جنگ ستمبر کی یادیں


جیسے ماہ اگست کی چودہ، یوم آزادی ہے ایسے ہی ستمبر کی چھ یوم دفاع پاکستان ہے۔ یہ دن مملکت پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے۔ آج سے 54 سال قبل یعنی چھ ستمبر 1965 کو اپنے آپ کو پرامن ملک کہنے والے بھارت نے پاکستان پرجنگ مسلط کی تھی۔ 65 میں بھارت نے 500 ٹینکوں اور 50 ہزار فوج کے ساتھ سیالکوٹ پر حملہ کیا۔ پاکستان کی طرف سے صرف 125 ٹینکوں اور نو ہزار جوانوں نے ہمت و بہادری سے مقابلہ کیا اور بھارتی سورماؤں کا غرور خاک میں ملا دیا۔ سترہ دنوں پر مشتمل اس جنگ میں افواج پاکستان اور شہریوں نے مل کر دشمن کو دھول چٹائی۔ طاقت کے نشے سے چور بھارت پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لئے آیا تھا، مگر اللہ کے فضل و کرم سے خودساختہ سورما بھارت ہمیشہ کے لئے ناکامی کا داغ اپنے سینے پر سجا کر شکست خوردہ ہوا۔

چھ ستمبر 1965 نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والی قوتیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں، مہربانی حق تعالی سے پاکستانیوں میں جذبہ حب الوطنی کی کسی طور کمی نہیں ہے وہ اپنا اور اپنے وطن کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ رب حقیقی کی مدد سے ہم نے وسائل کی کمی کے باوجود دشمن کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 17 دن تک جاری رہنے والی اس جنگ میں بھارت کی ایک لاکھ فوج کا پاکستان کی 60 ہزار فوج سے مقابلہ تھا۔

بھارتی فوج کا منصوبہ تھا کہ 6 ستمبر کی صبح لاہور کی سڑک پر بھارتی فوج سے اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری اپنی کابینہ کے چند وزراء کے ہمراہ سلامی لیں گے اورشام کو لاہور جم خانہ میں کاک ٹیل پارٹی کے دوران بیرونی دنیا کو اپنے کارنامے کی خبردی جائے گی۔ لیکن اللہ نے پاکستان کی مدد کرتے ہوئے بھارت کے ارادے خاک کردیے۔ پروردگار کے کرم سے پاک مسلح افواج نے بھارتی فوج کی بھرپور تواضع کی۔ لاہوری ناشتے کی چاہ میں آنے والے بھارت کو بدترین شکست والا ناشتہ ہمیشہ یاد رہے گا جبکہ حال ہی میں ان کا فائٹر پائلٹ ابھی نندن بھی پاکستانی چائے کا گرویدہ ہوکر گیا ہے۔

1965 میں ایک یادگار ترین ناشتہ پاک بحریہ کی جانب سے بھی تھا جس کا ذائقہ آج بھی بھارت کو یاد ہوگا۔ چھ ستمبر 1965 کے معرکہ کے حوالے سے پاک بحریہ کے کارناموں کا ذکر کرنے سے پہلے بھارتی بحریہ اور پاک بحریہ کی ظاہری قوت کو سمجھنا ضروری ہے۔ بھارت کے پاس ایک طیارہ بردار جہاز ”وکرانت“ (جس پر اسی لڑاکا طیارے تھے ) جبکہ پاکستان اس تناظر میں بالکل خالی ہاتھ تھا۔ پاکستان کے پاس ایک آبدوز ”غازی“ تھی۔ بھارت کے پاس اکیس جبکہ پاکستان کے پاس صرف سات جہاز تھے۔

پاکستان کے پاس ایک کروزر جبکہ بھارت کے پاس دو تھے۔ تیل بردار جہاز دونوں کے پاس ایک ایک اور متفرق جہاز بھارت کے پاس سولہ تھے۔ یوں مجموعی طور پر پاکستان کے اٹھارہ کے مقابلے میں بھارتی بحری قوت اڑتالیس کی تھی۔ بھارتی حملے کی اطلاع ملتے ہی چھ ستمبر کو پاک بحریہ نے کھلے سمندروں میں نکل کر اپنے اسٹیشن سنبھال لیے۔

پہلے دو روز بھارتی بحریہ سمندر سے غائب رہی۔ سات اور آٹھ کی درمیانی شب پاک بحریہ کو ”دوارکا“ کے ساحلی قلعے کی تباہی کا حکم ملا۔ یہاں ایک طاقتور ریڈار نصب تھا جو کہ بھارتی فضائیہ کو کراچی پر حملوں میں معاونت جبکہ بیرونی ہوائی حملے سے جام نگر ہوائی اڈے کو خبر دار کرتا تھا۔ دوارکا بھارت کا ایک بڑا فوجی ٹھکانہ تھا۔ پاک بحریہ نے پہلے دوارکا کے ساحلی توپ خانے کو خاموش کیا اور پھر گولہ باری کر کے ٹارگٹ کو نیست و نابود کر دیا۔

توقع تھی کہ بھارتی بدلہ لینے کے لئے باہر آئیں گے مگر وہ پاک بحریہ کی پہلی ضرب سے دہشت زدہ ہو کر اپنی بندر گاہوں میں دبک کر رہ گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ دوارکا پر حملے کے وقت بھارت کے چار ”فری گیٹ“ جہازخلیج میں موجود تھے مگر حملے کا سن کر انہوں نے جان بچانا ضروری سمجھا۔ دن گزرتے رہے، بحری غازی بے قراری سے دشمن کی تلاش میں کھلے سمندروں میں پھرتے رہے۔ آبدوز ”غازی“ بھارت کی بڑی بندرگاہ کے سامنے کھڑی رہی۔ اسی بندرگاہ میں تینوں بڑے جہاز ”رانا“، ”رنجیت“ اور ”میسور“ بھی کھڑے تھے۔ مگر غازی کی دھاک ان کے دلوں پر ایسی بیٹھی ہوئی تھی کہ کوئی بھی باہر نہ آیا۔

پاک بحریہ نے دشمن کو اس کے اپنے ہی پانیوں میں شکست دے کرمقید کر دیا تھا۔ مشن مکمل ہو چکا تھا۔ دوارکا رڈاراسٹیشن کی اینٹ سے اینٹ بجا کر تمام جہاز منزلوں کی سمت لوٹے۔ بحر کے محاذ پر پاکستان کے ہاتھوں بھارتی بحریہ کی رسوائی کی تاریخ رقم کی جا چکی تھی جو رہتی دنیا تک پاکستان نیوی کا وقار بڑھاتی رہے گی۔ انشاءاللہ۔
پاکستان زندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).