نظریہ حسین


محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جس کی 10 تاریخ خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اگر گزشتہ زمانے سے یہ دن نکال دیا جائے تو تاریخ یتیم ہو جائے اور مؤرخین کی کتب کے کالے صفحے سفیدی کا لبادہ اوڑھ لیں۔ 10 محرم الحرام محض ایک دن نہیں، 24 گھنٹوں کا وہ دورانیہ ہے جس میں کرشمات نے جنم لیا مثلا آدم و حوا کی دعائے استغفار کو قبولیت کا درجہ عطا ہوا، حضرت ابراہیم کو آتش نمرود سے نجات ملی، فرعون پانی میں غرق ہوا، حضرت یوسف کو کنویں سے نکالا گیا۔ مگر اس دن کی عظمت کو ابدی دوام بخشا حضرت امام حسین (رض) کی شہادت نے۔

تاریخ اس مقام پر پہنچ کر اپنے بال کھول لیتی ہے اور اس کے منہ سے خود بخود بین کی آواز آنے لگتی ہے کہ جب کربلا کا صحرا اہل بیت کے خون سے سیراب ہونے کے باوجود برگ و بار پیدا نہ کر سکا، فرات پانی سے لبریز ہو کر بھی جگر گوشئہ بتول کی پیاس نہ بجھا سکا، صحرا کی وسعت ننھے اصغر کا جھولا نہ سنبھال سکی، العطش العطش کی صداؤں میں خیمہ زن قبیلہ صبر کی مجسم تصویر بن گیا، ساقئی کوثر کی آل دنیا ہی میں پانی سے محروم کر دی گئی اور ہوس میں بجھے تیر محبوب خدا کے نواسے کے لہو سے رنگین ہو گئے۔

واقعئہ کربلا نے فتح و شکست کے معنی بدل کے رکھ دیے۔ چشم فلک نے دیکھا کہ رفقاء سمیت زندگی کی بازی ہارنے والا فتح و کامرانی کا وہ نقارہ بجا گیا جس کی گونج تا قیامت رہے گی اور بظاہر جیتنے والا دنیا کے کارخانے میں نشان عبرت کے طور پر ثبت ہو گیا۔

افسوس کے ساتھ ہمیں امام حسین (رض) کی بھوک پیاس تو یاد رہی لیکن بھوک پیاس کی وجہ بننے والا نظریہ یاد نہ رہا۔ اگر ہم نے امام حسین (رض) کے نظریے کو اپنایا ہوتا کہ ظالم کو سر دے دیا جائے لیکن اس کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا جائے تو یقین کیجیے برما اور فلسطین کے مسلمان بربریت کی حدیں برداشت نہ کرتے، کشمیر کے چنار لہو نہ اگلتے، جواں قبروں سے شہر خموشاں آباد نہ ہوتے، امت مسلمہ پر دنیا کی نعمتیں تنگ نہ کی جاتیں، عافیہ صدیقی کی چیخیں غیروں کے زندانوں میں درگور نہ ہوتیں اور بنت حوا تار تار عصمت کا روگ لئے نہ بیٹھتی۔

آج کربلا بھی ہے، جنگ بھی ہے، یزید بھی ہے، بھوک پیاس بھی ہے، خون بھی ہے، آہ و پکار بھی ہے، کمی ہے تو امام حسین (رض) کے پیروکار کی۔

قدم قدم پر جنم لیتا دشت کربل ابن علی کو پکارتا ہے، لٹی ہوئی انسانیت کا قافلہ شام غریباں کی تاریکی میں سائبان مانگتا ہے مگر ڈھارس بندھاتی کوئی زینب (رض) نظر نہیں آتی۔ ظالم کے اشاروں پر مظلوم سے الجھنے والے کوفی قیامت تک اس خطا پر ماتم کرتے رہیں گے مگر بہت ممکن ہے کہ ہم شاید ظالم کے ظلم پر خاموشی کے باعث ہی کوفیوں کا درجہ پا جائیں۔

کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادیٔ حیات کا یہ سرمدی اصول

سر تیرا کٹ کے چڑھ جائے نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول

ریطہ زید
Latest posts by ریطہ زید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).