اس مقدس اے ٹی ایم کا بھی منہ چڑایا تھا جس میں ہمارا دھن راج رہتا ہے۔ کیا قائداعظم نے یہ ملک اس لئے بنایا تھا کہ یہاں پاگل قوم کا منہ چڑائیں؟

اور دیکھیں نڈر کتنا تھا۔ پولیس نے اسے گرفتار کر رکھا تھا اور اس سے تفتیش کر رہی تھی مگر الٹا وہ خود پولیس سے جرح کرنے لگا۔ اس نے اکڑ کر سوال پوچھا ”ایک بات کروں، مارو گے تو نہیں؟ (پولیس: نہیں) پکی بات ہے؟ آپ نے لوگوں کو مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟ “

ایسا ہی کیس کراچی میں عوامی انصاف سے سزا پانے والے پندرہ برس کے ریحان کا تھا۔ اب نظام انصاف سے مایوس شہری بھلا چوروں ڈاکوؤں کو معاف کر دیں؟ ریحان لاکھ کہے کہ وہ چور نہیں بلکہ اپنی مزدوری کے پیسے لینے آیا تھا، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سچ بول رہا تھا۔ وہ اگر نہایت پڑھے لکھے اور باشعور شہریوں کو چور لگ رہا تھا تو پھر اس بات میں شبہ کیسا؟ پولیس بلائی جاتی تو کیا ہوتا۔ پہلے تو پولیس نے ہمسائے سے تصدیق کر کے ہی اسے چھوڑ دینا تھا کہ وہ ان کے گھر قربانی کر چکا ہے اور پیسے لینے کے لئے انہیں تنگ کر رہا ہے۔ بفرض محال پولیس اسے پکڑ کر لے بھی جاتی تو بعد میں عدالت اسے یا تو رہا کر دیتی یا معززین کی ذاتی طور پر تیار کردہ عینی شہادت پر معمولی سزا دیتی اور کہتی کہ سولہ برس سے کم عمر والے کو سخت ترین جرم کی بھی نرم سزا ملتی ہے، اس کے تو خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔ یوں وہ صاف بچ جاتا۔

بہتر یہی ہے کہ تمام چوروں کو عوام سزا دے دیا کریں تاکہ یورپ کے اس عہد زریں کی یاد تازہ ہو جائے جسے متعصب مورخین تاریک دور کہتے ہیں۔ انگلینڈ میں سنہ 1815 میں ایسے 280 جرائم تھے جن پر سزائے موت دی جاتی تھی۔ ایسی سختی تھی کہ 25 پینس چوری کرنے پر سزائے موت دی جاتی تھی۔ یعنی آج کے پاکستان کے حساب سے بات کریں تو تقریباً ایک ہزار روپے کی چوری پر موت کی سزا ملتی تھی۔ اس کے علاوہ خرگوش (یعنی برطانیہ عظمیٰ کا مرغا) چرانے پر بھی سزائے موت دی جاتی تھی۔

لیکن ہمارے موجودہ تناظر میں سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ اگر رات کو کوئی شخص منہ کالا کر کے باہر گھوم رہا ہوتا تھا تو وہ سزائے موت کا حقدار ہوتا تھا۔ قانون کہتا تھا کہ منطق کی رو سے اس نے ابھی کوئی جرم تو نہیں کیا مگر اس کے حلیے سے لگ رہا ہے کہ وہ چوری کرے گا، اس لئے اسے مار دینا چاہیے۔ یعنی وہی سکھا شاہی والی منطق کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ ہاں اگر کوئی چور سزائے موت کے بدلے فوج یا نیوی میں بھرتی ہونا قبول کر لیتا تھا تو اسے معاف کر دیا جاتا تھا۔

اب مہاراجہ رنجیت سنگھ سے لے کر برطانیہ عظمیٰ تک آپ دیکھ لیں۔ ان قوموں نے اسی وجہ سے ترقی کی کہ جرم سرزد ہونے سے پہلے ہی ملزم کو مجرم قرار دے کر سزا دے دیتی تھیں۔ اب پاکستان میں قانون تو قوم کو عظمت کی راہ پر گامزن نہیں کر رہا لیکن شکر ہے کہ عوام اور پولیس اسے اپنے ہاتھ میں لے کر وطن کو عظیم سے عظیم تر بنا رہے ہیں۔ آپ ان کے طریقے پر تو اعتراض کر سکتے ہیں لیکن بہرحال ان کی نیت نیک ہے۔

بس ایک پریشانی ہو رہی ہے۔ آج کل ٹریفک چالان بھی پانچ سو ہزار روپے کا ہونے لگا ہے۔ اگر چالان کرنے والے کو بھی عوام یا پولیس سے موقعے پر ہی سزائے موت ملنے لگی تو بہت نا انصافی ہو گی۔ ہم اور آپ یہ والی چوری تو کرتے رہتے ہیں۔ ابن انشا فرما گئے ہیں کہ ”حق اچھا پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا“۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar