!آیا ہے کربلا میں غریب الوطن کوئی


پھر محرم آن پہنچا!

ایک نیا ہجری سال اور نواسہ رسول کی یاد پھر سے! محرم سے تلخ یادوں کا رشتہ ہے، صدیوں پر محیط زخمی یادیں!

خانوادۂ نبوت سے محبت کا تعلق رکھ کے جینا نہ چودہ سو سال پہلے آسان تھا اور نہ آج اکیسویں صدی میں!

تب بھی زمانہ جان کا دشمن تھا اور آسمان کے تیور آج بھی نہیں بدلے!

بدلتے زمانوں میں مذہبی اقلیت ہونا نہ صرف غیر مسلموں کے لئے مشکل ہے بلکہ مسلمانوں میں بھی اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھ کے جینا سہل نہیں رہا۔

ہمارے بچپن میں جب محرم آتا تو سکول کی بیشتر لڑکیاں ہمیں دیکھ کے سرگوشیوں میں باتیں کرتیں۔ اورجب ہم متوجہ ہوتے تو خاموشی چھا جاتی۔ ہمارے فرقے کے متعلق مختلف باتیں مشہور کر دی گئیں تھیں۔ مثلا ہم گھر آنے والے مہمان کو مشروب میں اپنا تھوک ڈال کے پلاتے ہیں۔ امام حسین کے نام کی نیاز خون ڈال کے پکائی جاتی ہے۔ نویں محرم کی رات کو روشنی گل کر کے مرد و زن گلے ملتے ہیں۔ یہ لمبی اعتراضات کی فہرست نہ تھی بلکہ نفرت کے بیج تھے جو گزرتے زمانوں میں بوئے جا رہے تھے۔

 ہم یہ سن کے منہ بسورتے، ابا کے پاس پہنچتے جو ہماری کتھا سن کے مسکرا دیتے اور کہتے تم خود بتاؤ کیا یہ سب ہمارا وطیرہ ہے؟ ہمارا سر نفی میں ہلتا، وہ مسکراتے اور کہتے، بس خود کو پتہ ہونا چاہئے کہ کیا حقیقت ہے؟

وقت آگے بڑھا! نفرت کے بیجوں سے پودے سر اٹھانے لگے۔ ہماری ایک بہت ہی قریبی دوست، ہماری ہم نوالہ وپیالہ، کی خالہ نے یہ جاننے کے بعد کہ ان کی چہیتی بھانجی کی سب سے قریبی دوست شیعہ ہے، خوب خبر لی اور اس بات کا ماتم کیا کہ کیا زمانہ آگیا ہے، شیعہ ہمارے گھروں میں گھس گئے ہیں۔

وقت اور آگے بڑھا، ننھے پودے جوان ہونے لگے۔ ہمارے زمانے میں جو زیر لب کہانیاں تھیں، وہ ہماری بیٹی کی طالب علمی کے زمانے ميں الزام بن چکا تھا۔سکول میں پڑھے لکھے گھروں کی بچیاں ماں باپ کی زبان میں نفرت انگیز الزام لگاتیں اور پھر ساتھ نہ کھیلنے کی سزا بھی سناتیں۔ ہماری بیٹی ہماری طرح منہ بسورتی اور ہمارے پاس دلاسہ دینے کے لئے ابا والے الفاظ ہوتے، لیکن سکول میں حقہ پانی بند کر نے کی سزا کا ہمارے پاس کوئی حل نہ ہوتا۔

اور بات صرف سوشل بائیکاٹ تک نہ رہی تھی۔ تعصب اگلی سیڑھی پہ قدم رکھ چکا تھا۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران ہماری بیٹی کو انتہائی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا جب برٹش سکول میں اسلامیات کا استاد الاعلان کہتا کہ شیعہ کافر ہیں۔ یہ آموختہ سب بچوں کو بلند آواز میں دہرانا پڑتا۔ بیٹی روتی ہوئی گھر آتی اور بتاتی کہ اس کو صبرکے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ پھر سوال کرتی کہ ماجرا کیا ہے؟

اور ہمیں ضبط کی منزلوں سے گزر کے بار بار اس کو بتانا پڑتا کہ ہم بھی خدا کی وحدانیت پہ یقین رکھتے ہیں، انبیائے کرام کو عزیز رکھتے ہیں اور نبوت کے آخری چراغ کے ہی ماننے والے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ حضور کے بعد کے معاملات میں کچھ اختلاف ہے اور ہمارا ایجاد کردہ نہیں۔ وہ سیاست کے داؤ پیچ تاریخ کا حصہ ہیں، سو بھول جاؤ کہ استاد صاحب نے کیا کہا۔

بیٹی کو تو بھول جانے کو کہا مگر ملک عزیز میں کوئی بھولنے کو تیار نہیں تھا۔ گلی گلی کافر کا فتویٰ لگنے لگا۔ شیعہ کافر کو جہنم رسید کرنے پہ جنت بٹنے لگی۔ مذہبی فرقہ بندی کا آتش فشاں ہر طرف آگ اگلنے لگا۔ لوگ اجنبی نظروں سے دیکھنے لگے اور ہم اپنے ہی ملک میں قابل نفرت ٹھہرے۔ زندگی پھونک پھونک کے قدم اٹھانے کی نذر ہونے لگی۔

ہر برس محرم آتا ہے، نواسہ رسول کی یاد دلاتا ہے۔ یہ وہی ہیں جن سے رسول کی محبت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ان کی قربانی بھی سب کے سامنے ہے، کربلا کو اسلام کی حیات نو مانا گیا۔ کربلا نے ثابت کیا کہ ظلم کے سامنے ڈٹ جانے والے کبھی نہیں مرتے لیکن کربلا کی یاد منانے والوں کو قابل نفرین بنا دیا گیا ہے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ آپ ہمارے لئے کیا سوچتے ہیں لیکن ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں خدارا خانوادۂ رسول کی یاد منانے کی اتنی بڑی سزا مت دیجیے۔ خوف و دہشت کی فضا، معطون ٹھہرائے جانے کا غم، پل صراط پہ چلتے ہوئے کسی بھی گھڑی کچھ بھی ہونے کا عذاب، اس سب سے ہمیں رہائی چاہیے۔

اختلافات کو تاریخ کا حصہ جانیے۔ نفرت اور فتویٰ گیری سے انسانیت کو زخمی نہ ہونے دیجیے۔ جیو اور جینے دو کا فلسفہ سمجھیے کہ اسی میں فلاح ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).