تیل سے آسودہ مقدس زمین پر ایک اور طرح کی بھوک


میں نے غصے سے کہا، ”شروع سے بتائیں، تفصیل سے بتائیں۔ ہندوستان میں کیا ہوا تھا، جدہ کیسے پہنچیں؟ وہاں پہنچ کر کیا ہوا؟ پہلی دفعہ کس نے آبروریزی کی تھی آپ کی؟ محل سے کس کے ساتھ بھاگی تھیں۔ اس فلپینی لڑکی کا کیا ہوا؟ کیا نام تھا اس کا، کس طرح سے مری تھی وہ؟ مطویٰ نے کیا کیا تھا؟ ریاض میں کس کس طرح سے تم دونوں کو پامال کیا گیا؟ صاف صاف لکھیں، ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ “

میں نے دیکھا اس کے بھاری بھاری پپوٹوں کے نیچے آنسو مچل رہے ہیں، مجھے رحم سا آگیا۔ میں نے پھر دل جوئی کے انداز میں آہستہ آہستہ سمجھانے کی کوشش کی۔

”اگر لندن میں سیاسی پناہ لینا ہے تو اپنے کیس کو مضبوط بنانے کے لیے آپ کو ہر بات تفصیل سے بتانی ہوگی۔ آپ کی بتائی ہوئی تفصیلات کے مطابق میں کیس بناؤں گا۔ وہی کیس ایمنسٹی انٹرنیشنل کے حوالے کروں گا۔ انسانی حقوق کی دوسری تنظیموں کو رپورٹ بنا کر دوں گا پھر برطانیہ کی حکومت سے آپ کی طرف سے اپیل کروں گا کہ آپ کو شہریت دی جائے۔ ایمنیسٹی والے کچھ ممبران پارلیمنٹ کی، کچھ اخبار والوں کی مدد ہوگی پھر شہریت کا کام مکمل ہوگا۔ “

”مگر مجھے شہریت نہیں چاہیے۔ میں آپ لوگوں پہ بوجھ نہیں بننا چاہتی ہوں۔ مجھے کسی بھی طریقے سے ہندوستان واپس بھجوا دیجیے، میں واپس حیدرآباد چلی جاؤں گی، وہیں رہ لوں گی۔ بس مجھے سعودی عرب نہیں جانا ہے۔ “ اس نے تقریباً روتے ہوئے کہا۔

”ہندوستان جانا توکوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بھارتی سفارت خانے میں جا کر بتانا ہوگا۔ پھر وہ لوگ آپ کی درخواست لیں گے، بھارت سے تصدیق کرائیں گے۔ پھر آپ کا پاسپورٹ بن جائے گا۔ لیکن واپسی کا ٹکٹ اور اس عرصے میں بغیر پاسپورٹ کے لندن میں رہنا شاید مناسب نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ پولیس میں رپورٹ لکھائی جائے۔ پولیس والے ان عربوں سے بات کریں اور ان سے آپ کا پاسپورٹ لے لیں اور اس پاسپورٹ کی بنیاد پہ آپ ہندوستان چلی جائیں مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ ذرا مشکل ہوگا کیوں کہ شاید ان عربوں کے پاس کوئی ایسا معاہدہ ہو جس پہ آپ نے دستخط کیے ہوں گے کہ یہ لوگ آپ کے ذمہ دار ہیں۔ “ میں نے تفصیل سے دوبارہ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

”ہاں ایسا تو ہے، بہت سارے کاغذات پہ دستخط کرائے تھے ان لوگوں نے۔ “ پھر رُک رُک کر بولی تھی۔ ”اچھا جو فیصلہ آپ لوگ کریں میں وہ کروں گی۔ “

پھر یہی طے ہوا تھا کہ تفصیل سے ہر بات بتانی مشکل ہے اور جتنی تفصیلات میں پوچھ رہا ہوں اسے بتانا بہت مشکل ہے لہٰذا جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا، وہ تفصیل سے لکھ دے گی پھر ایک ہفتے کے بعد میں آؤں گا اور اس کی تفصیلات کی بنیاد پہ درخواست بنا کر سیاسی پناہ کی درخواست داخل کریں گے اورامید یہی ہے کہ سیاسی پناہ مل جائے گی تو پھر ذکیہ جب چاہے بھارت چلی جائے گی۔

جاوید بھائی نے مجھے پچھلے ہفتے فون کرکے کہا کہ اس ویک اینڈ پہ ضرور ان کے گھر آؤں، بہت ضروری کام ہے۔ ان کو کوئی ضروری ہی کام ہوگا تو انہوں نے فون کیا ہوگا۔ عام طور پہ وہ ایسا کرتے نہیں تھے۔ میں نے فون پہ پوچھا بھی مگر انہوں نے کہا کہ آؤ گے تو بتاؤں گا۔

میں لندن میں بی بی سی میں کام کررہا تھا۔ میرا کام بنیادی طور پہ ریسرچ کا کام تھا۔ خبر دینے سے پہلے اس خبر کے بیک گراؤنڈ کے لیے جو معلومات جمع کرنی ہوتی تھی، وہ معلومات اکٹھا کرنا میری ذمہ داری تھی اور مجھے اس کام میں بہت مزہ آتا تھا۔ اکثر اوقات ان معلومات کے بعد خبر کی خبریت ہی ختم ہوجاتی تھی۔ لندن آکر مجھے کرنا تو کچھ اور تھا مگریکایک مجھے بی بی سی میں کام کرنے کا موقع مل گیا۔ پھر میں اس میں ہی اتنا منہمک ہوگیا کہ اپنا اصل کام بھول گیا۔

لندن جیسے شہروں میں یہی ہوتا ہے۔ خواب کچھ اور دیکھتے ہیں، تعبیر کچھ اور ہوتی ہے۔ ہر پردیسی جتنی شدت سے پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش واپس جانے کی بات کرتا ہے، اسی شدت سے کسی اور تانے بانے میں بھی الجھتا جاتا ہے کہ اس کے پیر بدیسی دلدل میں مزید دھنس جاتے ہیں۔ ایک دفعہ پردیسی ہونے کے بعد اس کا کوئی دیس نہیں ہوتا ہے۔ صرف خواب ہوتے ہیں، جھوٹے سچے خواب۔

شروع میں، میں جاوید بھائی کے پاس ہی آکر ٹھہرا تھا۔ ان کا چھوٹا سا ایک کاروبار تھا مگر وہ دل کے بڑے ولی تھے۔ پاکستانی لوگوں کے لیے تو جیسے رحمت۔ انہوں نے ہی مجھے لندن میں زندہ رہنا سکھایا۔ بسیں کیسے چلتی ہیں، انڈرگراؤنڈ ٹیوب میں آسانی اور سستا کیسے گھوما جاسکتا ہے، کہاں سستا کھانا ملتا ہے، کہاں سے کپڑے ملتے ہیں، کیا پینا چاہیے، کیا نہیں پینا چاہیے۔ پینے کے معاملے میں انہیں کچھ نہیں پتا تھا کیوں کہ شراب وہ پیتے نہیں تھے اور شروع میں انہوں نے میرے بارے میں بھی یہی سمجھا۔ پھر انہی کی مدد سے مجھے ایک جگہ کام مل گیا، اس عرصے میں میرا خیال تھا کہ کچھ پیسے جمع کرکے یونیورسٹی میں داخلہ لے کر اپنی انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرلوں گا۔ پھر واپس پاکستان چلا جاؤں گا، جہاں بہت اچھی نوکریاں مل سکتی تھیں مگر برا یا بھلا ہو بی بی سی کا کہ مجھے وہاں نوکری مل گئی۔ پھر بی بی سی میں ہی کام کرنے والی فوانا میں مجھے اپنی بیوی نظر آنے لگی۔ پاکستان مجھے اب دور بہت دور لگتا تھا، امریکا، جاپان، آسٹریلیا سے بھی آگے۔ بہت آگے جہاں جانے کی کوئی بھی تڑپ مجھ میں نہیں رہی تھی۔

اس دن دروازہ ذکیہ نے ہی کھولا۔ میں اسے دیکھ کر چونکا تھا کیوں کہ جاوید بھائی کے گھر میں بھابی اور بچے ہی ہوتے تھے۔ بچے تو خیر اب بڑے ہوگئے تھے مگر مجھے کسی نئے آنے والے کے بارے میں نہیں پتا تھا۔ اس نے بڑے دھیمے لہجے میں سلام کیا اور دروازہ کھول کر کھڑی ہوگئی۔ کوئی خاص بات تھی اس میں۔ ایک سادہ سی ساری میں لپٹی ہوئی تھی وہ۔ تیس بتیس سال سے زیادہ عمر نہیں ہوگی۔ ماتھے پہ، ہونٹوں پہ، آنکھوں میں کوئی میک اَپ بھی نہیں تھا۔ چہرے پہ ایک عجیب قسم کی اداسی جو کچھ سوچنے پہ مجبور کردیتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4