مودی سرکار کی ’’مردانہ وطن پرستی‘‘


بھارت کا 2004سے دس سال تک وزیر اعظم رہا من موہن سنگھ بنیادی طورپر ایک ٹیکنوکریٹ ہے۔ 1990کی دہائی کے آغاز میں جب کانگریس ہی کی حکومت تھی تو اس وقت کے وزیر اعظم نرسیما رائوکو بھارتی خزانے میں موجود سونے کو گروی رکھ کر IMF اور ورلڈ بینک سے بھاری بھرکم قرضے لینا پڑے تھے۔ دگرگوں معاشی حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے من موہن سنگھ کو وزیر خزانہ بنایاگیا۔ اسے پالیسی سازی کے ضمن میں کامل اختیار دیا گیا۔ وزارت سنبھالتے ہی من موہن سنگھ نے بہت تیزی سے نہرو کے متعارف کردہ ’’سوشلزم‘‘ سے نجات کے اقدامات شروع کردئیے۔ اپنے ملک سے نام نہاد ’’لائسنس اور پرمٹ راج‘‘ کو ختم کیا۔ معیشت کو ’’مارکیٹ کے تقاضوں‘‘ کے مطابق ڈھالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کی پالیسیوں کی بدولت بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری آئی اور سردجنگ کے دور میں غیر جانب داری کے نام پر کمیونسٹ کیمپ کے قریب تصور ہوتا بھارت واشنگٹن کا Strategic Alyہونے کی راہ پر چل نکلا۔

2014 سے من موہن سنگھ عملی طورپر ایک ریٹائرڈ زندگی گزاررہا ہے۔اتوار کے دن مگر اس نے کیمرے کے سامنے بیٹھ کر اپنے خیالات ریکارڈ کروائے۔اس کے بیان پر مبنی وڈیو چند ہی لمحوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔مشہور چینلوں اور بڑے اخبارات کے کالم نگار اس کے بیان کردہ نکات کو زیربحث لانے کو مجبور ہوگئے۔حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کی وجہ سے شدید تر ہوتی ہندوانتہاپسندی کے تناظر میں من موہن سنگھ کے خیالات پر مبنی وڈیو نے فقط بھارتی معیشت کے بارے میں سوالات اٹھائے ۔

تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں شرح نمو طے شدہ ہدف سے گرکر 5فی صد کی سطح پر آگئی ہے۔بازار میں مندی کا رحجان ہے۔نئی سرمایہ کاری ہونہیں رہی۔ بے روزگاری بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ روزمرہّ استعمال کے حوالے سے ’’ضرورت‘‘ شمار ہوتی اشیاء کے مشہور برانڈز کی فروخت میں شدید کمی کا رحجان ریکارڈ ہورہا ہے۔من موہن سنگھ دھیمے مزاج کا حامل ہے۔ بھارتی معیشت کی موجودہ زبوں حالی کو بیان کرتے ہوئے مگر اس نے انتہائی سخت زبان استعمال کی۔اس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ مودی سرکار نے ریاستی خزانے کو بھاری بھر کم دکھانے کے لئے Tax Terrorism متعارف کروادیاہے۔

معاشی میدان میں ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ کا من موہن سنگھ کی دانست میں آغاز مودی نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں نوٹ بندی کے فیصلے سے کیا تھا۔نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ اس کی بدولت ٹیکس والوں سے چھپائی رقوم منظرِ عام پر آجائیں گی۔ اس فیصلے پرکامل عمل درآمد کے باوجود بالآخر اتنی رقم بھی اکٹھی نہ ہوئی جو نئے نوٹ چھاپنے کے لئے ریاست نے خرچ کی تھی۔ ریاست کے خوف سے بلکہ سیٹھوں نے مزید سرمایہ کاری سے ہاتھ اٹھالئے۔نوٹ بندی سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکنے کے سبب پیدا ہوئی خجالت کو مٹانے کے لئے مودی سرکار نے اب مزید ٹیکس متعارف کروادئیے ہیں۔

مبینہ ٹیکس چوروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہوگئی ہیں ۔ اپوزیشن کے ’’بدعنوان‘‘ تصورہوتے ہوئے رہ نمائوں کی گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔کانگریس کا ایک اہم رہ نما پدم چدم پرم بھی اس کا نشانہ بنا۔اپنی آسانی کے لئے یوں سمجھ لیجئے کہ مودی سرکار کی ٹیکس اکٹھا کرنے والی ایجنسیوں نے بھارت میں کاروبار کے حوالے سے ویسی ہی فضا بنادی ہے جس کا الزام پاکستان میں نیب کے ادارے پر لگایا جاتا ہے۔ من موہن سنگھ کا شاید اسی باعث اصرار ہے کہ “Tax Terrorism”کا رحجان ختم کئے بغیر بھارتی معیشت کو مکمل تباہی سے بچایا ہی نہیں جاسکتا۔

مودی سرکار کو اپوزیشن کے خلاف ’’انتقام‘‘ کے جنون سے بھی نجات پانا ہوگی۔من موہن سنگھ کے خیالات کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے میں پاکستان اور بھارت میں احتساب کے نام پر جاری اقدامات میں یکسانیت ڈھونڈنا نہیں چاہ رہا۔ مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات سے مستقل پریشان ہوا میرا ذہن بنیادی طورپر یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مودی سرکار بھارتی معیشت کی بگڑتی صورت حال پر توجہ کیوں نہیں دے رہی۔اس سوال پر غور کرتے ہوئے دریافت یہ ہورہا ہے کہ حالیہ انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہونے کے بعد نریندرمودی اور اس کے انتہاپسند مشیروں نے یہ باور کرلیا ہے کہ ’’بھارتی جنتا‘‘ کو معاشی معاملات پر غور کرنے کی فرصت نہیں۔

معیشت کے بارے میں ’’شرح نمو‘‘ اور ’’صارف کا اعتماد‘‘ کے حوالے سے گفتگو فقط چند سیٹھوں اور ان کے ’’پالے‘‘ دانشوروں کا دردِ سر ہے۔’’جنتا‘‘ بھارت کو فوجی حوالوں سے طاقت ور دیکھنا چاہتی ہے۔ جنتاکی اکثریت اس امر پر قائل ہوگئی ہے کہ بالآخر صدیوں کی غلامی اور ذلت سہنے کے بعد ’’ہندوازم‘‘کے بھرپور احیاء کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ہندو’’بالادستی‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے ’’ہر طرح کی قربانی‘‘ دینے کو تیار ہے۔اسی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے آرٹیکل 370کے خاتمے کا اعلان ہوا۔اس کے بعد وادیٔ کشمیر پر کامل لاک ڈائون مسلط کردیا گیا۔

29 روز گزرجانے کے باوجود اس میں نرمی لانے کا ٹھوس وعدہ بھی نہیں ہورہا۔نیویارک ٹائمز،بی بی سی اور واشنگٹن پوسٹ وغیرہ نے لاک ڈائون کی وجہ سے جنم لیتے انسانی المیوں کی بے تحاشہ مثالیں دُنیا کے سامنے لائی ہیں۔ انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے معتبر تصور ہوتے کئی نام اور ادارے شدید ترین الفاظ میں لہذا لاک ڈائون کی مذمت کررہے ہیں۔ مودی سرکار مگر ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ آج سے چند ہی سال قبل تک بھارت کی Soft Power کا ذکر ہوتا تھا۔دُنیا کی نظر میں اسے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑی جمہوریت بناکر دکھایا جاتا تھا۔

ایک ایسا ملک جہاں نام نہاد متوسط طبقہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔’’انتہائی پڑھے لکھے‘‘ افراد پر مشتمل یہ طبقہ بہت خوش حال بتایا گیا۔ اسے رہائش کے لئے جدید طرز کے فلیٹس کی ضرورت تھی۔ اس سے متعلقہ خواتین وحضرات باقاعدگی سے فٹ رہنے کے لئے جم جاتے ہیں۔برانڈڈ کپڑے خریدتے ہیں۔جدید طرز کے موبائل فونوں کے طلب گار ہیں۔دُنیا بھر کی مشہور کمپنیوں کو لہذا اپنی تیارکردہ اشیاء بیچنے کے لئے بھارتی متوسط طبقے کی دلجوئی کرنا ہوگی۔ دوسری بار حکومت سنبھالتے ہی مودی سرکار نے مگر بھارت کے Soft Image کی رعونت سے نفی کرنا شروع کردی ہے۔

اب Muscular Nationalismیعنی ’’مردانہ وطن پرستی‘‘ کی گفتگو ہورہی ہے۔ ’’مرد‘‘ کی جبلی وحشت اور دوسروں پر غلبہ پانے کی خواہش پرعملدرآمد کے لئے کشمیریوں اور مسلمانوں کی صورت میں “Other”تلاش کرلیا ہے۔ ہٹلر کی فسطائیت نے اپنی ’’مردانگی‘‘ یہودیوں کی زندگی اجیرن بناتے ہوئے دکھائی تھی۔ ہندوانتہاپسندی کا ’’مرد‘‘ 80لاکھ کشمیریوں کو ایک وسیع وعریض جیل میں محصور کئے ہوئے ہے۔اپنی ’’مردانگی‘‘ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہندوانتہاپسندوں سے اس خطے میں امن کے لئے سنجیدہ مذاکرات کی امید رکھنا میری عاجزانہ رائے میں خام خیالی ہے۔

ہمارے کئی بہت ہی سنجیدہ اور سوچ بچار کے بعد خیالات کا اظہار کرنے والے افراد یہ دعویٰ کرتے سنائی دیتے ہیں کہ بھارت اپنی کمزور ہوتی معیشت کے باعث پاکستان سے جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان بھی بھارت کے مقابلے میں کمزور ترمعیشت کے ہوتے ہوئے جنگ میں پیش قدمی کی جانب قدم بڑھانے سے گریز کرے گا۔پاک،بھارت جنگ کے لہذا مکانات ٹھوس معاشی وجوہات کی بنیاد پر موجود نہیں ہیں۔اپنے سنجیدہ دوستوں کی رائے کا دل سے احترام کرتے ہوئے یہ التجا کرنے کو مجبور ہورہا ہوں کہ پاک،بھارت معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے بھرپور دھماکہ سے نمودار ہوئی ’’مردانہ وطن پرستی‘‘ پر بھی تھوڑا غور کرلیا جائے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).