ظہیر کشمیری: عظمت انسان کا علمبردار


آج کا کالم پیرزادہ غلام دستگیر کے نام موسوم کرتا ہوں، جنہیں آپ ظہیر کاشمیری کے نام سے جانتے ہیں۔ مجھے نہ صرف ان کی ماتحتی میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا بلکہ وہ میرے ساتھ تحریک آزادی صحافت کے دوران سنٹرل جیل میں اسیر بھی رہے۔ کہتے ہیں کہ آدمی کی اصلیت کا پتہ یا تو جیل میں چلتا ہے یا ریل میں۔ جیل میں پتہ چلا کہ وہ واقعی عظمت انسان کی جدوجہد کے سچے داعی ہیں۔ ادب و فن۔ شاعری اور صحافت کے میدان میں انہیں ان کا جائز مقام محض اس لئے نہ مل سکا کہ ان کے نام کے ساتھ ’’ترقی پسندی‘‘ کا لاحقہ جڑا ہوا تھا اور انہیں خود بھی اس لاحقے سے اپنے فن سے زیادہ عقیدت تھی۔

بلاشبہ ظہیر کاشمیری پاکستان میں ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی تمام تحریکوں کے سرخیل رہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی ہر جدوجہد کو تاریخی تسلسل میں دیکھا۔ اور انسانی حقوق کی ہر تحریک کو اپنی فکر اور اپنے کلام کا موضوع بنایا۔ ظہیر کاشمیری کے چند اشعار۔۔

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

ہمارے عزم مسلسل کی تاب و تب دیکھو

یہ حکم ہے کہ محبت کی آرزو نہ کرو

موسم بدلا رت گدرائی، اہل جنوں بے باک ہوئے

فصل بہار کے آتے آتے، کتنے گریباں چاک ہوئے

امرتسر سے نقل مکانی کرکے لاہور بس جانے والے بابا جی (ظہیر کاشمیری) بیڈن روڈ کی ایک گلی میں اپنے خاندان سمیت رہا کرتے تھے۔ نیلی اور ڈھیلی پتلون۔ لال قمیض۔ خاکی سویٹر۔ کالی ٹائی۔ سبز رنگ کا کوٹ۔ عجیب و غریب کمبی نیشن ہوتا ان کے لباس کا۔ ستر اسی سال کی عمر تک تین یا چار بار جوتے خریدے ہوں گے وہ بھی لنڈے سے۔ پتلون میں اگر کبھی بیلٹ نہ ہوتی تو آپ ناڑا ضرور دیکھ سکتے تھے۔

رنگ برنگے بابا جی نے تین فلمیں بھی بنائی تھیں۔ ایک فلم تو سینما اسکرین کی زینت بھی بنی۔ نام تھا، ۔تین پھول۔۔ نئیر سلطانہ۔ اسلم پرویز اور علاؤالدین نے مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ اپنی فلم کے رائٹر۔ ڈائریکٹر اور شاعر وہ خود ہوتے تھے۔ لوگ ان کا بہت احترام اور لحاظ کرتے تھے۔ اس لئے فنانسر آسانی سے دستیاب ہوجاتا ہوگا۔ ایک فلم میں انہوں نے سنتوش کمار کو ہیرو لے لیا۔ فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ سنتوش نے اپنی ہیروئن کے سامنے یہ مکالمہ بولنا تھا۔۔۔۔ جان جاں! تم اتنی رقیق القلب کیوں ہوئی جاتی ہو۔۔۔۔۔

سنتوش صاحب سے یہ مکالمہ بولا نہیں جا رہا تھا۔ وہ بار بار رقیق القلب پر اٹک جاتے۔ بابا جی چاہتے تو رقیق القلب کو آسان لفظ میں بدل سکتے تھے۔ مگر کون تھا جو بابا جی سے یہ مشکل مکالمہ تبدیل کرا لیتا۔ ٹیک پہ ٹیک ہوتی رہی۔ بالآخر سنتوش کمار پھٹ پڑے۔

او بابا۔ (پنجابی میں گالی) توں مینوں لقوہ کرانا ایں۔

میں نے بابا ظہیر کاشمیری کو جب پہلی بار دیکھا اس وقت میری عمر آٹھ نو سال تھی۔ میں اپنے آفس کے ایک ملازم کے ساتھ بیڈن روڈ سے گزر رہاتھا۔ اچانک میری نظر ایک سرخ و سپید فرنچ کٹ داڑھی والے شخص پر پڑی۔ جو’’ فل انگریز‘‘ دکھائی دے رہا تھا۔ مگر اس کا لباس اور ٹوپ بہت بوسیدہ تھے۔نامور بد معاش یاسین بمبے والا بیڈن روڈ کے وسط میں رہتے تھے۔ منیر نیازی کا ٹھکانہ رضیہ بلڈنگ میں تھا۔ اسی عمارت میں سردار پروڈکشنز کے نام سے ہمارا آفس بھی تھا۔ پڑوسی ملک میں جا کر بہت شہرت پانے والے موسیقار خیام۔ گلوکار سلیم رضا۔ جی اے چشتی۔ ایم اے رشید۔ مشیر کاظمی۔ اور سیف الدین سیف بھی قریب قریب ہی رہائش پذیر تھے۔

سب اوٹ پٹانگ کے باوجود لوگ بابا ظہیر کاشمیری کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کا رعب دبدبہ بھی دیدنی تھا۔ اس وقت لاہور تانگوں کا شہر تھا۔ اور یہ تمام طبقوں کے شہریوں کی واحد باعزت سواری ہوا کرتی تھی۔ مگر کوئی تانگے والا بابا جی کو نہیں بٹھاتا تھا۔ بلکہ تانگے والے تو بابا جی کو دیکھ کر بھاگ جایا کرتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ باباجی صبح سویرے تانگہ لیتے سارا دن شہر کی سیر کرتے اور شام کو تانگہ بیڈن روڈ پر کھڑا کرکے اپنے گھر چلے جاتے۔ تانگے والا گھنٹوں انتظار کرتا رہتا اور پھر اسے پتہ چلتا کہ بابا جی تو گھر آتے ہی سو گئے تھے اور انہیں نیند سے بیدار کرنے کی کسی میں جسارت ہے نہ کسی کو اجازت۔۔۔۔۔

ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو بابا جی کو ان کے ذاتی اخبار میں ملازمت مل گئی۔ اور شعبہ صحافت میں یہ ملازمت جس طرح باباجی نے کی۔ کبھی کسی اور ادیب یا شاعر نے نہ کی ہوگی۔ انہیں ادارتی صفحے کا انچارج بنایا گیا تھا۔ وہ صبح آفس آنے والے سب سے پہلے آدمی ہوا کرتے تھے۔ اداریہ اور کالم لکھنا۔ قطعہ لکھنا اور پھر کاپی تیار کر کے پریس بھجوانا ان کی ذمے داری تھی۔ ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد شام کو وہ پریس کلب پہنچ جایا کرتے تھے۔ بابا جی نے اپنی بہت سی عادتوں پر قابو پالیا تھا۔ سوائے گالیاں دینے کے۔

ادارتی صفحے والوں کے پاس الگ کمرہ تھا۔ بابا جی کے ساتھ بہت سے لوگوں نے کام کیا۔ مجھے صرف احمد بشیر۔ ایم طفیل۔ چاچا رفیق اور عبدالقدیر رشک کے نام یاد ہیں۔ ایک بار تو باباجی کے ساتھ انہی کی عمر کے ایک دانشور کو بٹھا دیا گیا جو باباجی سے زیادہ وزنی گالیاں دیتے تھے۔ وہ آتے ہی آواز لگاتے۔

میں اسی اخبار کے نیوز روم میں صبح کی ڈیوٹی کیا کرتا تھا۔ بابا جی کو ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ ایک دن مجھے ان کی طرف سے ایک شوکاز ملا۔ جو آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ فیصل آباد کی ایک ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں کا احتجاج چل رہا تھا۔ وہ اپنی مانگیں منوانے کے لئے ہڑتال پر تھے۔ میں نے ان کے حق میں خبر چھاپ دی۔ میرے علم میں نہ تھا کہ اس ملز کی مالکہ پیپلز پارٹی کی کوئی ایم این اے ہیں۔ پارٹی یا اس ملز آنر کی جانب سے شکایت آئی تو باباجی نے اپنے دستخطوں سے مجھے نوٹس بھجوا دیا (بابا جی کے اعزازات میں ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ وہ ایک ترقی پسند مزدور لیڈر بھی رہ چکے تھے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کتنی شدت سے اپنی ادارتی ذمے داریاں نبھا رہے تھے۔)

ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو ایس جی ایم بدر الدین کے ساتھ بابا جی کو بھی گرفتار کرکے ملٹری کورٹ سے سزا سنائی گئی۔ جس رات مجھے کوڑے مارے گئے۔ وہ پوری رات بدر الدین صاحب اور باباجی نے میری بے ہوشی کے دوران میرے پاس جاگ کر گزاری تھی۔ اخبار کی حتمی بندش کے بعد میری بابا جی سے ملاقاتیں صرف پریس کلب میں ہی ہوتی رہیں۔ انہیں ان کے انتقال کے ایک سال بعد 1995ء میں صدارتی ایوارڈ ملا تھا۔ بابا جی نے ساری عمر فاقہ مستی میں گزاری۔ میں نے انہیں کبھی خوشحال نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ: روز نامہ 92 نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).