صلاح الدین قتل: موت تو ہم  سب کے تعاقب میں ہے


ابھی چار، پانچ دن پہلے کی بات ہے کہ ٹی وی پر ایک خبر دیکھی اے ٹی ایم چور کے پکڑے جانے کی۔ ویڈیو دیکھ کر ہنسی بھی تھی۔ یہ بھی یاد ہے کیونکہ چور بڑے اعتماد سے کیمرہ کو دیکھ کے منہ چڑا رہا تھا۔ خبر گزر گئی، بات آئی گئی ہو گئی۔ آج کچھ دیر پہلے جسٹس فار صلاح الدین کا ٹرینڈ دیکھا تو تھوڑی حیرانی ہوئی کہ ایک چور کے لیے کیا جسٹس کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ لیکن خدا آباد رکھے میرے پیارے پاکستان کے جسٹس سسٹم کو، انصاف دے دیا گیا تھا ان تمام لوگوں کو جن کو نقصان اٹھانا پڑھا۔ دل کا اتنا شدید دورہ پڑا صلاح الدین کو کہ جسم کی ساری ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور جگہ جگہ نیل کے نشان پڑھ گئے۔

بس تب سے دماغ کہیں گم ہے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ اب قبر میں اپنے انجام سے زیادہ ڈر لگ رہا ہے یا پاکستان میں اپنے انجام سے زیادہ خوف آنا چاہیے۔ ہرگز ایسا نہیں کہ کہیں ڈاکہ ڈالنے کا پلان ہے لیکن مشعال خان نے بھی تو کوئی چوری نہیں کی تھی اور اس کا انجام بھلایا نہیں جاتا۔ ہم نے ہر گناہ کی سزا طے تو کر ہی لی ہے۔ اگر میرے اور آپ کے کافر بارے معیارات میں میل نہیں ہوتا تو سزا موت ہے۔ اگر محلے کے لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ دونوں بھائی چور ہیں تو سزا وہیں دونوں کا قتل ٹھہری، بس اتنا ہی نہیں لاشوں کو جلا کر عبرت کا نشان بھی تو بنانا ہے۔ کچھ بھی جو میرے اور آپ کے خیالات میں ایک جیسا نہیں ہے، اس کا حل بہرحال یہی ہے۔ یا آپ کے الفاظ مار دیے جایئں اور اگر اس سے گزارا نہ ہو تو تا ابد خاموشی عطا کر دی جائے آپ کو۔

ہم بحیثیت قوم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں جہاں آنر کلنگ سے ایمان کو ناپا جاتا ہے، گناہ کی سزا، کسی بچے یا قدرے کم حیثیت والے انسان کو موت دی جاتی ہے۔ وہیں اور اسی وقت۔ انصاف فراہم کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی پر غیرت کے نام پر قتل کرنے کا الزام ہے تو سالہا سال پیشی پہ پیشی ڈالی جائے گی۔

اس معاشرے اور نظام کی خوبصورتی کو دیکھتے ہوئے خواہش ہوتی ہے کہ اپنی سوچ کو خود ہی مفلوج کر دیا جائے۔ ورنہ تو گزارا مشکل ہے۔ با شعور ہیں آپ تو ہر وقت موت آپ کے تعاقب میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).