سچا میڈیا، دوٹوک نوجوان اور خاموشی کی سازش


جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، ہمارے میڈیا کے غالب حصے نے ہمیشہ سچ بولا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد برسر اقتدار قوتوں نے جمہوریت کے بھیڑئیے کو پاک سر زمین سے دور رکھنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں بنیادی ہدف یہ قرار دیا کہ آئین بننے نہ پائے۔ میڈیا نے اس نصب العین کو جی جان سے قبول کیا نیز ان تمام سیاسی رہنماؤ ¿ں اور کارکنوں کی دل کھول کر کردار کشی کی جو جمہوریت مانگتے تھے، زرعی اصلاحات کا مطالبہ کرتے تھے، صوبوں کے اختیارات کی آواز اٹھاتے تھے اور آئین سازی کی راہ میں کھڑی کی جانے والی مصنوعی سازشوں کا پردہ چاک کرتے تھے۔

میڈیا نے پاکستان کی بڑی خدمت کی۔ اکتوبر 1958 میں فلک سے نالوں کا جواب آیا، جنرل محمد ایوب خان سریر آرائے مملکت ہوئے۔ ملک میں یہ پہلا مارشل لا تھا جو مملکت خداداد کے چپے چپے پر نافذ ہوا۔ ان مشکل حالات میں میڈیا نے سچ کا پرچم اٹھائے رکھا۔ بغاوت کو انقلاب لکھا، نظریہ ضرورت کی آسان فہم تشریح کی، بنیادی جمہورت کا آسان فلسفہ دل نشیں الفاظ میں واضح کیا۔ بشیر شتربان کی مدح لکھی، شیخ مسعود صادق، صاحبزادہ فیض الحسن، منعم خان، ذوالفقارعلی بھٹو اوروزیر اطلاعات عبد الوحید خان کے افکار کو نمایاں جگہ دی۔

سردار عبد الرب نشتر بھی سرو قامت تھے۔ خوش لباس تھے، حسن کا ترشا ترشایا مجسمہ تھے مگر میڈیا نے امیر محمد خاں کالا باغ کے رعاب شعاب کو گلزار وطن کی زینت لکھا۔ کالا باغ کی جبروت کو سائنس قرار دیا۔ 1971 کا سال ہمارے میڈیا کی حق گوئی کا سنہری باب ہے۔ 25 مارچ سے پہلے بھی سازش تھی، 16 دسمبر کے بعد بھی سازش تھی اور بیچ کے مہینوں میں ہم سازش کے خلاف سر بکف تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سازش کے کردار سرکاری نوٹیفکیشن میں درج فہرست سے لئے جاتے تھے۔

ہمارے میڈیا نے بھٹو صاحب کو بجا طور پر تیسری دنیا کا رہنما اور فخر ایشیا قرار دیا۔ افغان مجاہدین کے قصیدے لکھے۔ بدعنوان سیاستدانوں کا پردہ چاک کیا۔ طالبان کی نصاف پروری کو کھل کر بیان کیا۔ امریکہ سے دوستی تھی تودوستی کا حق ادا کیا۔ دشمنی ہوئی تو عوام کو سچ بتانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ہمارا میڈیا حق گوئی کا نشان ہے۔ الطاف حسین کو بھائی، قائد، بانی اور صاحب کے درجے تو فاروق ستار نے تفویض کیے، ہم تو الطاف حسین کو پیر صاحب لکھتے تھے۔

ان کے پکائے حلیم کی حلاوت اور ان کے لہجے کی گھلاوٹ تک ہم نے بیان کی۔ ہم نے لکھا کہ معصوم چڑیاں الطاف حسین کے بستر سے اٹھنے کا نام نہیں لیتیں۔ 1985 میں الطاف حسین اور تھے، 1989 میں الطاف حسین کا کردار بدل گیا۔ 1992 میں آپریشن ہوا، چوہدری نثار کی رقت تاریخ کا حصہ ہے۔ 1995 میں نصیر اللہ بابر کی بے پناہ بہادری کی ہم نے گواہی دی۔ الطاف حسین اور پرویز مشرف گٹھ جوڑ کے مثبت نتائج ہم نے لکھے۔ دقیانوس جاگیر داروں کے خلاف متوسط طبقے سے آنے والے نوجوانوں کی سیاسی جدوجہد ہم نے رقم کی۔

ہم عدلیہ کی تحریک کا ہراول دستہ تھے۔ ہم نے نا معلوم افراد کو ہمیشہ نا معلوم افراد لکھا اور سمجھا۔ ہم یہ سب سچ لکھتے ہوئے فراموش کر دیتے ہیں کہ پڑھنے والا لکھنے والے سے زیادہ ذہین ہوتا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر سماعت اور بصارت کا امتحان دینے والے سامعین اور ناظرین ذوالفقار بخاری اور لیفٹننٹ جنرل مجیب الرحمٰن سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ یہ تو بہرحال طے ہے کہ ہمارا میڈیا سچ بولنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

1983 ءتک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبا یونین کے انتخابات ہوتے تھے۔ ایک غریب ملک میں جہاں خواندگی کی شرح ہمیشہ کم رہی، تعلیم یافتہ افراد کا اجتماعی زندگی کی حرکیات کے بارے میں عملی تربیت پانا بے حد اہمیت رکھتا تھا۔ ناموں کی ایک فہرست ہے، گنتے جائیے، ؛ جاوید ہاشمی، منور حسن، طارق علی، حسین نقی، معراج محمد خان، جہانگیر بدر، قمر الزمان کائرہ، لیاقت بلوچ، فرید پراچہ، سراج الحق، افراسیاب خٹک، حاصل بزنجو اور یادش بخیر۔ الطاف حسین۔

طلبہ یونین کی سیاست نے ہمارے نوجوانوں کو سیاسی موقف سمجھنے اور بیان کرنے کا شعور دیا۔ دلیل اور دھونس میں فرق کرنا سکھایا، مشتعل مجمع پر کیسے قابو پایا جاتا ہے؟ مخالفین میں گھر جائیں تو کیا رد عمل دیا جاتا ہے؟ حکومت کی مخالفت کرنا ہو تو اس کی حدود کیا ہیں؟ بدلے ہوئے حالت میں نیا موقف اختیار کرنا ہے تو اس کے ڈھنگ کیا ہوں گے؟ سیاست ملکی زندگی میں قابل احترام سرگرمی ہے تو طلبا سیاست کی نرسری پروان چڑھانے میں کیا برائی ہوسکتی ہے؟

ہم نے مگر کالج کے طالب علموں کی ہنگامہ آرائی کو موضوع سخن بنایا، تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیمیں بنائیں، انہیں ہتھیار دیے، اشتعال کو تصادم میں بدلنے کا ہنر سکھایا، علامہ علاؤ ¿ الدین صدیقی کی بے حرمتی ہماری طلبا سیاست کا بدنما واقعہ ہے۔ مصطفیٰ کھر کی سادیت پسندی کو طلبا پر پولیس تشدد کی تصاویر ملاحظہ کرنا مرغوب تھا۔ ہم نے طلبا کے والدین کو مسلسل بتایا کہ ان کے ہونہار بچوں کو ڈاکٹر، انجنیئر اور سول سرونٹ بن کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ غیرنصابی کتاب کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔ آج ان ہونہار بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد بیرون ملک مقیم ہے اور ملک و قوم کی دور فاصلاتی خدمت کر رہی ہے۔ ایک برس میں ترسیلات زر کا حجم پندرہ ارب ڈالر سے زائد ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ترسیلات زر کم ہوتے ہوتے ختم ہوجائیں گی۔ غیر سیاسی ذہن کے ساتھ پروان چڑھنے والے عبادت کی عمر میں داخل ہو جائیں گے۔ فانی بدایونی یاد آتے ہیں۔

حرم میں آ ہی نکلے ہیں تو فانی
یہ کیا کہئے کہ نیت تھی کہاں کی

گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان میں چودہ کروڑ افراد پیدا ہوئے۔ انہوں نے طلبا یونین کی شکل نہیں دیکھی۔ یہ ضیا الحق کو مجاہد، بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک، نواز شریف کو بزنس مین، خورشید شاہ کو میٹر ریڈر اور اچکزئی کو غدار سمجھتے ہیں۔ اس نسل کا المیہ یہ ہے کہ یہ اردو کے نصاب، تاریخ کی کتاب اور اسلامیات کے قاعدے میں فرق نہیں کر سکتی۔ جغرافیہ اس نسل نے نہیں پڑھا۔ یہ نسل دانشور کو گالی اور کتاب کو وقت کا زیاں سمجھتی ہے۔

گلی گلی میں خوش خوراکی کے انوکھے انوکھے ٹھکانے دریافت کرتی ہے۔ پورے سال میں چند ہفتوں کی جبری پابندی چھوڑ کر شادیوں کا سیزن مناتی ہے۔ جگاڑ میں اس نسل نے درک پایا ہے۔ یہ نسل تبدیلی چاہتی ہے۔ نیا پاکستان بنانا چاہتی ہے۔ چند سال پہلے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو پلکوں میں جگہ دیتی تھی۔ اب عمران خان کے جاں نثاروں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ دو ٹوک نسل ہے۔ سوشل میڈیا میں کوئی بات پسند نہ آئے تو بلا تامل مخاطب کو صیغہ واحد میں دشنام لکھتی ہے، کبھی کھلی گالی دیتی ہے اور کبھی گالی کی عام فہم تشریح۔

یہ ایسی دوٹوک نوجوان نسل ہے جس کی سوجھ بوجھ کے مختلف حصے دو لخت ہی نہیں، ہزار پارہ ہیں۔ یہ نسل ریاست اور حکومت کا فرق نہیں جانتی، آئین اور قانون میں امتیاز نہیں کر سکتی، نیکی اور اخلاق میں تمیز نہیں کر سکتی۔ جرم اور گناہ میں فرق کرنے سے قاصر ہے۔ انفرادی اور اجتماعی حقوق میں امتیاز روا نہیں رکھتی۔ لبرل اور سیکولر کا فرق نہیں جانتی۔ ہمہ وقت منہ پر ڈاٹھا بندھے، غیرت کی تلوار کھینچے، ایک پہیے پر موٹر سائیکل دوڑاتی ہے۔

میڈیا اگر ایسا ہی سچا اور بے باک ہو جیسا کہ ہمارا میڈیا مسلمہ طور پر ثابت ہوچکا ہے اور نوجوان نسل اگر ہر مسئلے کو سچائی کے نور اور باطل کی تاریکی میں بانٹ کر دیکھتی ہو تو معاشرے پر سازش کی دھند اتر آتی ہے۔ اس سے حد نظر مجروح ہوتی ہے۔ راستے اوجھل ہوتے ہیں۔ راستہ دکھانے والوں کی آواز بھرا جاتی ہے۔ نعرے لگانے والوں کا گلا نہیں بیٹھتا، خاموشی کی سازش ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ میرا تو خوں ہوگیا ہے پانی، ستم گروں کی پلک نہ بھیگی۔
30 اگست 2016 ء


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments