پشتون ترقی پسند اور جمہوری دانش کو درپیش فوری خطرات


تاریخ کے اوراق پلٹیں تو یہی نظر آتا ہے کہ ترقی پسند اور جمہوری آدرش کے قیام کے لیے پشتون معاشرے کی اکثریت نے مفاد پرست سیاستدانوں اور بیرونی قوتوں پر جب جب انحصار کیا تو ان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ ترقی اور جمہوریت پسند سوچ کے حامل پشتونوں نے، جو ہر دور میں اکثریتی طبقہ رہا ہے، ہر اس آواز پر لبیک کہا جس میں مکمل نہ سہی تھوڑی سی بھی انسان دوستی، جمہوریت پسندی اور معاشرتی ترقی کا پرتو نظر آیا۔

لوگوں نے ایسی تحریکوں کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں، تشدد برداشت کیا اور قدامت ورجعت کے پیروکاروں کی بربریت اور اذیت پرستی کا سامنا کرتے ہوئے ترقی پسند دانش اور جمہوری اصولوں کو پروان چڑھانے کی جدوجہد جاری رکھی لیکن فیصلہ کن مرحلہ جب بھی آیا تو اکثر سیاستدانوں اور معاشرے کے دیگر سرکردہ لوگوں نے ان کی جدوجہد کی مالا بنا کر گلے میں ڈالی اور ان کو عالمی قوتوں کی مدد سے اپنی محدود اور خودغرض خواہشات کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر ان کی پیشانی پر نام نہاد پشتون روایات اور تنگ نظر توجیہِ مذہب کی مخالفت کی تختی لگاکر دھتکار دیا اور معاشرے کو پھر سے روایاتِ محض اور نام نہاد قومی مفاد کی ظلمتوں میں دھکیل دیا۔

ماضی میں بایزید انصاری اور شاہ امان اللہ خان کی تحریکیں، ان کی ترقی پسندی، معاشرتی برابری اور انسان دوستی کی جدوجہد اور ان کے مقابلے میں ملاؤں، پیروں، نام نہاد اور خود ساختہ قومی مشران اور زمانہ ساز سیاستدانوں کی غیر ملکی طاقتوں کی مدد سے ان آدرشوں کے خلاف کامیاب شرانگیزیوں کے داستان پشتون تاریخ کی ہر کتاب کے بڑے اور اصل باب ہیں۔

ماضی قریب میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب ترقی پسند، انسانی برابری پر یقین رکھنے واوں اور وطن پرست لوگوں کے ہاتھ میں افغانستان کی زمامِ اقتدار آئی تو باقی دنیا تو چھوڑ، ان کی حمایت کرنے والے کمیونسٹوں نے بھی ان کو برداشت نہیں کیا۔ ان کی اپنی نادانیاں بھی بہت تھیں لیکن جس پیمانے پر دینِ مقدس کے نام سے ملفوف، بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا گیا اس کی نظیر مشکل سے ملتی ہے۔ نتیجے کے طور پر ترقی پسند اور انسان دوست نظریات سے سرشار اکثریت پشتون افغان لوگوں کے سامنے ان کو ایسے ملیا میٹ کردیا گیا کہ آئندہ کے لیے ان آدرشوں کو بزعم خود کفر شدید ٹھہرایا گیا۔ اس سلسلے کا اخری منظر ڈاکٹر نجیب اللہ اور ان کے بھائی کی لٹکتی ہوئی لاشوں کی دین اسلام کے نام لیوا کہلانے والوں کے ہاتوں بے حرمتی اور ان پر جشن آرائی ٹھہرا۔

بعد کے واقعات کے ہم سب شاہد ہیں کہ ملاؤں کو اقتدار دیا گیا۔ دنیا نے دیکھا کہ عرب ممالک اور ایران کے ملاؤں کی حکومت کے بعد جمہوریت اور برداشت سے عاری امارات اسلامی کے نام سے کٹر مذہبی حکومت نے دنیا فتح کرنے کی ٹھانی لیکن پہلے اپنے ہی لوگوں کو اپنی تنگ نظر مذہبی سوچ کی بھینٹ چڑھایا۔ ترقی و جمہوریت پسند یا تو فرار ہوگئے یا پھر نام نہاد اسلامی حکومت کے زیرِ عتاب رہے۔ پشتون افغان عوام، دانشور، مخالف سیاستدان اورسماجی کارکنان چیختے چلاتے رہے کہ یہ آگ دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی لیکن دنیا کویقین بعد از خرابیِ بسیار ہوا۔ 2001 سے لے کر اب تک جمہوریت اور ترقی پسند دانش کے حامل لوگوں نے کوشش کی کہ کسی حد تک اپنی طاقت بڑھائیں اور اپنی بقا کے لئے پشتون معاشرے میں مستقل جگہ بنائیں لیکن لگتا یوں ہے کہ ایک بار پھر ان کی پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچی جارہی ہے۔

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ بیرونی قوتوں یا دیگر قوموں کی سازشیں اور مداخلتیں اپنی جگہ لیکن ایسے حالات کے سب سے بڑے ذمہ دار افغان پشتون خود ہی ہیں خصوصاً جو خود کو سیاستدان، قبائلی مشران یا معاشرے کے رہبر سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی پشتونوں کی اکثریت نے ہمیشہ ترقی پسند دانش اور جمہوریت کی حمایت کی ہے۔ ایسی جدوجہد میں ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ترقی و جمہوریت پسندی کے آدرش پالنے والوں نے ادا کیا ہے مگر ان کے ساتھ ہمیشہ ’ہاتھ‘ ہوا ہے یعنی جب جب فیصلے اور اقتدار کی گھڑی آن پہنچی تو روایتی خانوادوں کے سیاست دانوں نے، جو خود کو ترقی پسند اور قوم پرست کہلواتے ہیں، اپنے مطلب کے سرمایہ دار، قبائلی سردار یا پھر ان اشخاص کو ترجیح دی ہے جو ہمیشہ ان کی مُٹھی میں ہوتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ترقی پسند اور جمہوریت کے لیے قربانی دینے والوں کو ان کی ”اوقات“ دکھا دی جاتی ہے۔

آج کے دن پھر پشتون ترقی پسند، انسان دوست اور جمہوری دانش فوری خطرے سے دوچار ہے۔ ایک بار پھر عالمی طاقتیں پشتون معاشرے کے اس پلڑے میں اپنا وزن ڈالتی نظر آرہی ہیں جو جمہوریت اور ترقی کے مخالف اور کسی بھی طرح کی نظریاتی اختلاف کے روادار نہیں ہیں۔

ایک بار پھر خصوصاً پشتون ترقی خواہوں اور جمہوری روایات پر یقین رکھنے والے دانشوروں، کارکنوں اور عوام کو دیوار سے لگانے کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ اللہ کرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں لیکن بظاہر امن کے نام پر عام پشتون افغان عوام کے ساتھ اور وسیع تر معنوں میں خطے کے تمام جمہوری اور ترقی خواہ لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ افغانستان میں امریکہ بہادر کی راہ فرار نے ثابت کردیا ہے کہ جنگجو، دہشت گرد اور مذہب کی تنگ نظر ترین بیانیے کے حامل لوگ ہی برتر اور قابلِ تقلید ہیں۔ جمہوریت کی بجائے یہی قوتیں قومی ریاستوں کا دفاع کرسکتی ہیں۔ انہی لوگوں کا مشن ہماری منزل ہے۔

اگر ایسا سچ ثابت ہوتا ہے تو دراصل یہ اس بیانیے کا ایک عارضی ابھار ہی ہوگا مستقل حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں کیونکہ بے شک مفاد ہی دنیا کے قوموں کا اصل رشتہ ہے لیکن دنیا کے اکثر لوگ یہ حقیقت تسلیم کر چکے ہیں کہ قوموں کی بقا، ترقی، باہمی مفاد اورتحفظ جمہوریت اور انسان دوستی میں ہی مضمر ہے۔ ترقی پسند دانش ہی دنیا کو موجودہ مسائل خصوصاً انتہاپسندی، عدم برداشت اور دہشتگردی سے نجات دلا سکتی ہے۔ چالاکی، موقع پرستی اور مسائل سے آنکھیں چرانے سے خاص طور پر موجودہ حالت میں پشتون افغان قوم کو امن کی خواہش کی آڑ میں انتہا پسندی اور جہالت کے مزید ظلمتوں میں دھکیلنے سے یہ خطہ اور وسیع تر دنیا محفوظ نہیں رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).