اسکول اور تھانے یا عقوبت خانے


ابھی صلاح الدین کی کٹی جلی، شکستہ ہڈیوں والی لاش پولیس نے واپس ہی کی تھی وہ بھی ایک جادوئی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ساتھ جس میں درج تھا کہ اس پے کوئی تشدد نہیں ہوا کہ ایک اسکول ٹیچر کے شاگرد پے وہ قہر ڈھانے کی خبر اگئی جس میں بچہ جانبر نہ ہو سکا۔

میں ایک کے بعد دوسرا پر تشدد واقعہ دیکھ کے وحشت زدہ ہوں۔ کبھی پولیس کبھی ٹیچر۔ اور نہ ٹیچرز کا رویہ نیا ہے نہ پولیس کا۔ بس سوشل میڈیا کی بدولت کئی سالوں سے ایسی خبریں باھر آجاتی ہیں۔

سنا کرتے تھے کہ گئے وقتوں میں استاد کے حوالے کرتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ کھال اپ کی ہڈیاں ہماری۔ بس انسان بنا دیں۔

اب اتنی بڑی ذمہ داری دیتے ہوئے کہ ”انسان بنا دیں“ یقیناً یہ بھی دیکھ لیا جاتا ہو گا کہ عالم خود کتنا انسان طبع ہے۔ علم حِلم اور ٹھہراؤ سکھاتا ہے۔ استاد تب بھی نرم نہیں تھے۔ ہمارے بزرگ اکثر اپنے اساتذہ کی پیار اور مار دونوں کے قصے سنایا کرتے تھے، یہ بھی سنا کہ چھڑی سے جان جاتی تھی، بید کی اس چھڑی نے اچھے اچھوں کو انسان بنا دیا۔ مگر مجھے کبھی ایسا کوئی نہیں ملا جس نے کہا ہو کہ میری ناک توڑ دی یا کسی اور کا سر پھاڑ دیا یا کوئی ہڈی توڑ دی ہو استاد نے۔

میں بات کر رہی ہوں، ان سینہ بہ سینہ قصوں کی جو اٹھارویں صدی کے آخری بیس سال سے میرے اسکول جانے سے پہلے کی نسل تک کا ہے۔ میرے نانا نے سن اٹھارہ سو چھیانوے میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کیا تھا۔ مجھ تک ایسا کوئی واقعہ ان کا یا ان کے تمام ہم عمروں کا نہ پہنچا کہ انہیں مدرسے میں بہت شقی القبی سے مارا گیا ہو۔ بہت سارے نانا اور رشتے کے داداؤں سے ہم نے ان کے اسکولز اور کالجز کے قصے سنے ہیں۔ مسکراتے ہوئے بتاتے تھے کہ شدید شریر بچوں کو مرغا بنا دیا جاتا تھا۔

اس کے بعد کی نسل بھی بنا سر پھٹوائے، ہڈیاں تڑوائے اسکول کالج یونیورسٹی سے پڑھ گئے۔ یعنی ہمارے والدین۔

میری اسکولنگ میں دو سال کنڈر گارٹن اور دس سال میٹرک۔ مجھے ان بارہ سالوں میں یاد نہیں کبھی میرے کسی استاد نے چہرے پے مارا ہو یا بالوں سے پکڑا ہو یا زبانی دل آزاری کی ہو۔

چار سزائیں یاد ہیں۔ پہلی ہیڈ ڈاؤن۔ دوسرے نیل ڈاؤن۔ تیسری کلاس سے باھر کھڑے ہو جائیں اور چوتھی ( اللہ کسی کو نہ دکھائے ) بڑے لکڑی کے اسکیل سے ہاتھ پے ضرب وہ بھی دو ایک ہاتھ پے دو دوسرے پے۔ اتنا ہی بہت تھا ورنہ والدین کو بلا کے بات کر لی جاتی تھی کہ یہ شکایت ہے۔

میں حیران ہوں کہ اساتذہ نے جلاد کا چرمی مکھوٹا کب چڑھایا؟ ایک معصوم بچے کو علم اور تہذیب سے آشنا کرنے والے حیوان کیسے بن گئے؟ اس بات کی اجازت والدین اور اسکول انتظامیہ نے کیسے دی؟ اگر اپ میں تحمل نہیں ہے تو اپ کسی دوسرے کی کیا تربیت کریں گے؟

تعلیمی نظام پچھلے تیس سالوں میں جس انحطاط کا شکار ہوا ہے، سرکاری اسکولز میں تو سیاسی بھرتیوں نے کام تمام کیا۔ سفارشی، نا اہل اور غیر تربیت یافتہ ٹیچرز کی بہتات ہے۔ حکومتیں الحمد اللہ جہاں دیگر اداروں کی بربادی کی ذمہ دار ہیں وہاں ابتدائی تعلیم کا بھی بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔ نیم جاھل ان استادوں سے کیا گلا۔ اصل تو وہ ہیں جنھوں نے ووٹ یا رشوت کو بھرتی کی وجہ بنایا۔ اب تک پرائیوٹ اسکولز پھر بہتر تھے کیونکہ جہاں پیسے دیے جاتے ہیں وہاں سوال کا بھی خطرہ ہوتا ہے لہذا تعلیم کا معیار بھی بہتر اور سزا کا طریقہ بھی انسانی تھا۔

لیکن برائی جب معاشرے کا مزاج بن جائے تو کہیں استثنا ممکن نہیں۔ کل جو اندوھناک سانحہ لاھور میں ہوا۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ اس بربریت کی جڑیں کتنی مضبوط ہو چکی ہیں۔ بچے کو مارا جا رہا تھا، تمام کلاس دیکھ کے رو رہی تھی۔ اس استاد کی اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ سرزنش ایذا دہی تک لے جائے؟ یقینا اس اسکول میں یہ عام وتیرہ ہو گا۔ صرف یہی نہیں دیگر پڑھانے والے بھی اپنی فرسٹریشن انہی بچوں پے نکالتے ہوں گے۔ معاملے کی مزید گہرائی میں تفتیش ہونی چاھیے۔ اسکول کی انتظامیہ بھی خاموش تماشائی کیونکر بنی رہی؟

یہ کیس ایک مثالی کیس کے طور پے لیا جانا چاھیے۔ لیکن تفتیش کرے گا کون؟ ایک پولیس افسر۔ ان کے لئے تو یہ ”ھوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے“ والی بات ہے۔

دوسرے اب تک، اسکول نے اپنے اثر و رسوخ، راہ و مراسم اور فیسوں سے کمائے لاکھوں روپے کو کام میں لاتے ہوئے، کیس کو اسکول کے بجائے ایک نفسیاتی مریض ٹیچر کا ذاتی فعل قرار دے دیا ہو گا۔ اللہ اللہ خیر صلّا!

اگر والدین نے کچھ زیادہ شور مچایا تو انہیں بھی کہا جائے گا کہ اسکول بہت نادم ہے اور حنین کا خوں بہاء بیس۔ تیس یا پچاس لاکھ دینے پر آمادہ ہے۔ اپ کیس بند کر دیں۔

یہی ہو گا۔ یہی ہوتا آیا ہے۔ بات یہ ہے کہ پولیس اور اسکولز پے کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ سچ یہ کہ کسی با اثر پے نہیں ہوتا۔

اس بار ہمیں ایک بہتر حکومت ملی ہے کم از کم اس کا اپنا اور فوج کا دعوی یہی ہے کہ یہ نہ کرپٹ ہیں نہ ہی نا اہل۔ تو ان سے درخواست ہے، قانون بنائیں کہ جس اسکول میں بچوں کو ذہنی یا جسمانی اذیت کی سزائیں دی جائیں گی یہ رپورٹ ہوتے ہی، اسے سیل کر دیا جائے گا۔ لائسنس کینسل ہو گا۔ پولیس میں بھی تشدد کرنے پے معطلی کوئی سزا نہیں۔ ہمیشہ کے لئے نوکری ختم کی جائے، پنشن اور دیگر سہولیات جو ریٹائر ہونے پے ملتی ہیں ان سے محروم کریں۔ جب فوج میں کورٹ مارشل ہوتا ہے تو یہاں بھی ہو۔

رہے ہم۔ تو صرف دعا کر سکتے ہیں کہ بچے زندہ رہ جائیں کیونکہ شہر میں باگھ کھلے پھر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).