اُستا دِ محترم سے اوئے ماسٹر تک


معاشرے میں استاد کی قدر و منزلت ہمیشہ ہی قابلِ فخر عمل رہا ہے۔ رسالت مآب کو بھی انسانیت کے لئے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ حضرت علی نے اپنے استاد کو آقا قرار دیا۔ چشمِ فلک نے شہزادوں کو استاد کی جوتیاں اٹھانے پہ جھگڑتے دیکھا۔ استاد جس راستے سے گزرتا لوگ آنکھیں بچھاتے۔ ہر جگہ معلم احترام، علم او ر شفقت کی علامت سمجھا جاتا۔ پورا خاندان اور معاشرہ کچھ بھی کہہ لے، استاد کی رائے ہی مقدم ہوتی۔ مغرب میں آج بھی استاد عدالت جائے تو جج احتراماً کھڑا ہو جائے۔

استاد کے اخلاص، محنت، اور احساس ذمہ داری کے باعث استاد کی تکریم سب پہ واجب تھی۔ پھر وقت نے اک حادثے کی پرورش شروع کی جس میں استاد اپنے مقام کو خود بھی کھونے لگا اور سماج بھی اس کی حیثیت کے درپے ہوا۔ اور آج وہ ”استاد محترم سے اوئے ماسٹر تک“ کا نا خوشگوار سفر طے کر رہا ہے۔ یہ سفر اس نے اکیلے نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ بچوں کے والدین، خاندان، سماج، مسجد کا مولوی، پیرانِ عِظام اور میڈیا بھی شامل ہیں۔

ان سب سے کہیں نہ کہیں ناقابلِ تلافی بھول ہورہی ہے۔ اس قدر مادی ترقی کے باوجود یہی غیر مؤثر تعلیم و تربیت کا نظام ہی معاشرتی انحطاط کا موجب ہے۔ اداس نسلیں بگاڑ کا شکار ہیں۔ ذہنی آسودگی نا پید ہے۔ جہاں تک استاد کا تعلق ہے تو وہ خود مقام بیچ کے مکان پیدا کرنے کے چکر میں پھنسا نظر آ تا ہے۔ وہ استاد کہ جس کے قدموں میں ہدیہ دل پیش کرنے کی روایت تھی اب ہدیہ بِل پہ منتج ہو چکی ہے۔ اب وہ تدریسی و تربیتی عمل کی بجائے مالی منفعت کی علامت بنتا جا رہا ہے۔

اساتذہ کی اکثریت اداروں میں تدریس کی بجائے ٹیوشن سنٹرز اور اکیڈمیوں میں جان مارتے دِکھتے ہیں۔ حصول روزگار اور سماجی وقار ہی مطمع نظر ہے اور پیشہ واریت ثانوی درجے پہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے شاہین خاک بازی میں الجھے ہیں اور کردار سازی کے عمل کا شدید فقدان ہے۔ جو معمار خشتِ اول کی تنصیب کا فن نہ سمجھے وہی دیوار کی کَجی کا بھی ذمہ دار ہے۔ پھر معمار کی جگہ مسمارِ قوم کے طعنوں پہ کڑھنے کی ضرورت نہیں۔

اب معماران قوم تدریسی جدوجہد کم اور سیاسی، مذہبی اور سماجی مناظروں کے اہتمام زیادہ کرتے ہیں۔ اوقات کار میں گھنٹوں تنخواہوں کے شیڈول پہ تکرار رہتی ہے۔ امتحانی اور ٹریننگ کی ڈیوٹیوں کو طلبا کی تدریس پہ ترجیح دیتے ہیں اور پریکٹیکل شوز میں تو ”استادیوں“ کی معراج دیکھنے کو ملتی ہے۔ تحریری امتحانات کے دوران نگران اساتذہ طلباء کے سر پہ سوار ہوکر با آوازِ بلند قصہ خوانی کے ایسے مظاہرے کرتے ہیں کہ طلباء کچھ لکھ پاتے ہیں اور نہ احتراماً کچھ کہہ پاتے ہیں۔ قہقہوں بھری رودادیں اور مسلسل چائے نوشی معمول کے کام ہیں۔

بر سبیل تذکرہ عرض کرتا چلوں کہ ایک بار صدر پرویز مشرف کو چین سے کوریا جانا تھا مگر ان کے جہاز کو دو گھنٹے رکنا پڑا کیونکہ جہاں صدر مشرف کے طیارے نے لینڈ ہونا تھا وہاں سکول لیول کے سالانہ امتحان جاری تھے اور طلبا ء کو شور کی اذیت اور امتحان میں مسائل کے پیشِ نظر ایسا کرنا پڑا۔ مگر اپنے ہاں تو سب کچھ نرالا ہے۔ رہی سہی کسر عملی امتحان کے ممتحن پوری کر دیتے ہیں۔ و ہ یوں کہ کچھ غیر سنجیدہ ممتحن تعلقات یا مالی فوائد کے پیش نظر بچوں سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔

بنا پرکھے کم یا زیاد ہ نمبر لگاتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ ممتحن ایمانداری کے زعم میں بچوں کو نفسیاتی و اخلاقی ہراساں کرتے ہیں مگر افسوس کہ ایک ہی ہال کے نیچے سفارشی طلبا ء کو سرِ عام کتابیں کھول کر لکھوایا اور غریب اور پہنچ نہ رکھنے والوں کی باقاعدہ تضحیک کی جاتی ہے۔ ایسے بد اخلاق ممتحن استاد کے نام کی توہین ہیں۔ بے شمار مقامات پہ دیکھا گیا ہے ایسے چڑچڑے ممتحن دوران امتحان طلباء طالبات کے اساتذہ، ادارے اور والدین کو مسلسل برا بھلا کہتے ہیں۔ انہیں باور کراتے ہیں کہ آپ کے ٹیچر بد دیانت ہیں اور والدین بے وقوف ہیں۔

اب بتائیں کہ ان حالات میں بچہ پریکٹیکل دینے اور لکھنے کے قابِل رہ سکتا ہے؟ ٹیچر اور والدین کی کوتاہیوں کی سزا بچے کو ہی کیوں؟ نفسیاتی طور پر طلباء پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے اور اپنے جذبات اور غصے کو کیسے قابو میں رکھتے ہیں؟ البتہ ہم ظاہری ترقی، اعلیٰ ڈگریوں، نمبرز کی دوڑ اور معیار زندگی کے فریب ہائے نظر پہ کاملاً مطمئن ہیں۔

استاد کے مقام کے زوال میں پورا معاشرہ، تعلیمی پالیسیاں اور میڈیا کا کردار بھی شامل ہے۔ جس قوم کی تعلیمی پالیسی ہی اپنی نہ ہو اور محض قرض کی مئے سے تعلیمی فاقہ مستی میں رنگ بھرنے کی ریا کاری کی جائے تو اس قوم کی تشکیل بطور قوم نہیں بلکہ اک منتشر ہجوم کے طو ر پہ ہی ہو سکتی ہے۔ لگتا ہے تبدیلی کا بنیادی محرک استاد بھی اسی ہجوم میں گم ہے۔ بدلتی پالیسیاں اور طرزِ نصاب بھی مسائل کا شکار ہیں۔ سرکاری اداروں میں کام کرنے اور کام لینے کے ڈھنگ ا نتہائی مضحکہ خیز ہوتے جارہے ہیں۔

پاس فیل پالیسی کا خاتمہ، مار نہیں پیار اور بے جا ڈاک و دفتری امور درس و تدریس پہ منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے خون آشام پہلو امتحانی سسٹم ہے جو مکمل مذاق بن چکا ہے۔ پنجم اور ہشتم کا امتحانی میلہ PEC کے تحت کھلے عام سجتا ہے اور اس کے عظیم الشان تنائج پہ بے ثمر مبارک باد اور تشہیر کے مصنوعی سلسلے بھی چلتے ہیں۔ میٹرک، انٹر میڈیٹ وغیرہ میں نقل کا رجحان اور پریکٹیکل شوز کا سراب اس نظام کو مزید تباہی کی جا نب دھکیل رہا ہے۔

طلباء اور والدین نمبر لگوانے کی مجبوریوں کو قبول کرتے ہوئے امتحانی مراکز کی خاک چھانتے ہیں۔ حتیٰ کہ سرکاری معلمین بھی اپنی نوکریوں کے تحفظ کی خاطر نمبر خریدنے کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔ گویا امتحان اب تجارت بن چکا ہے۔ آج امتحانی نمبرز کے پیٹرن کے مطابق حیرت انگیز طور پہ اٹھانوے فیصد تک نمبرز کا حصول ممکن ہے مگر قابلیت و اہلیت نا گفتہ بہ ہے۔ اب نمبرز اور گریڈز ڈالر کی مانند آسمان سے باتیں کر رہے ہیں جبکہ قابلیت روپے کی مثل زمیں بوس ہیں۔

بات یہاں تک پہنچ گئی کہ عمر رسیدہ لوگ اپنے بچوں کو اپنے دور کے حاصل کردہ گریڈ اور پوزیشنیں بتاتے ہوئے شرماتے ہیں کہ آج کی نسل انہیں نالائق نہ سمجھ بیٹھے۔ کھوکھلے نمبرز اور گریڈ کی ہوس نے نظام تعلیم کی مٹی خراب کر کے رکھ دی ہے۔ حساس طلباء و طالبات مطلوبہ میرٹ نہ بننے پہ مایوسی کا شکار ہیں۔ دوسری طرف استاد کو حالات، معمولات اور پالیسیوں نے اسے محض Formality machineبنا دیا ہے۔ طلباء کو اک شفیق اور محنتی استاد کی ضرورت ہے نہ کہ رسمی سر گرمیوں کی بھگدڑ سے حواس باختہ ہرجائی ٹیچر کی کہ جسے کوئی بھی، محکمہ جب اور جیسے چاہے کسی کام پہ لگا دے اور وہ اپنی اہم ترین ذمہ داری چھوڑ کر بلا چوں چراں قبول کر لے۔

تعلیمی لحاظ سے اہم ایام میں مردم شماری کی ٹریننگ ہوئی اور اب فیلڈ ورک ہوگا۔ کیا بہتر تھا کہ پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو تربیت دے کر یہ کام کروایا جاتا اور اک تیر سے دو شکار کیے جاتے مگر ہمارے ہاں تو اک شکار کے لئے کئی تیر آزمانے کا رواج ہے۔ انتخابات اور فلڈ ریلیف سر گرمیوں میں بھی استاد کام آتا ہے اور ڈینگی مچھر اور مکھیاں مارنے کے علاوہ پیک امتحان کی ڈیوٹی بھی استاد اپنی کلاس چھوڑ کر انجام دیتا ہے۔

کچھ اساتذ ہ کا بھی سکول میں جی نہیں لگتا اور ایسی ڈیو ٹیوں کے شوقین ہیں، رہی سہی کسر محکمہ پوری کرتا رہتا ہے۔ یو پی ای ایک اور خون آشام پالیسی ہے جس میں لڑکے لڑکیوں کو زبردستی یا منت سماجت سے سکول لا کر زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی ناکام سر توڑ کوشش کا حکم دیا جاتا ہے۔ اِن میں سے اکثر لڑکے ہزاروں روپے کما رہے ہوتے ہیں اور اکثر لڑکیاں ہاتھ پیلے کروا کے سسرال سدُھار چکی ہوتی ہیں اور کچھ کی تو گود بھی ہری ہو چکی ہوتی ہے لیکن پھر بھی اساتذہ کو ناممکنات کے اِن ہمالوں کو سر کرنے کا فرمان جاری کیا جاتا ہے۔

کسی بھی قسم کے بچے کو سکول سے خارج کرنا گنا ہِ کبیرہ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عمر بھر کی سنگ زنی کے باوجود بھی اعزاز سے دفنایا جانا قصۂ پارینہ بن جائے گا۔ حقیقی تعلیم و تربیت کا تصور غیر ضروری کارروائیوں اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھتا جارہا ہے۔ سکول اور اساتذہ سے مافوق الفطرت اور ماورائے طبیعات نتائج کی توقع کی جاتی ہے کیونکہ استاد کو بیک وقت بچوں کو تعلیم بھی دینا ہے، بچوں کو گھروں سے سکول لانا ہے، سکول سے بھاگے بچوں کو تلاش کر کے ڈراپ آؤٹ کا خاتمہ کرنا ہے اور اچھا رزلٹ بھی دینا ہے۔

پورا سال بچہ سکول آئے یا نہ آئے اِس کو اُف تک نہیں کہنا ہے۔ یونیفارم جوتے اور سٹیشنری والدین فراہم نہ کریں تو جواب طلبی محض استاد کی ہو گی۔ بچہ سکول نہیں آیا تو سزا استاد کو ہو گی۔ اب استاد یا سربراہِ ادارہ بچے کو کسی حال میں بھی سکول سے نکالنے کے مجاز نہ ہیں۔ بلکہ بچہ کسی استاد کو فارغ کروانے کا اختیار رکھتا ہے۔ ان حالات میں شرح تعلیم اور میعار تعلیم میں بہتری دیوانے کا خواب ہے۔ اب تو کہنا بجا ہوگا کہ تعلیمی اداروں میں سب کچھ ہوتا ہے سوائے درس و تدریس کے۔

آئے روز کی میٹنگز، غیر ضروری ڈاک کی ترسیل، اٹینڈینس گیپ، ڈراپ آؤٹ اور دیگر جواب طلبیوں کی اذیت سے اساتذہ جسمانی اور ذہنی مریض بن چکے ہیں اور اب تو ہمہ وقت پین کلر اور اینٹی بایؤٹکس ہمراہ رکھتے ہیں۔ بعید نہیں کہ ہیڈ ٹیچر وصیت کرنے لگیں کہ تدفین کے وقت ضروری ڈاک اور دستایزات ساتھ دفن کی جائیں تاکہ عالم ممات میں بر وقت پیش کی جا سکیں۔ محکمہ کی طرف سے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے پیڈا ایکٹ بھی منصۂ شہود پہ لا یا جا چکا ہے جس کی زد میں آ کر کئی اساتذہ لقمۂ کارروائی بن کر جام فراغت نوش کر سکتے ہیں۔

محکمہ کی پالیسیوں اور خبط الحواسیوں سے یہی نظر آتا ہے کہ ”خوئے بد را بہانہ بسیار است“ کے مصداق محض تا دیبی کارروائیوں کا شوق چرایا گیا ہے جو صرف اسی صورت پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے کہ اساتذہ کو تدریس کے واسطے سکول میں ٹکنے نہ دیا جائے اور غیر ضروری و غیر تدریسی فرائض میں الجھایا جائے۔ حال ہی میں متعارف ہونے والی آن لائن سر گرمیوں میں بھی تدریسی زیاں ہو رہا ہے۔ اگر ٹیچر کو سکول میں تدریسی عمل کے لئے وقت ملے تو ان کی کار کردگی اور رزلٹ میں بہتری کا اندیشہ ہے جو محکمہ اور بیوروکریسی کے دبدبہ میں کمی کا موجب بن سکتا ہے۔ پڑھانے کا موقع دیے بغیر سو فی صد نتائج کے احکام ایسے ہی ہیں جیسے کہ کسی شاعر نے سر پیٹا تھا!

زہر وہ دیتے ہیں کہتے ہیں کہ پینا ہو گا
زہر میں پیتا ہوں کہتے ہیں کہ جینا ہو گا

معلمین پہ اغیار کے طریقہ کار کا جبر، تدریسی و انتظامی امور میں غیر ضروری لوازمات، اساتذہ کی غیر تدریسی کاموں میں ڈیوٹیاں، تعلیمی عمل میں معاشرتی بے حسی، ذاتی رنجش پہ اساتذہ کے خلاف شکایات اور میڈیا کی شوخیاں بھی نظام تعلیم اور اساتذہ کی تذلیل کا سبب ہیں۔ بعض حالات میں تو استاد کو انسان ہونا بھی میسر نہیں ہوتا اور انہیں جان سے مار دینے کی روش بھی چل نکلی ہے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ ہے کہ مرقومہ بالا محرکات میں کس کا حصہ کتنا ہے۔ اور ”استاد محترم سے اوئے ماسٹر “کے سفر کا کون زیادہ ذمہ د ار ہے؟ استاد، معاشرہ یا پھر تعلیمی نظام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).