ہم جنگ کے لیے تیار ہیں


اب ہم کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کی مثال ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو بد قسمتی سے وہ ملک پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے۔ دشمن ملک ہونے کے باوجود جب ہم ان کی ترقی اور تعلیمی میدان میں کمندوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بظاہر تو ہم نے توپیں سیدھی کر رکھی ہیں لیکن تعلیمی میدان میں اس ملک سے بہت پیچھے ہیں۔

پاکستان کے ازلی دشمن ملک بھارت کی بات کی جائے تو اس نے صرف اور صرف تیس فیصد کامیابی کی ضمانت پر ”سپیس پروگرام“ شروع کیا اور چاند پر قدم رکھنے کے چند میل فاصلے پر ہے۔ 2030 تک اپنا سپیس اسٹیشن خلاء میں قائم کرنے کا ٹائم فریم سیٹ کیے بیٹھے ہیں لیکن یہاں جو بات قابل ذکر ہے کہ اس سارے پروگرام میں کوئی بھی سائنسدان باہر کے کسی ملک سے نہیں منگوایا گیا اور نہ ہی یہ پروجیکٹ کسی دوسرے ملک کے ساتھ مل کر شروع کیا گیا بلکہ دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ بھارت ٹیکنالوجی اور تعلیم میں کسی سے کم نہیں ہے۔ بھارت میں نئے الیکشن کے بعد پنجاب کے چیف منسٹر کیپٹن امریندر سنگھ نے پورے پنجاب میں پہلی سے لے کر پی ایچ ڈی تک تمام سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کے مفت تعلیم کا اعلان کرکے اس پر عملدرآمد شروع کروا دیا۔

پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے دشمن ملک اسرائیل کی بات جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اچھا ہی ہوا ہمارے پاسپورٹ پر یہ فقرہ ”یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کار آمد ہے“ لکھ دیا گیا، ورنہ ہمارے حکمران شاید آج یہ طعنہ سنتے سنتے بہرے ہوجاتے کہ اسرائیل نے اتنی ترقی کرلی ہے، تعلیمی میدان میں سب سے آگے، دنیا کا سب سے بڑا پانی صاف کرنے والا پلانٹ اسرائیل میں، دنیا کی بہترین اور نمبر ون ائیرفورس اسرائیل کی، الغرض تمام میدان میں اسرائیل سب سے آگے ہے۔

کسی بھی قوم کی ترقی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب وہ قوم اپنی قومی زبان میں تعلیم کو فروغ دیتے ہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ قومی زبان تو اردو ہے لیکن اردو کو رائج کرنے، نظام تعلیم کو اپنی قومی زبان میں رائج کرنے میں مکمل طور پر فیل ہوچکے ہیں۔ ہم اردو اور انگلش میڈیم کے بھنور میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ستر سال سے اوپر ہوگئے انگریزوں سے چھٹکارہ ملے ہوئے لیکن انگریزی آج بھی دل و دماغ پر سوار ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جسے انگریزی نہیں آتی وہ پڑھا لکھا نہیں ہے یا معاشرے میں اسے جینے کا حق نہیں ہے۔ جو کہ سراسر غلط اور بے بنیاد بات ہے۔ دنیا مقامی زبان میں چاند تک پہنچنے کی رسائی حاصل کرچکی ہے اور ہم تعلیم اور صحت کا معاملہ صرف الیکشن منشور کی حد تک رکھتے ہیں۔

سابقہ حکومتوں میں بھی بہت سے ایسے ادوار گزرے جب تعلیمی میدن میں ترقی کے لیے بہت سے پلان مرتب کیے گئے جن میں ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز، ایجوکیشن فار آل، نیشنل پلان فار ایکشن اور نیشنل ایجوکیشن پالیسی جیسے ادارے شامل ہیں۔ لیکن پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہ ادارے بھی اپنا کام مکمل نہ کرسکے اور پاکستان کے تعلیمی نظام کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔

آج پاکستان اور بھارت آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں اور جنگ کی تیاری کیے بیٹھے ہیں، حکومتی وزراء بولتے ہیں کہ ہم جنگ کے لیے تیار ہیں، ہماری فوج جنگ کے لیے تیار ہے لیکن یہ کوئی نہیں بولتا کہ ہم اکانومی کو بہتر کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم تعلیم کو بہتر کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم ملک میں یکساں تعلیمی نظام لانے کے لیے تیار ہیں، ہم صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے تیار ہیں، ہم ملک میں قومی زبان اردو کو رائج کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم مغرب جیسا تعلیمی نظام جس میں ریسرچ، ٹریننگ شامل ہیں اس کو رائج کرنے کے لیے تیار ہیں، یہ کوئی نہیں کہتا کہ جو لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ان کی بھوک مٹانے کے لیے تیار ہیں، ملک میں بدلتی ہوئی موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، جس ملک سے جنگ ہے اس ملک کی طرح ٹیکنالوجی میں بھی اپنا لوہا منوانے کے لیے تیار ہیں۔

یورپ کے نقشے پر نیا ابھرنے والا ملک ”لبرلینڈ“ پاکستان کو بلاک چین ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور انرجی سیکٹر میں انویسٹ کرنے کے لیے تیار ہے، بارہا بار فارن آفس میں بات کرنے کے باوجود ہم تیارنہیں کہ اس ملک کی مدد لی جائے اور پاکستان میں بھی ایسے ادارے قائم کیے جائیں کہ جہاں سے سائنسدان پیدا ہوں، ان کی بات تک سننے کو تیارنہیں ہم۔ جناب وزیراعظم عمران خان نے او آئی سی کے اجلاس میں کہا کہ ”دنیا ترقی کی رہی ہے، بلاک چین ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا زمانہ ہے ہمیں ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اب آگے آنا ہوگا“ لیکن شاید یہ صرف اور صرف ایک خطاب کی حد تک محدود تھا حقیقت کا اس سے دور دور تک کوئی سروکارنہیں کیونکہ ہم ”جنگ کے لیے تیار ہیں“۔

پاکستان کو تعلیمی میدان میں آگے آنا ہوگا، رٹہ سسٹم کو ختم کرنا ہوگا، تعلیمی نظام کو یکساں۔ کرنا ہوگا اورسب سے بڑھ کر اپنی قومی زبان اردو کو فروغ دینا ہوگا۔ ٹیچرز، سکول سسٹم کا نظام بہتر کرنا ہوگا۔ کالج اور یونیورسٹی لیول پر مارکس کی دوڑ سے نکل کر ٹیکنیکل چیزوں کی طرف آنا ہوگا۔ اساتذہ کے لیے بہترین ٹریننگ پروگرامز مرتب کرنا ہوں گے۔ ریسرچ سینٹرز قائم کرنا ہوں گے۔ پرائیویٹ سکول اور کالج مافیا جو کہ اچھے نمبروں کے لالچ میں بچوں کو کمپیوٹر اور جدید تعلیم سے دور رکھتے ہیں ان سے سختی سے نمٹنا ہوگا اور نمبروں کی دوڑ سے بہت آگے نکل کر جدت اختیار کرنا ہوگی اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت وقت اور عوامی رائے ایک پیج پر ہوں گے۔

نئی آنے والی حکومت نے جب سروے کروایا تو 89 فیصد عوام کی رائے تھی کہ پاکستان میں نظام تعلیم اردو زبان میں رائج ہونا چاہیے۔ لیکن ان 89 فیصد لوگوں کی رائے کا احترام آج بھی نہیں ہو پا رہا یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ہی ملک میں وسائل کے ہوتے ہوئے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، سوچنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ اچھے اور قابل لوگوں کو مغرب سکالرشپس اور بہت سے دوسرے لوازمات زندگی عطاکرکے اپنے ملک لے جاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ دشمن ممالک کے لوگ ناسا، گوگل، یوٹیوب اور دوسرے انٹرنیشنل آرگنائزیشنز میں بیٹھے ہیں جبکہ ہم ”جنگ کے لیے تیار ہیں“۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ٹیکنیکل سوچ اور ہمت کی ضرورت ہے نہ کے ”جنگ“ کی۔ جنگ لڑنی ہے تو غربت کے خاتمے کے لیے لڑیں، لڑکیوں اور لڑکوں کو یکساں تعلیم دینے کے لیے لڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).