کچھ یادیں: ارون جیٹلی اور سشما سوراج


اگست کا مہینہ جہاں کشمیری قوم کیلئے آزمائشیں لیکر آیا، وہیں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کیلئے بھی خاصا بھاری رہا۔ اسکے تین مقتدر لیڈران سابق وزیر خارجہ سشما سوراج، سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ بابو لال گور انتقال کر گئے۔ دیگر بی جے پی لیڈران کے برعکس بابو لال گور اکثر عیدین و دیگر موقعوں پر بھوپال کی تاج المساجد یا عید گاہ میں ٹوپی پہنے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے تھے۔ سوراج اور جیٹلی بی جے پی کی نئی پود ، صاف و شستہ انگریزی بولنے والے معتدل چہرے تھے۔

وہ ان گنے چنے لیڈروں میں تھے، جو غیر راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) ہوتے ہوئے بھی بی جے پی میں اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچ گئے تھے۔ متعدد تجزیہ کار جب بی جے پی کو یورپ کی دائیں بازو کی قدامت پسندجماعتوں یعنی جرمنی کی کرسچن ڈیموکریٹ یا برطانیہ کی ٹوری پارٹی سے تشبیہ دیتے ہیں، تو چوک جاتے ہیں، کہ ان یورپی سیاسی جماعتوں کے برعکس بی جے پی کی کمان اسکے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اسکی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل آر ایس ایس کے پاس ہے۔ جب بی جے پی میں 2014ئ کے انتخابات کی تیاری اور اس کیلئے وزارت اعظمیٰ کے امیداوار کی نامزدگی کا معاملہ پیش آیا، تو محسوس ہوا کہ معمر رہنما ایل کے ایڈوانی اب عوامی اپیل کھو چکے ہیں، اسلئے ان کی جگہ پر کسی کم عمر لیڈر کو کمان سونپی جائے۔

سب سے پہلے سشما سوراج کا ہی نام سامنے آیا، جس کو بتایا جاتا ہے کہ آرایس ایس نے رد کردیا۔ نریندر مودی کے مقابل سوراج نے بی جے پی کی اعلیٰ فیصلہ سازمجلس پارلیمانی بورڈکو اپنے حق میں قائل بھی کرلیاتھا اور ان کو ایڈوانی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ آرایس ایس کے رویہ کو بھانپ کر آخری پتہ کے طور پر ایڈوانی نے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کا نام تجویز کردیا تھا، جو مودی کی طرح آر ایس ایس بیک گراونڈ کے ساتھ ساتھ لگاتا ر تین بار وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بھی براجماں رہ چکے تھے۔مگر آر ایس ایس اور کارپوریٹ سیکٹر کی مدد سے مودی نے ان سبھی کو پچھاڑ کر میدان مار لیا۔

ان تین لیڈروں کی یکایک موت پر بھوپال سے بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے کہا کہ اپوزیشن بی جے پی رہنماوٗں پر ‘مارک شکتی’ یعنی جادو ٹونا کا استعمال کر رہی ہے۔ دہلی میں جب میں نے سیاسی رپورٹنگ شروع کی، تو بی جے پی ان دنوں اپوزیشن میں تھی۔ صحافیوں اور اپوزیشن کا ایک طرح سے ہم زیستی کا تعلق ہوتا ہے۔ کانگریس کے زیر قیادت من موہن سنگھ کی وزارت اعظمیٰ کے دوسرے دور میں سشما سوراج جہاں لوک سبھا یعنی ایوان زیریں میں ، وہیں ارون جیٹلی راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا میں لیڈر آف اپوزیشن تھے۔ اس سے قبل دونوں پارٹی کے جنرل سیکرٹریوں کی ٹیم میں شامل تھے اور وقتاً فوقتاً ترجمان کے طور پر کام کرتے تھے۔ جیٹلی کے ساتھ میری پہلی ملاقات ان کے چیمبر میں 90کے اوائل میں ہی ہوئی تھی، جب میں دہلی کے ایک مقامی اخبار میں تربیتی رپورٹر کا کام کر رہا تھا۔

کشمیری رہنما عبدالغنی لون کی صاحبزادی ایڈوکیٹ شبنم غنی لون کو نئی دہلی کے لاجپت نگر علاقہ سے بد نام زمانہ قانون ٹاڈا کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ جیٹلی ، جو سپریم کورٹ کے نامی گرامی وکیل تھے، ان کا دفاع کر رہے ہیں۔کیس کے کاغذات وغیرہ لینے کیلئے میں جب ان کے دفتر پہنچا ، انہوں نے مجھے اپنے کیبن میں بلایا اور خبر سنائی کہ وہ شبنم کی ضمانت کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ شاید عدالت کی طرف سے ٹاڈا کے تحت کسی اسیر کی ضمانت پر رہائی کایہ پہلا کیس تھا۔ جیٹلی مشہور ڈوگرہ راہنما اور 26برس تک جموں و کشمیر میں وزیر رہنے والے گردھاری لال ڈوگرہ کے داماد تھے۔ اسلئے جموں و کشمیر کے ساتھ ان کا کچھ تعلق بنتا تھا۔

ان کی اہلیہ کشمیر ٹائمز کے مدیر وید بھسین کی خاصی معتقد تھی۔ جب میں نے بعد میں دہلی میں کشمیر ٹائمز کے بیورو کو جوائن کیا، چونکہ جیٹلی بطور پارٹی جنرل سیکرٹری جموں و کشمیر کے کئی برس تک انچارج بھی تھے، اس لئے بھی ان کے ہاں حاضری لگ جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ 1998ء کے عام انتخابات میں بی جے پی نے اپنی تمام تر طاقت جھونک دی تھی۔ سبھی لیڈروں کو ہدایت دی گئی تھی کہ نئی دہلی کے بجائے وہ انتخابی حلقوں میں قیام کریں۔ بی جے پی کے صدر دفتر اشوکا روڑ پر ویسے تو ہر روز تین بجے پریس بریفنگ ہوتی تھی۔

ان دنوں پور ا دفتر ہی خالی ہو گیا تھا۔ جلدہی پارٹی لیڈران کو احساس ہوا کہ دہلی میں بھی میڈیا کے ساتھ بات چیت کا سلسہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اعلان ہوا کہ موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو صدر دفتر میں قیام کیا کریں گے اور ارون جیٹلی کو پریس بریفنگ اور ساونڈبائٹس دینے کیلئے متعین کیا گیا ہے۔

ان کی صاف شستہ و بامحاورہ انگریزی ، ہم انگریزی کے صحافیوں کیلئے ایک نعمت تھی۔ ورنہ بی جے پی کے لیڈروں کی ہندی کا ترجمہ کرنا اور اسکا صحیح مفہوم پیش کرنا ہر روز پریشانی کا باعث ہوتا تھا۔ گو کہ جیٹلی اسٹوڈنٹ سیاست کے بعد 1977ء میں جنتا پارٹی کی مجلس عاملہ کے رکن تھے۔ مگر اس کے بعد انہوں نے سیاست کو خیر باد کرکے لیگل پریکٹس پر دھیان مرکوز کر دیا تھا۔ 1998ء میں انکی بی جے پی کے صدر دفتر آمد اور ترجمان کے حیثیت سے ان کی تقرری ایک طرح سے ان کی سیاست میں واپسی تھی۔ جلد ہی وہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر براجمان ہوئے اور بعد میں انہوں نے اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزارتی عہدوں پر بھی کام کیا۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).