6 ستمبر 1965 کی جنگ: آغازکس نے کیا؟ کون ہارا کون جیتا؟ اور معاہدۂ تا شقند


قدرت اللہ شہاب اپنیکتاب ”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں: ”صدر ایوب جنگ کا نام لیتے ہی کانوں کو ہاتھ لگایا کرتے تھے اور ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ تنازعہ کشمیر کا حل ہم نے پاکستان کے مفاد کی خاطر ڈھونڈنا ہے۔ اس حل کی تلاش میں پاکستان کو داؤ پر نہیں لگانا۔“ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے محرکات تھے جن کی بنا پر جنگ کا نام لیتے ہی کانوں کو ہاتھ لگانے والے ایوب خان کو بھی یہ جنگ لڑنا پڑی؟

جنوری 1965 میں پاکستان کا بھارت کے ساتھ ”رن آف کچھ“ کا تنازع شروع ہوا اور جنوری 1965 میں ہی صدر ایوب قائدِ اعظم کی ہمشیرہ فا طمہ جنا ح سے صدارتی انتخابات جیتے۔ ان صدارتی انتخابات میں صدر ایوب کو جتوانے کے لیے جو حرکات کی گئیں اُن کی وجہ سے صدر ایوب کا امیج کافی خراب ہو گیا، ”گڈ امیج“ بنانے کی خاطر کشمیر آزاد کرانے کا ”آپریشن جبرالٹر“ منصوبہ بنایا گیا۔

صدر ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے اپنی کتاب ”ایوان اقتدار کے مشاہدات“ میں لکھ رکھا ہے کہ آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ اس وقت کے وزیرِ خارجہ ذولفقار بھٹو کی رپورٹ پر بنایا گیا۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ بھٹو نے صدر ایوب کو یقین دلایا تھا کہ اگر پاکستان نے کشمیر میں فوجی کارروائی کی، تو بھارت بین الاقوامی سرحد پار نہیں کرے گا۔ معلوم نہیں ”حتمی فیصلے“ کا اختیار رکھنے والے ایوب خان نے اس بات پر اندھا یقین کیوں کیا؟

گوہر ایوب لکھتے ہیں: ”آپریشن جبرالٹر سرکاری طور پر 8 اگست 1965 کو شروع کیا جانا تھا۔ تاہم مجاہدین کو کشمیر کے اندر داخل کرنے کی کارروائی 5 اگست 1965 کو ہی شروع کر دی گئی۔ اگست کے اوائل میں تقریباً چار ہزار مجاہدین کو تربیت دے کر بھارتی مقبوضہ کشمیر بھیج دیا گیا۔ انہوں نے کشمیر میں بھارتی فوج کے مواصلاتی نظام کو درہم برہم کر دیا اور بعض فوجی پوسٹوں پر حملے کیے۔ مجاہدین کی کارروائیاں زور پکڑنے کے ساتھ بھارتی فوج نے مجا ہدین کے داخلی پوا ئنٹس کی طرف تیزی سے پیش قدمی شروع کر دی۔

”انہوں نے مجاہدین کے خلاف آپریشن شروع کر دیا جس میں کافی تعداد میں مجاہدین شہید ہو گئے اور بعض گرفتار بھی ہوئے۔ بھارتی فوج نے 26 اگست کو دفاعی لحاظ سے اہم علاقہ پیر صحابہ پاس پر قبضہ کر لیا۔ اگر بھارتی تھوڑی سی پیش رفت کرتے تو مظفر آباد پر قبضہ ہو سکتا تھا۔ دو دن بعد بھارتی فوج نے حاجی پیر پاس کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا۔ یوں آپریشن جبرالٹر سخت مشکلات کا شکار ہو گیا۔“

آپریشن جبرالٹر تقریباً ناکام ہوا، گوہر ایوب نے مخصوص حلقوں کی عزت داری کے لیے صرف مجا ہدین کا ذکر کیا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ جبرالٹر فورس کے کمانڈوز بھی گرفتار ہوئے۔ آپریشن جبرالٹر اتنا خفیہ رکھا گیا تھا کہ ایئر چیف مارشل نور خان کو بھی اس کی بھنک نہ پڑنے دی گئی۔ بھارت کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر آپریشن جبرالٹر کے بعد آپریشن گرینڈ سلیم 31 اگست 1965 کو شروع کیا گیا، جس کا مقصد لائن آف کنٹرول پر دباؤ میں کمی لانا، جھمب چوڑیاں پر قبضہ اور اکھنور میں کشیدگی پیدا کر کے مظفر آباد کی طرف بھارتی پیش قدمی کو روکنا تھا۔

اس واسطے پیش قدمی جاری تھی اور عین ممکن تھا کہ یہ آپریشن کامیاب ٹھہرتا مگر پاکستان کے سپہ سالار جنرل موسٰی خان نے گھوڑا بدلنے کا فیصلہ کیا اور جنرل اختر حسین ملک کی جگہ جنرل یحیٰی خان کو ڈویژن کمانڈر تعینات کر دیا گیا۔ کمانڈر کی اس تبدیلی سے جو وقفہ ملا وہ بھارت کے لیے غیبی امداد ثابت ہوا، یوں ”آپریشن گرینڈ سلیم“ بھی ناکام ہو گیا۔

اس کمانڈر کی اچانک تبدیلی کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ”جنرل اختر ملک نے اپنے پلان کے مطابق کارروائی شروع کی اور اکھنور کو فتح کرنے کے قریب ہی تھے کہ فوج میں جنرل موسیٰ سمیت کئی اور جرنیل بھی تشویش میں پڑ گئے کہ اگر اختر ملک کی مہم کامیاب ہوئی تو وہ ایک فوجی ہیرو کی حیثیت سے ابھریں گے۔ صدر ایوب سمیت غالباً باقی بہت سے فوجی اور غیر فوجی صاحبان یہ نہیں چاہتے تھے کہ جنرل اختر ملک اس جنگ کے ہیرو بن کر ابھریں اور فوج کے اگلے کمانڈر انچیف کے عہدے کے حق دار بن سکیں کیوں کہ یہ عہدہ صدر ایوب نے ذہنی طور پر پہلے ہی جنرل یحیٰی خان کے لیے محفوظ کر رکھا تھا۔

”چنانچہ عین اس وقت جب میجر جنرل اختر ملک انتہائی کامیابی سے جھمب اکھنور سیکٹر پر تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے، انہیں معاً اُن کی کمانڈ سے ہٹا کر ان کی جگہ جنرل یحیٰی خان کو یہ کمانڈ سو نپ دی گئی۔ غالباً اسی لیے کہ وہ پاکستان کو اکھنور فتح کرنے کی کوشش سے باز رکھ سکیں۔ یہ فریضہ انہوں نے نہایت کامیابی سے سرانجام دیا۔“ (حوالہ: شہاب نامہ ص، 635 )

اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ یہ جنگ کس نے شروع کی تھی؟ ہمیں نصابی کتابوں میں ”پختہ ایمان“ کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے کہ 6 ستمبر 1965 کو رات کی تاریکی میں بز دل دشمن نے اچانک حملہ کر دیا۔ مگر یہ بات حقیقت سے کوسوں دور محسوس ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ جنگ 6 ستمبر کو شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ 6 اگست کو ہی شروع ہو چکی تھی۔ دوسرا اگر 6 ستمبر کا دعو یٰ مان بھی لیا جائے تو الطاف گوہر اپنی کتاب ”ایوب خان۔ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران“ کے صفحہ نمبر 336 پر لکھتے ہیں کہ ”نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے ترک وزیر کی وساطت سے ایک پیغام بھجوایا تھا کہ بھارت 6 ستمبر کو پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ دفترِ خارجہ کو یہ پیغام 4 ستمبر 1965 کو مل چکا تھا۔“ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بز دل دشمن نے یہ حملہ اچانک نہیں کیا تھا۔

اس وقت کے پاک فضائیہ کے دو سابق سر براہان، ایئر چیف مارشل (ر) اصغر خان اور ایئر چیف مارشل (ر) نور خان نے بالترتیب 4 مئی 2001 اور 2 اگست 2004 کو دعویٰ کیا کہ 6 اگست 1965 کو کشمیر میں مداخلت کار بھیج کر پاکستان نے جنگ کا آغاز کیا۔ ایئر مارشل نور خان نے 6 ستمبر 2005 کو ”ڈان“ کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا: ”بری فوج نے ایک بڑا جھوٹ بول کر قوم کو گمراہ کیا کہ یہ جنگ بھارت نے چھیڑی تھی۔“

6ستمبر کو شروع ہونے والی جنگ کے 17 روز بعد 23 ستمبر کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ یہ رائے بھی موجود ہے کہ اگر یہ جنگ چند روز اور جاری رہتی تو پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا۔ جنگ بندی کے بعد یہ سوال اٹھا کہ یہ جنگ کون جیتا؟ پاکستانی عوام نے اس بات پر جشن منایا کہ ہم نے بھارتیوں کو لاہور میں ناشتہ کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہونے دی جبکہ بھارتی عوام نے اس بات پہ جشن منایا کہ پاکستان نے یہ جنگ کشمیر آزاد کروانے کے لیے لڑی تھی اور وہ اس کوشش میں ناکام رہے۔

اس حوالے سے ایئر چیف مارشل نور خان نے 6 ستمبر 2005 کو ڈان کو انٹر ویو میں پاکستان کی فتح کو جھوٹ قرار دیا اور کہا ”چونکہ اس جھوٹ کی تصیح نہیں کی گئی اس لئے فوج اپنے ہی گھڑے افسانے پر یقین کرنے لگی ہے۔“ 4 ستمبر 2015 کو جامعہ کراچی میں ممتاز دانش ور ڈاکٹرسید اکبر زیدی نے اپنے خطاب کے دوران کہا ”1965 کی جنگ کا جشن جب کونے تک آ گیا ہے، تو اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں ہو سکتا کہ پاکستان نے 1965 کی جنگ جیتی تھی۔ دراصل ہم 1965 میں بُری طرح ہارے تھے۔“ (بحوالہ: ڈان، 5 ستمبر 2015 )۔ یہ جنگ کو ن جیتا؟ یہ جا نچنے کا ایک پیمانہ ”معاہدہ تاشقند“ بھی ہے، جس کے مطابق بھارت نے 710 مربع میل کا علاقہ پاکستان کو لو ٹایا جبکہ پاکستان نے 210 مربع میل کا علاقہ واپس کیا۔

اکتوبر 1964 کے بعد صدر ایوب اکثر اوقات بھارتی وزیرِ اعظم لال بہادر شاستری کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ”اس بالشت ڈیڑھ بالشت کے آدمی کے ساتھ کوئی سنجیدہ گفتگو کرنا بیکار وقت ضائع کرنا ہے۔“ روس کے وزیرِ اعظم کے سامنے ایوب خان نے لال بہادر شاستری کے لیے یہی الفاظ استعمال کیے تو سامنے سے کافی ”عزت افزائی“ ہوئی۔ 10 جنوری 1966 کو ایوب خان نے اسی بالشت ڈیڑھ بالشت کے آدمی کے ساتھ ”معاہدہ تاشقند“ پر دستخط کیے۔ اس معا ہدے کے فوراً بعد بہادر شاستری کی موت کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں :

”دو تین دن بعد میں نے ہالینڈ کے ایک اخبار میں“ معا ہدہ تاشقند ”کی تفصیلات پڑھیں۔ ساتھ ہی ایک فوٹو دیکھی جس میں صدر ایوب روسی وزیرِ اعظم کے ہمراہ بہادر شاستری کے تابوت کو کندھا دے کر دہلی جانے والے ایک جہاز کے طرف جا رہے تھے۔ اس تابوت میں صرف شاستری جی کا جسد خاکی ہی نہ تھا بلکہ اس میں مسئلہ کشمیر پر یو این او میں ہماری تمام پیش رفت بھی لپیٹ کر مقفل کر دی گئی تھی کیونکہ 10 جنوری 1966 کے بعد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سیکیورٹی کونسل کی قرار دادیں نہ رہی تھیں بلکہ معاہدہ تاشقند کی وہ شق تھی جس میں ریا ستِ جموں وکشمیر کا ذکر محض ضمنی طور پر آیا تھا“۔ باقی، ”زندہ دل“ قوم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ”ایمان“ برقرار رکھے کہ یہ جنگ ہم نے کشمیر کے لیے لڑی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).