خوشی کیا ہے؟


صبح سویرے منڈیر پہ رکھے مٹی کے برتنوں میں دانہ پانی ڈالنا اور پھر چڑیوں کا انتظار۔ کیا خوشی ملتی تھی بچپن میں، ناقابل بیان

راہ چلتے سنگل پہ گاڑی رکتے ہی کئی چھوٹے بچے بچیاں دوڑ کر گاڑی کے شیشے کے پاس آجاتے ہیں کسی ایک کے ہاتھ میں ہی پانچ کا سکہ آتاہے اور پھر اس کے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ اسے اپنے آس پاس موجود بچوں میں ایک الگ حیثیت کا احساس دلاتی ہے یہی احساس تو خوشی ہے۔

خوشی کب کہاں اور کیسے ہمیں ملے یہ ہمارے اختیار میں نہیں۔ لیکن ہم خوشیاں بانٹ سکتے ہیں۔

لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ خوشی بانٹنی کیسے ہیں۔

خوشی ہے کیا!

کیا کسی کوکچھ دے دینا اس پہ احسان کردینا یا اس کی مدد کردینا؟

کس اپنے سے کمتر کواپنی بڑائی دکھاکر ہی خوشی دی جاسکتی ہے؟

کیادوسرے کو خوش کرتے کرتے کبھی ہم نے اپنے آپ کوخوش کرنے کے بارے میں غور کیاہے۔

خوشی روح کو سیراب کرنے کانام ہے۔ آپ کسی غریب کی مالی مدد کریں تواس کے چہرے کاتشکر وہ خوشی ہے جس سے اس کی روح سیراب ہوئی۔

کسی بیمار کی تیمارداری کریں اور اس کا سکون دیکھیں یہ خوشی ہے۔ کسی کوروڑ پار کرادیا کسی کونیچے سے کچھ اٹھادیا کسی کوپکاکے کھلادیا کتناآسان ہے خوشی باٹنا۔

لیکن ہم کیسے خوشی پاسکتے ہیں۔ اس مصروف حبس زدہ ماحول میں کیاہم اپنی خوشیاں کا انتظار کرتے رہیں گے۔ کیاہماری روح کوحق نہیں سیراب ہونے کا۔

نہیں بالکل نہیں ہمیں اپنی خوشیوں کا انتظار نہیں کرنابلکہ انہیں ڈھونڈ کے پانا ہے ہمیں صرف زندہ نہیں رہنا اسے جینا بھی ہے۔

جب جب اداسی گھیرنے لگے اٹھ کھڑے ہوئیے قدم بڑھائیے شاید کوئی آپ کا منتظر ہو کوئی وقت کالمحہ کوئی جاندار شے کوئی انسان۔ ڈھونڈئیے خوشی آس پاس ہی ہے۔ پودوں میں پانی ڈالیے۔ پودے لگائیے۔ جانور پالئے، اپنے آس پاس دیکھیے شاید کوئی ضعیف تنہائی کاشکار تو نہیں اس کی تنہائی باٹیے۔

یہ ضروری تو نہیں کہ پیسہ ہی خرچ کیاجائے تو خوشیاں حاصل ہوں خوشیاں توبے مول ہوتی ہیں بس دامن پھیلانا پڑتا ہے یہ پھسلتی ہوئی آجاتی ہیں۔

یہ ناراض بھی ہوجاتی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ انہیں روٹھنے مت دیں انکساری کے ساتھ انہیں مناتیں رہیں۔

زندگی میں آزمائش آئے بھی تو اس پاک ذات کی ناشکری مت کریں ہرحال میں اس کا شکرادا کرناچاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).