ستمبر آ گیا ہے


اروندھتی رائے نے یہ مضمون ستمبر 2002 میں نائن الیون کے حملوں کا ایک سال مکمل ہونے پر لکھا تھا۔ سترہ برس بعد بھی اس مضمون کے مندرجات ہمیں آج کی دنیا کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اروندھتی رائے کا کہنا یہ ہے کہ کسی بھی ریاست کے سرکاری موقف کی مدد سے سچ تک نہیں پہینچا جا سکتا اور نہ ہی انسانیت کی کوئی خدمت سرکاری پھونپو سے نکلنے والی آوازوں کو تسلیم کرنے سے کی جا سکتی ہے۔

٭٭٭     ٭٭٭

میری آج کی گفتگو کا موضوع ہے”ستمبر پھر سے آ گیا ہے“۔ اُس جوہری تباہ کاری کے سائے تلے زندگی گزارتے ہوئے جس کی دھمکیاں ہماری ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں ایک دوسرے کو ہر وقت دیتی رہتی ہیں نیز دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے قرب وجوار میں بستے ہوئے (جسے صدر جارج ڈبلیو بش مذہبی تقدیس کا جامہ پہناتے ہوئے ناختم ہونے والا جہاد قرار دیتے ہیں)، میں اور میرے جیسے لاکھوں لوگ شہریوں اور ریاست کے مابین تعلقات کے بارے میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ہم جیسے اُن لوگوں کو جو جوہری ہتھیاروں، بڑے ڈیموں، کثیر القومی کاروباری اداروں کے سائے تلے گلوبلائزیشن اور ہندو فرقہ پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرات (ایسے تمام مسائل جو حکومتی نقطہ نظر سے اختلاف پر مبنی ہیں) کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں، بھارت کے اندر قوم دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ الزام تراشی مجھے ذاتی طور پر کسی اشتعال میں نہیں لاتی لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گی کہ ہم جیسے لوگوں کو دیے جانے والے یہ نام ہمارے خیالات اور کام کی صحیح ترجمانی نہیں کرتے۔ قوم دشمن ایسا فرد ہوتا ہے جو خود اپنی قوم کے خلاف ہوتا ہے اور اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ اُس کی ہمدردیاں اپنے لوگوں کی بجائے کسی اور ملک یا قوم کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ہر قسم کی قوم پرستی کو بہت زیادہ تشکیک کی نظر سے دیکھنے اور قوم پرستی کی مخالفت کرنے والے افراد کا قوم اور ملک کا دشمن ہونا ضروری نہیں۔

بیسویں صدی کے دوران بڑے پیمانے پر رونما ہونے والی نسل کُشی کے پیچھے قوم پرستی ہی کی کوئی نہ کوئی شکل کارفرما تھی۔ مختلف ممالک کے جھنڈے کپڑے کے وہ ٹکڑے ہوتے ہیں جنھیں حکومتیں پہلے اپنے عوام کے ذہنوں پر غلاف چڑھانے کے لیے اور پھر اس تنگ نظری کی خاطر جان دے دینے والے لوگوں کے تابوت لپیٹنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ جب غیر جانب دارانہ انداز میں سوچنے والے افراد (میں اس فہرست میں کارپوریٹ میڈیا کو شامل نہیں کرتی) ان جھنڈوں کے سائے تلے متحد ہونے لگتے ہیں، جب لکھاری، مصور، موسیقار اور فلم سازاپنی ذاتی دانش کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے اپنے فن کو ”قوم“ کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں تو یہ ہم سب کے فکر مند ہونے اور سر جوڑ کر بیٹھنے کا وقت ہوتا ہے۔ ہمیں بھارت میں 1998ءمیں جوہری دھماکوں کے بعد اور1999ءمیں پاکستان کے ساتھ کارگل جنگ کے دوران اس اَمر کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ امریکا میں یہ جذبات پہلی خلیجی جنگ کے دوران اور اب ” دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے موقع پر دیکھنے کو مل رہے ہیں جس میں قوم پرستانہ جذبات کے اظہار کے لیے’ میڈ اِن چائنا‘ امریکی جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں۔

حال ہی میں (مجھ سمیت) جن لوگوں نے امریکی حکومت کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے انھیں ”اینٹی امریکا“ قرار دیا جا رہا ہے۔ ”اینٹی امیریکنزم“ کی اصطلاح ایک باقاعدہ آئیڈیالوجی کی صورت اختیار کرنے کے عمل سے گزر رہی ہے۔ عام طور پر اینٹی امریکن کی اصطلاح امریکی ہئیت مقتدرہ کی جانب سے اپنے ناقدین کو مطعون کرنے کے لیے اگر سراسرغلط نہیں تو غیر محتاط انداز میں استعمال کی جاتی رہی۔ جب کسی کو اینٹی امریکن قرار دے دیا جاتا ہے تو اس بات کا قوی امکان پایا جاتا ہے کہ ایسے فرد کی بات سُنے بغیر اُس کے بارے میں فیصلہ صادر کردیا جائے گا اور معقول استدلال قومی حمیت کے ہزیمت خوردہ جذبات کے ملبے میں کہیں دب کررہ جائے گا ۔

مگر ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اینٹی امریکن کی اصطلاح کا اصل مفہوم کیا ہے؟ کیا اس سے مراد ہے کہ آپ جاز موسیقی کے مخالف ہیں؟یا پھر آپ آزادی اظہار کے حق میں نہیں؟ یا یہ کہ آپ ٹونی ماریسن یا جان اپڈائیک کے ہنر سے محظوظ ہونے کی صلاحیت سے عاری ہیں؟ یا پھریہ کہ آپ کا کیلی فورنیا کے دیو ہیکل درختوں کے ساتھ کوئی جھگڑا ہے؟ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے دِل میں اُن امریکی شہریوں کی کوئی قدر نہیں ہے جو لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آکرجوہری ہتھیاروں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں یا جنھوں نے ہزاروں کی تعداد میں جنگ کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے اپنی حکومت کو ویت نام سے فوجیں واپس بلانے پر مجبور کیا تھا؟ کیا اس سے یہ مراد لی جائے کہ آپ سبھی امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں؟

امریکا کی ثقافت، موسیقی، ادب اور اس کی سرزمین کے مسحورکن حسن نیز امریکی حکومت کی خارجہ پالیسیوں پر تنقید (امریکا کے ”آزاد پریس“ کی بدولت جس کے بارے میں زیادہ تر امریکی کچھ نہیں جانتے) کے ذریعے عام لوگوں کی روزمرہ خوشیوں کا یہ چابک دستی سے تیار کیا گیا امتزاج ایک سوچی سمجھی اور نہایت موثر حکمت عملی ہے ۔ اِس کی مثال اُس پسپا ہوتی ہوئی فوج جیسی ہے جو اس اُمید پر کسی انتہائی گنجان آباد شہر میں آکر چھپ جاتی ہے کہ سویلین اہداف کے نشانہ بن جانے کا خطرہ اُن پر دشمن کے حملے کے خلاف ڈھال کا کام دے گا ۔

مگر بڑی تعداد میں ایسے امریکی شہری موجود ہیں جو کسی صورت میں بھی اپنی حکومت کی پالیسیوں کے ساتھ نتھی ہونا پسند نہیں کریں گے۔ امریکی حکومت کی پالیسیوں کے اندر پائی جانے والی دورنگی اورمنافقت پر سب سے زیادہ مدلل، عالمانہ، کڑی اورنشترکی چبھن والی تنقید خود امریکی شہریوں کی جانب سے آتی ہے۔ جب پوری دُنیا یہ جاننے کی خواہاں ہوتی ہے کہ امریکی حکومت اس وقت کیا کرنے جا رہی ہے تو وہ یہ پتا لگانے کے لیے نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید، ہارورڈ زِن، ایڈ ہرمن، ایمی گولڈ مین، مائیکل البرٹ، چالمرز جانسن اور ولیم بلم جیسے دانش وروں سے رابطہ کرتی ہے کہ حقیقت حال کیا ہے۔

اِسی طرح سے بھارت میں بھی سیکڑوں نہیں لاکھوں افرادایسے ہیں جو بھارت کی موجودہ حکومت کی فاشسٹ پالیسیوں کے ساتھ کسی بھی حوالے سے منسلک کیے جانے پر شرمندگی بلکہ ناراضی محسوس کریں گے ۔ اِن پالیسیوں میں وادی کشمیر میں (دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر) ریاست کی طرف سے بدترین تشدد روا رکھنے سے لے کر گجرات میں ریاستی حکومت کی ناک تلے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلے جانے جیسی شرم ناک کارروائیوں پر آنکھیں بند رکھنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

کسی بھی فرد کو اینٹی امریکن قرار دینا، بلکہ درحقیقت اینٹی امریکن ہونا (یا پھر اینٹی انڈین یا اینٹی افریقن ہونا) نہ صرف نسل پرستانہ طرزعمل ہے بلکہ یہ انسانی سوچ اور تخیل کی ناکامی بھی ہے۔ گویا اس طرح آپ کے لیے دُنیا کو اسٹیبلشمنٹ کے طے کردہ ضوابط کے سوا کسی اور حوالے سے نہ دیکھنے کی شرط عائد کردی جاتی ہے۔ مثلاً اگر آپ بش کے حامی نہیں تو آپ طالبان ہیں۔ اگر آپ ہم سے محبت نہیں کرتے تو آپ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر آپ اچھے نہیں تو لامحالہ برائی کا منبع ہیں۔ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں تو یقیناً دہشت گردوں کے حمایتی ہیں۔

 پچھلے برس دیگر کئی لوگوں کی طرح میں نے بھی 11 ستمبر کے بعد پیدا ہونے والی اس لفظی جنگ کا تمسخر اُڑانے کی غلطی کی تھی اور اسے احمقانہ اور نخوت پر مبنی قرار دے کر مسترد کیا تھا۔ مگر اب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ جنگ ہرگز احمقانہ نہیں ہے بلکہ یہ درحقیقت ایک انتہائی جہالت پر مبنی اور نہایت خطرناک لڑائی کے لیے بھرتی کی مہم سے عبارت ہے۔ مجھے ہر روز یہ جان کر حیرانی ہوتی ہے کہ کتنے زیادہ لوگ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کی مخالفت کودہشت گردی کی حمایت یا طالبان کے حق میں ووٹ دینے کے مترادف خیال کرتے ہیں ۔

اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُسامہ بن لادن کو (زندہ یا مردہ) گرفتار کرنے کا معاملہ کھٹائی میں پڑجانے کے باعث جنگ کے ابتدائی اہداف تبدیل کردیے گئے ہیں اور یہ نکتہ سامنے لایا جا رہا ہے کہ جنگ کا اصل مقصد طالبان حکومت کا خاتمہ کرنا اور افغان خواتین کو برقعہ پوشی کی پابندیوں سے آزادی دلوانا تھا۔ ہم سے یہ باور کر لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے کہ امریکی چھاتہ بردار دراصل خواتین کی آزادی کی مہم پر نکلے ہیں (اگر ایسا ہی ہے کہ تو کیا اُن کا اگلا پڑاؤ سعودی عرب میں ہوگا؟)۔ اس معاملے کو ذرا اِس رُخ سے دیکھتے ہیں کہ بھارت میں بھی اُچھوت جاتیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں یا خواتین کے خلاف چند انتہائی قابل مذمت معمولات جاری ہیں۔ اُدھر پاکستان اور بنگلہ دیش اپنی مذہبی اقلیتوں اور خواتین کے خلاف اس سے بھی بدتر سلوک کررہے ہیں۔ کیا اُن پر بھی بم باری کی جانا چاہیے؟ کیا نئی دہلی، اسلام آباد اور ڈھاکا کو تہ تیغ کردینا چاہیے؟ کیا بم باری کی مدد سے بھارت میں انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہے؟ کیا ہم بم باری کے ذریعے خواتین کے لیے جنت کہلائے جانے والے معاشرے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں؟ کیا امریکا میں خواتین نے ووٹ کا حق اسی طریقے سے حاصل کیا تھا؟ کیا غلامی کا خاتمہ بھی اس انداز میں کیا گیا تھا؟ کیا ہم اُن لاکھوں قدیم امریکی باشندوں کی نسل کُشی کا مداوا، جن کی لاشوں پر ریاست ہائے متحدہ امریکا کی بنیاد رکھی گئی تھی، سانتا فے کو بموں کے ساتھ تباہ کرنے کی صورت میں کر سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).