ریسٹ اِن پیس، بیوی!


” مجھے جانے دیں خدا حافظ، ٹھیک ہے“

پانچ جنوری 2019 کی شام سی ایم ایچ لاہور کے آئی سی یو میں تاروں، ٹیوبوں، پٹیوں، نالیوں، پائپوں اور بوتلوں میں جکڑی ہوئی، نیم غنودگی یا بیہوشی کے بین بین کسی کیفیت میں یہ اس کے آخری الفاظ تھے جو میری سماعت نے سنے۔ اتنی نحیف آواز کہ سننے کے لئے کان آکسیجن ماسک کے ساتھ لگانا پڑے۔

اگلے دن علی الصبح وہ چلی گئی۔ چھبیس سال کی رفاقت، اکیس سال کی جانکاہ بیماری اور انچاس سال کی زندگی سے بھرپور زندگی۔ ایک سانس کے بعد اگلی سانس کی عدم دستیابی سے تمام ہوئی۔

1989 کی ایک شام گھر فون کیا تو امی نے پوچھا ”کہیں کوئی چَکر وَکر تو نہیں چل رہا، تمہارے رشتے کا سوچ رہے ہیں۔ “ زمانہ قبل از موبائل و انٹرنیٹ کی بات ہے، ہفتے میں تین چار بار آپریٹر کی مہربانی سے ”لانگ ڈسٹینس“ کال مِل جاتی تو غنیمت ہوتی تھی۔ اگلی کال میں پتہ چلا ماموں کے ہاں بات چل رہی ہے۔ اس سے اگلی کال پر ہاں کی خبر اور اس سے اگلی پر منگنی کی۔ ”ہم رسم کر آئے ہیں، اگلے ہفتے عید کے لئے آرہے ہو تو وہ بھی آ کر رسم کر لیں گے۔ “

1992 میں ویلنٹائن ڈے کے غلغلے سے تعارف ہونے سے کہیں پہلے 14 فروری کو وہ میرے عقد میں آئی اور اسی سال 27 نومبر کو رخصتی ہوئی۔

وہ کیا تھی؟ سیماب صفت؟ الھہڑ؟ نٹ کھٹ؟ چلبلی؟ شاید یہ سب کچھ، اور اس سے بہت زیادہ۔ 1997۔ 98 کی سردیوں میں جان لیوا مرض تشخیص ہوا۔ حالت یہ تھی کہ انگلی میں گینگرین کا خطرہ تھا اور تکلیف کی شدت اتنی کہ آنکھ لگتی تو درد سے جاگ جاتی۔ مگر زندہ دلی کا وہ عالم کہ میری بہن عیادت کے لیے گھر آئیں تو وہ اپنی کھنک دار آواز میں کسی بحث میں مگن تھی۔ میری بہن کہنے لگیں ”لو مریض کی آواز تو باہر گلی تک آرہی ہے“۔

اس زندہ دلی کے سہارے ہی ساری زندگی گزر گئی۔ لوگ حیران بھی ہوتے تھے، غلط فہمی کا شکار بھی ہوتے تھے اور شک بھی کرتے تھے۔ یہ بہتان بھی لگا کہ ”انیلا کا تو جب دل چاہتا ہے بیمار پڑ جاتی ہے“ شاید یہ بات اتنی غلط نہیں، صرف تھوڑی الٹ تھی۔ بیماری کے باوجود جب وہ اٹھنے کی ٹھان لیتی تو کسی کو پتہ ہی نہ چلتا کہ اس ہنس مکھ، تازہ دم چہرے کے پیچھے کرب، تکلیف اور کمزوری کی کتنی پرتیں دفن ہیں۔

میں کبھی کبھی سوچتا تھا کہ مجھ جیسا سہل پسند، سست الوجود شخص، اگر یہ اپنی بیماری کے ہاتھوں مجبور نہ ہوتی تو کیسے اس کی افتادیٔ طبع کا ساتھ دے پاتا۔ اسے خود بھی احساس تھا، کبھی مسکراتی اٹھلاتی ہوئی ترنگ میں آ کر کہتی، خدا نے بھی مجھے باندھ کر آپ کے حوالے کیا ہے کہ پر نہ مار سکوں۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ اس نے زندگی سے ہار نہیں مانی۔ ہاں ایک طرزِ زندگی عام لوگوں سے مختلف اختیار کرنا پڑا، مگر اس نے کبھی بیماری کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اسی لئے بہت قریبی ملنے جلنے والوں کو بھی اس کی گرتی صحت کا درست اندازا نہیں تھا۔

بیماری کی تشخیص کے بعد ابتداَ صحت سنبھلنے پر ٹھانی کہ جاب کرنی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر حسن عسکری اور پروفیسر قزلباش جیسے اساتذہ کی شاگرد رہی تھی۔ راولپنڈی میں فضائیہ کے کالج میں سوکس کی لیکچررشپ کے لئے انٹرویو ہوا۔ پوچھا پڑھانا کیوں چاہتی ہیں، جواب دیا، سوکس اور پاکستان سٹڈیز ہمیشہ بور مضامین سمجھے جاتے ہیں، میں انہیں دلچسپ بنا کر پڑھانا چاہتی ہوں۔ اور پھر اس نے ایسے ہی کیا، چکلالہ میں فضائیہ سکول ہو، اسلام آباد کا پنجاب گروپ آف کالجز کا کیمپس یا لاہور میں فضائیہ کالج آف ایجوکیشن فار ویمن۔ سب جگہ اس کا ماٹو یہی رہا۔

اس کی موت کی خبر سن کر اس کے ایک سٹوڈنٹ برہان نے میسیج کیا (ترجمہ) ”۔ وہ ایک آئیڈیل استاد تھیں، ایک ماں کا دل اور صوفی کی روح لئے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا، درحقیقت جو سبق انہوں نے مجھے سکھائے وہ نہ کتابوں میں مل سکتے ہیں نہ ہی لفظوں میں سمجھائے جا سکتے ہیں“

وہ کوئی فرشتہ نہیں تھی۔ بھر پور انسان تھی، انسانیت کی تمام کجیوں، کوتاہیوں، کمزوریوں کے ساتھ۔ لڑتی تھی، جھگڑتی تھی، غصہ کرتی تھی، پریشان ہوجاتی تھی، ناراض ہوجاتی تھی، دکھی ہوجاتی تھی۔ لیکن پھر اُٹھ کھڑی ہوتی تھی۔ کسی ٹیڑھے رشتہ دار سے، دنیا سے، معاشرے سے، اپنی بیماری سے نبردآزما ہونے کے لئے۔ 2010 میں کوما میں چلی گئی، میں نے اس کے ڈاکٹر ونگ کمانڈر فواد احمد سے پوچھا، واپس آپائے گی؟ کہنے لگے فائیٹر ہیں، یقیناَ آئیں گی، شاید کچھ دن لگ جائیں۔ اور وہ عظیم فائیٹر دس گھنٹوں میں آنکھیں کھولے شام کو بیٹے کی سکول میں ایوارڈ تقریب میں شمولیت کے لئے مجھے ہدایات دے رہی تھی۔ پھر لوگ کیوں نہ سمجھتے کہ وہ اپنی من مرضی سے بیمار ہوتی ہے۔

2006 میں جگر کا عارضہ تشخیص ہوا۔ پرانی بیماری بدستور لاحق تھی۔ سی ایم ایچ کے افسر ز وارڈ میں نرس کچھ ٹیسٹ کے لئے خون کا نمونہ لینا چاہ رہی تھی اور وہ حسبِ عادت چٹکلے چھوڑ رہی تھی اور اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔ نرس نے سٹپٹا کر پوچھا ”آپ کو پتہ بھی ہے آپ کتنی سیریس بیمار ہیں؟ “، اس نے پٹ سے جواب دیا ”ابھی مری تو نہیں ناں“

ڈاکٹرز ہمیں مسلسل قصداَ یا غیر ارادی طور پر اس امکان سے آگاہ کرتے رہے۔ غالباَ 2008 یا 2009 کی بات ہے، ایک نئے میڈیکل سپیشلسٹ کے پاس معائنے کے لئے گئے تو بیماری کا سن کر پوچھا کب تشخیص ہوئی؟ بتایا تقریباَ دس گیارہ سال ہو گئے ہیں۔ بے ساختہ بولے بڑا ٹائم نکال گئی ہیں آپ تو۔ پھر فوراَ سنبھل کر کہنے لگے میرا مطلب ہے بڑی ویل مینیجڈ ہے آپ کی بیماری۔

وقتاَ فوقتاَ ایسی باتیں سن سن کر اور بارہا اسے موت کے منہ میں جاتے اور پھر واپس آتے دیکھ کر میں اور بچے بیک وقت دو متضاد ذہنی کیفیتوں کا شکار تھے۔ ایک سطح پر ہم ہمہ وقت اس سانحے کے لئے ذہنی ظور پر تیار رہتے تھے جبکہ دوسری طرف یہ امید بھی بندھی رہتی تھی کہ ہسپتال جائے گی، بیماری سے دو دو ہاتھ کرے گی اور ہنستی مسکراتی واپس آجائے گی۔

اس بار بھی ہم اسی ذہنی کیفیت کا شکار تھے۔ جبکہ بظاہر تکلیف بھی اتنی شدید نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں نے اسے کہتے سنا کہ ”مجھے جانے دیں خدا حافظ، ٹھیک ہے“ تو بیک وقت میں دونوں ہی کیفیتوں کا شکار تھا۔ یہ فیصلہ ہی نہ کر پایا کہ یہ کتنا سچ اور کتنا وہم ہے۔ کبھی سوچتا ہوں اس فائیٹر کو اگر میں جواب میں کہہ دیتا کہ نہیں یہ ٹھیک نہیں ہے تو کیا معلوم وہ اس بار میری خاطر ہی رک جاتی۔

چھ جنوری کی اوس میں بھیگی سرد صبح کو آئی سی یو میں ڈیوٹی نرس اپنے پروٹوکول کے حساب سے مجھے سمجھا رہی تھی

”سر مانیٹر پر یہ پلس دل کی دھڑکن ظاہر کرتی ہے۔ یہ لایئن سیدھی ہوجائے تو اس کا مطلب ہے اب زندگی کی کوئی رمق نہیں ہے۔ ہم نے تمام پروسیجر کر کے دیکھ لئے ہیں، آئی ایم سوری“

لائین سیدھی ہو جانے کا مطلب یعنی اب زندگی نہیں رہی۔ تو کیا لائین کا ٹیڑھ ہی زندگی ہے؟ اگر سیدھی لائین موت ہے تو کیا ہر دھڑکن کے بعد اگلی دھڑکن تک کی سیدھی لائین بھی اُس لحظہ کی موت ہے؟ کیا ہر دھڑکن کے بعد انسان موت چکھ کر اگلی دھڑکن میں دوبارہ جی اُٹھتا ہے؟

دعاؤں، سسکیوں، تسلیوں، رسموں، دلاسوں اور مہیب سناٹے کے بعد آج میں تصور کرنا چاہوں تو وہی چلبلی، سیماب صفت تصویر ابھرتی ہے جو برزخ میں مجلس سجائے بہٹھی ہو گی اور منکر نکیر پوچھ رہے ہوں گے ”آپ کو پتہ بھی ہے آخر کار آپ مر چکی ہیں؟ “
ریسٹ اِن پیس بیوی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).