عالمی طاقتیں اور مسئلہ کشمیر


شاید دنیا کا سب سے مشکل کام حقائق کا سامنا اور اس کو لبوں پر لاکر اس کا اظہار کرنا ہے۔ خواہ جو بھی ہو، حقائق کے بغیر کوئی بھی فیصلہ کرنا یا ان کا تجزیہ کرنا کافی کٹھن ہوسکتا ہے یا اگر مغالطے پر کوئی فیصلہ صادر بھی کیا جائے تو وہ زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا اگر وقتی طور پر ٹھیک بھی نکلے لیکن آخر میں اس کے اثرات کافی تباہ کن اور اور لرزہ خیز ہوسکتے ہیں جیسا کہ سویت یونین کے خلاف ہمارا حشر ہوا۔

کشمیر جو پچھلے ستر سالوں سے بھارت کے پنجہ جبر کے زیر سایہ ہے ابتدا سے لے کر اب تک ایسا کوئی حربہ نہیں رہا جو بھارت نے کشمیریوں کو دبانے اور کچلنے کے لئے ازمایا نہ ہو لاک ڈان، جلاو، گھیراو، کرفیو، گرفتاری، جبری گمشدگی، حریت پسند لوگوں کے گھروں کو بموں سے اڑانا، پولیٹ گن کا استعمال اور ان کی عورتوں کی عصمت دری اور عزت تک نہیں بحشا۔ لیکن ان سب چیزوں پر ساری دنیا اور خاص کر اسلامی دنیا خاموش تماشائی بن بیٹھی ہے اس خاموشی کی وجہ کشمیریوں کا مذہب ہے یاپھر بھارت کی وہ طاقت اور اثرورسوخ ہے جو بھارت کو ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی اور نئی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت نے بخشی ہے

پاکستان جو اس آزادی میں کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور ان کو سفارتی، اخلاقی اور قانونی مدد بہم پہنچا تا آرہا ہے تو وہ عالمی طاقتوں سے اس سلگتے مسئلے کو حل کرنے کے لئے بار بار ان کے در پہ دستک دیتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ مسئلہ (جو دو ایٹمی طاقتوں کے درمیا ہے ) دنیا کو اپنی لیپٹ میں لے لیں مگر عالمی طاقتوں کاتواس مسئلے کو حل کرنا دور کی بات ہے اس طرف توجہ دینا بھی گوارا نہیں کرتی۔ جہاں پر بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔

جس پر وہ خاموش ہیں۔ اگر اس بے رخی اور غیر توجہی کو اگر بغور دیکھا جائے تو ان کو کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے سے کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے کیونکہ اگر یہ مسئلہ حل ہوگیا تو ان کے اسلحے کے کارخانے ٹپ ہوجائیں گی جو ان عالمی طاقتوں کی برآمدات کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ہاتھوں سے جغرافیائی طور پر اہم حطے جو بحیرہ ہند، پاکستان اور بھارت کی شکل میں ہیں ان کے ہاتھوں سے چلے جائیں گے جس کے لئے عالمی طاقتیں کسی بھی قیمت پرتیار نہیں ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو ان کو سونے کے انڈے دینے والی مرغیاں خود بخود مر جائیں گی تو ایسی حالت میں اس آس پر بیٹھنا کہ عالمی طاقتیں یہ مسئلہ حل کریں گی تو یہ خام خیالی ہوگی۔

اس صورت حال میں پاکستان اور کشمیری اسلامی دنیا کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہوسکتا سرزمین اسلام سے جو کسی وقت میں معصیبت زدہ کی بیساکھی بن جاتی تھی کوئی محمد بن قاسم کا ظہور واقع ہوجائے جو کشمیری ماؤں، بہنوں کی چیخوں اور دہائیوں پر لبیک کہے لیکن ارے بھائی آج کل کی دنیا میں جو ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے صادر کرتے ہیں جو بیرونی حکمت وسائل کو سامنے رکھ بناتے ہیں تو اس میں کشمیر کہاں سے آگیا جو ہم اسلام کی ڈوری میں باندھنے کی ایک ناکام کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے ناتے اسلامی دنیا کو مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں ایک جارخانہ اور جاندار کردار اد اکرنے چاہیں لیکن ایسا نہیں ہورہا اور ہماری امیدوں پر پانی پھر جاتی ہے۔

آج کل کی جدید دنیا میں راویتی جنگیں نہیں ہوتیں۔ بلکہ اقتصادی میدان میں جنگیں لڑیں جاتی ہیں جو پاکستان کے بس میں نہیں ہیں کیونکہ جس بے دردی سے ہمارے ملک کو لوٹا گیا ہے، ٹیکسوں کا ایک ایسا غلط نظام رائج ہے جس نے صاحب ثروت کو تحفظ اور غریب کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہے تو ایسی حالت میں جہاں مذہب کو نہیں بلکے اقتصادیات کو تولا جاتا ہے تو عالمی طاقتیں یا اسلامی دنیا کیسی ہماری مدد کرسکتے ہیں اگر ہمیں دنیا میں اپنے آپ کو منوانا ہے کہ ہم بھی طاقت ہے ہمارے مسئلے کو بھی اتنی اہمیت دینا چاہیے جتنی باقی دنیا کو ملتی ہے تو اس کے لئے خودانحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا کچکول کو توڑنا ہوگا اپنے آپ کو کرایہ کا ٹٹو کے طور پر نہیں بلکہ ایک باوقار قوم کے طور پر پیش کرنا ہوگا جس کے لئے ایک مضبوط معیشت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سخت جستجو کرنی پڑے گی۔ تب جاکے عرب شیوخ، نریندر مودی کو میڈل دینے سے پہلے دس بار سوچے گا کہ کہیں پاکستان نارض نہ ہوجائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).