ستمبر 65 کا ایک دن جس نے ایک 6 سالہ بچے کی دنیا بدل دی


محفوظ کی گئی دستاویزات

فیملی البم کو دیکھنے کے دوران میری امی معلومات کا بہترین ذریعہ ہوا کرتی تھیں کیونکہ وہ لوگوں اور مقامات کے بارے میں مجھے سمجھایا کرتی تھیں۔ میں بچپن میں کہانی کی کتابیں، کیسٹ اور ویڈیوزجمع کرتا تھا لیکن میرا سب سے اچھا قیمتی اثاثہ میرے ابو کا ذاتی سامان تھاجو میرے لیے ایک خزانے کی طرح تھا جسے میں نے بریف کیسز اور الماریوں میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ ان سب چیزوں کی آج بھی میری زندگی میں بہت اہمیت ہے اور یہ میرے لیے متاع حیات ہیں۔

ابو کا بٹوہ

جب ابو کا جسد خاکی گھر پہنچا تو میرے بڑے ماموں نے ان کے یونیفارم میں پڑا بٹوہ نکال کر میرے حوالے کیا تھا جسے میں نے پورا دن پوری طاقت کے ساتھ اپنی مٹھی میں تھامے رکھا تھا۔ اس میں سو روپے کا ایک اور دس روپے کے دو نوٹ تھے۔ حکومت پاکستان نے بعد میں کرنسی تبدیل کر دی لیکن میں نے وہ نوٹ سنبھال کررکھے۔ شاید یہ وہی بٹوا اور اس میں موجود بقایا رقم تھی جوکہ ابو نے چھٹیوں میں ہمارے کھلونوں اور کپڑوں پر خرچ کی تھی۔

کوٹ برش اور میرے کھیلنے والاگھوڑا

مجھے وہ برش بھی یا د ہے جس سے والد صاحب اپنے سردیوں والے سوٹ صاف کرتے تھے۔ مجھے یہ اس لیے یاد ہے کیونکہ انہوں نے کئی دفعہ یہ کام میری موجودگی میں کیا تھا جب وہ چھٹی پر ہمارے پاس گھرآتے تھے۔ مجھے جب اپنا کھلونا نظر آتا ہے میرے ذہن میں اس دن کی یادیں دھندلا کر سامنے آجاتی ہیں جب میں نے یہ کھلونا اپنے والد صاحب کے ساتھ ان کی آخری چھٹی کے دوران خریدا تھا۔ وہ ہمیں شاپنگ کے لیے کچہری بازار لے گئے جہاں ہم نے کھلونے خریدے اور آئس کریم لی۔

ہل مین امپ کار

مجھے اب بھی ابو کی Hillman Imp کار بھی یاد ہے جس میں ہم ان کے ساتھ سیر کرتے تھے۔ وہ ہمیں اسی کار میں 1965 میں کھاریاں کینٹ سے ملنے آتے اور آخری دفعہ ہمیں چھوڑنے بھی اسی گاڑی میں آئے تھے۔

تین معصوم بچے

شہید میجر علی عابد کی فیملی نے زندگی کے نشیب وفراز کو اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور والدہ محترمہ کی انتھک محنت کی بدولت انتہائی کامیابی سے عبور کیا اور تینوں بچے فاطمہ عابد، خرم عابد اور بڑی بیٹی ثمینہ یاسمین سپیشلسٹ ڈاکٹر بنے۔ ڈاکٹر ثمینہ یاسمین نے امریکن میڈیکل بورڈ میں ٹاپ کر کے گولڈمیڈیل حاصل کیا اور ایک امریکی ہسپتال میں بطور ماہرنفسیات اور میڈیکل ڈائریکٹر تعنیات رہیں لیکن پھر 2010 میں کینسر کے خلاف زندگی کی جنگ ہار گئیں امی بھی اپریل 2019 میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ امی ایک ایسی بہادر بیوہ تھیں جنہوں نے نصف صدی تک اپنے تین معصوم بچوں کے ساتھ اپنے ابدی حیات پا جانے والے شوہر کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھا۔ ان الفاظ کی گہرائی اور درد کو صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے اپنے والد کو بہت کم عمر میں کھو دیا ہو۔

پاکستان آرمی

پاک فوج نے ہمیشہ میرے ابو کو یاد رکھا۔ ہر چیف آف آرمی سٹاف نے میری امی کو ہر اہم موقع پر میرے والد سے متعلق تعریفی خط لکھے اور 3 ایس پی میڈیم رجمنٹ آرٹلری نے بھی ہمیشہ میری فیملی کے ساتھ رابطہ رکھا اور ہمیں ہر اہم آرمی فنکشن پر مدعوکیا۔ پاک فوج نے ہمیشہ ہمارا خیال رکھا اور ہماری دلجوئی کی۔ کھاریاں کینٹ کی لائبریری، میس اور ملتان کینٹ کی ایک سڑک کو میرے ابو کے نام سے موسوم کیا گیا۔

3 (ایس پی) میڈیم رجمنٹ آرٹلری کی سینٹرل بلڈنگ میں پورا ایک کارنر اپنے شہید والد کی تصاویراور روداد شہادت کے لیے وقف پایا۔

جس کی وجہ سے مجھے اپنے والد پر بے انتہاء فخر محسوس ہوا۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ پچاس سال گزرنے کے بعد بھی لوگوں نے میرے والد کو یاد رکھا ہوا ہے۔ اگر وہ 1965 کی جنگ میں جان کی بازی دے کر امر نہ ہوئے ہوتے تو آج شاید ان کو کوئی جانتا بھی نہ ہوتا لیکن ابو کی شہادت نے ان کو پاکستان کا ہیرو بنا دیا مجھے اپنے والد صاحب پر ہمیشہ فخر رہے گا۔

ایمانداری اور ہمت کا ورثہ

میری بیٹی تاجور راجہ اپنے دادا پر فخر کرتی ہے اور میرا بیٹا دانیال راجہ جو انڈرگریجویٹ سول انجنئیر ہے اور اپنے دادا سے مشابہت بھی رکھتا ہے میں اسے ہمیشہ یہ احساس دلاتا ہوں کہ اس کے دادا پاکستان کے ہیروتھے اور رہیں گے۔ پاکستان کے لیے اُسے اس بہادری، حب الوطنی، ایمانداری اور ہمت کی میراث کو آگے لیے کرچلنا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو
پاکستان زندہ باد
ڈاکٹر خرم سہیل راجہ
2019 ستمبر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2