واقعہء کربلا کے نظرانداز شدہ عِلمی پہلو


واقعہء کربلا سے ہر ذی شعور مسلمان واقف ہے، واقعہء کربلا کو با لعموم مذ ہبی اور سیاسی پسِ منظر میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ سرکارِ عالمینﷺ کے ورثأ کی قربانی کو محض ان دو حوالوں سے جانا جائے اور دیگر پہلو نظر انداز کر دیے جائیں۔ سرکار عالمینﷺ نے اپنی ذاتِ اقد س کو علم کا شہر فرمایا اور اس شہرِ علم کے دروازے کا مرتبہ حضرت علیؑ کوعطا فرمایا۔ تو پھر کیا یہ سوال اٹھانا جا ئز نہیں کہ اس سلسلہء علم کے وارث کو اس علمی سرمایہ کی وراثت سے کیوں محروم رکھا جائے۔ کیا وارثان نبی ﷺ کا تاریخ میں بس اتنا کردار تھا کہ واقعہ کربلا ہو اور حسینؑ شہید ہوں اور بس۔ یقیناً جواب ’نہیں‘ میں ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ واقعہ کربلا کو محض سیاسی اور مذہبی حوالوں تک محدود کر دیا گیا۔

کیا وارثِ علم حضرت حسینؑ نے، اپنے نانا، نبی ﷺ جو شہر علم قرار پائے اور معلم مبعوث ہوئے، ان سے کچھ علم حاصل نہیں کیا ہو گا، جو کہ وہ اپنے نانا ﷺ کی امت کوآگے پہنچا کرخود کو قابل وارثِ علم ثابت کرتے؟ یقیناً حاصل کیا ہوگا، وہ وارث ہی کیا جو ورثہ کی ترسیل نہ کرے اور وہ علم ہی کیا جو ختم ہو جائے۔ لہٰذا، حسینؓ کو محض کربلا تک محدود کر دینے کا مطلب عظیم ورثۂ علم سے محرومی نیز حسین ؓ کی شہادت کوایک مذہبی و سیاسی واقعہ تک محدود کرنا ہو گا نیزاس کا مطلب شہر علمﷺ اور دروازۂ شہر علمؑ کے سرمایہ سے محرومی۔ اس کا نتیجہ نہ مسلمان، نہ دین، نہ دنیا۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعہ کربلا کو محض سیاسی اور مذہبی پہلوؤں تک محدود کرنے کی بجائے، وسیع پس منظر میں اس کا علمی جائزہ لیا جائے اور اس کے نتائج کی روشنی میں امتِ مسلمہ کے مسائل سے آگاہی حاصل کر کے، ان کے حل کے لیے تدبؔر کیا جائے کہ اگر ہم حق پر ہیں تو کس حد تک حق پر ہیں اور حق کے حصول کے لیے، کیا کیا قربانی دے سکتے ہیں۔ ’معرکۂِ حق و باطل‘ آج کی بات نہیں بلکہ یہ باہمی آویزش، ازل سے ہے۔ واقعہ کربلا اصل میں وہ درس ہے کہ اگر آپ حق پر ہو تو آپ کی آخری حد کیا ہو گی، اس آخری حد کے لیے کیا کیا قربان کرنا ہو گا۔

حسین اور یزید، بنیادی طور پر دو نظریات کی جنگ کا نام ہے۔ ایک طرف تو شہر علم ﷺ، دروازہء شہر علمؑ کا وارث یعنی حسینؓ تو دُوسری طرف دنیا و مال کی طلب، جاہ اور اقتدار کی ہوس کا مجسمہ یعنی یزید۔ ’دو نظریات‘ ، ’دو طا قتیں‘ ، ’معرکۂ حق و باطل‘ ، مگر مقام کبھی کربلا، کبھی بیت المقد س، کبھی کشمیر۔

واقعہ کربلا کی علمی اہمیت سے آگاہی کے لیے اک با ر ذرا پیچھے چلتے ہیں۔ حسینؓ کے نانا حضرت محمد ﷺ سے متعلق ارشاد ہوا ”نبی، کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔“ کتاب کی تکمیل تو ہو چکی، مگرمعنی کی آگہی اور ان معنی کی حکمت اب کون سمجھائے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں نہج البلاغہ کا کام شروع ہوا۔

یہاں پر بات ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے۔ کتاب اپنے طالب علم کو واقفیت دیتی ہے۔ حکمت نہیں دیتی۔ واقفیت سے مراد کسی بھی امر کے متعلق جاننا ہے مثلاً یہ ’آگ‘ ہے۔ لیکن حکمت سے مراد صرف واقفیت نہیں بلکہ لفظ ’آگ‘ کے اسرار و رموز جانناہے۔ ’آگ‘ ، اس کے خواص، عناصر ترکیبی، اس کے استعمال کے طریقے، اس کی حدود، افعال، اس کے نقصانات و فوا ئد سے آگاہی ہونا۔ یہ ہے ’آگ‘ کی حکمت سے آگاہی۔

نبی ﷺ نے جاننے کی طلب والوں کو کتاب کی تعلیم دی، معرفت اور آگہی کے طالبوں کو حکمت کی خیرِ کثیر کی بشارت دی۔ کتاب والوں سے کہا دین مکمل ہو گیا، حکمت والوں کو ابدی حکم ہوا۔ کتاب کے حاکم پر، اسی کی تخلیقات پر غور و فکر کرتے رہو، خدا کی نشانیوں میں، تدبر کرتے رہو ورنہ چوپایوں سے بھی بد تر ہو گے۔ نہج البلاغہ اسی تدبر و تفکر کی کڑی ہے۔

اس پس منظر کے بعد پھراصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ سوچیے، کیا حسینؑ، جو وارثِ خاندانِ علم و حکمت ہے، کیا حسین کے ذمے بھی کو ئی علم و حکمت کا کام تھا یا کہ نہیں۔ دوہی صورتیں ہیں۔ اگر جواب ’نہیں‘ میں ملتا ہے تو دعوی وارثِ نہج البلاغہ پر حرف آتا ہے، اگر جواب ’ہاں‘ ہے تو وہ کیا حکمت ہے جس کے لیے،

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی

اگر جواب ’ہاں‘ ہے تو جان لیجیے، حسینؑ کے ذمہ جو علمی کام تھا وہ یہ تھا کہ لفظ ’حق‘ کی حکمت سمجھانا۔ لفظ ’حق‘ سے واقف سب ہی ہیں مگر لفظ ’حق‘ کی معرفت و حکمت سمجھانا، اہلِ راہِ حق کے لیے نمونہ پیش کرنا، قربانیاں دے کر اپنے ’حق‘ مؤقف پر ڈٹ جانے کا درس سِکھانا، یہ حسین کا عِلمی کام اور واقعہ کربلا کا عِلمی پہلو ہے۔ جسے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).