کشمیر امت مسلمہ کا نہیں، کشمیریوں کا مسئلہ ہے


مودی کی طرف سے کشمیر میں آرٹیکل 70 اور 35 اے کے عملی نفاذ کے بعد جب اہل کشمیر کو ان کے گھروں میں محصور کرکے ان پر عرصہٕ حیات تنگ کیا جارہا تھا اور پاکستانی ارباب اختیار غصے اور بے بسی سے پیچ و تاب کھا رہے تھے تو عین انہیں دنوں حرم کے پاسبان اور متحدہ عرب امارات والے جدید دور کے ”ہٹلر“ سے پچھتر ارب ڈالرز کی کاروباری ڈیل کر رہے اور اسے اپنے ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز عطا کر رہے تھے۔ امت واحدہ کے رومانوی تصور کے اس طرح پارہ پار ہ ہونے پر ہم نے خون کے آنسو روتے ہوئے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ ہم جدید قومی ریاستوں کے دور میں زندہ ہیں لہٰذا اہل مغرب ہمارے اس طرح کے نظریات کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دیں گے۔ اب تو حد ہی ہو گئی ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات والوں نے بھی حکم صادر کر دیا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو امت کا مسئلہ بنا کر پیش نہ کرے۔

ہم بنیادی طور پر وقت سے بچھڑے ہوئے لوگ ہیں۔ زمانہ بہت آگے چلا گیا اور ہم ماضی کے مزاروں کے خواب لے کر کہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ زماں و مکاں کے حوالے سے ہم بڑے بد نصیب واقع ہوئے ہیں۔ ہم شاید ماضی بعید کے کسی دور کے انسان تھے مگر وقت نے ہمیں آج کے دور میں لا پھینکا ہے۔ ہم موجودہ عالمی حالات کے تقاضوں کو سمجھے بغیر کئی صدیاں پیچھے جا کر بات بات پر محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کو آواز دیتے ہیں۔ شمشیر و سناں اور جنگی ساز و سامان کو مہمیز دیے بغیر محض قوت ِ ایمانیِ، جذبہٕ جہاد اور شوقِ شہادت کے سہارے کشمیر کو فتح کرنے اور لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانا چاہتے ہیں۔

اپنے اندر کے خوف، لالچ اور انانیت کے بتوں کو توڑے بغیر محمود غزنوی کی طرح سومنات کے مندر پاش پاش کرنا چاہتے ہیں۔ روئے زمین پر کہیں بھی کسی مسلم خاتون کی بے حرمتی پر ”وا معتصما“ کی دہائی دے کر باطل کے ایوانوں کو لرزہ براندام کرنا چاہتے ہیں۔ طارق بن زیاد کی طرح بغیر کسی منصوبہ بندی کے ساحل پر کشتیاں جلا کر آٹھ سو سالا خلافت کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ تیمور لنگ اور ظہیر الدین بابر کی مانند زورِ تیغ سے ملکوں پر ملک فتح کر کے انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

ہماری ایسی فکری تربیت اور افتاد طبع کی تشکیل و تعمیر میں علامہ اقبال کے علاوہ ٹیپو سلطان، عبدالحمید ثانی اور جمال الدین افغانی نے بھی دیکھا تھا۔ علامہ اقبال کے کلام کا معتد بہ حصہ ملت اسلامیہ کے قیام کی شدید خواہش پر مشتمل ہے۔ انہوں نے بڑی دردمندی سے چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا، مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا اور ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے جیسے جذباتی اور غیر منطقی نعرے لگا کر ہندوستانی مسلمانوں کو سہانے خواب دکھائے۔

علامہ خود تو شاید جانتے تھے کہ شاعری کا تعلق ذوق سے ہوتا ہے نہ کہ منطق سے، اسی لیے عملی طور پر وہ اسی دور میں خطبہ الہٰ آباد میں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے شمال مغربی گوشے میں ایک تنگ قطعہٕ زمین کی حدود میں ملت کے مفاد کو مقیّد کرنے کا سیاسی نظریہ پیش کر رہے تھے۔ مگر افسوس کہ علامہ اقبال کے مترجمین، مفسرین، شارحین، مداحین اور ترجمان اس وقت کلام اقبال کو سمجھ سکے نہ اب ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ علامہ کے ساتھ ہماری جذباتی اور رومانوی وابستگی ہے۔ رومان تعقل اور تدبر کی موت ہوا کرتا ہے۔ سو آج بھی علامہ کے مداحین ان کی اس ولولہ انگیز اور غیر حقیقی شاعری سے ملت اسلامیہ کے اتحاد سمیت پتہ نہیں کن کن خوابوں کی صورت گری کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔

ہمارے ہاں معمولی سیاسی، سماجی اور علاقائی مسائل کو بھی مذہب و ملت اسلامیہ کا تڑکا لگا کر اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ مظلومین کو فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہماری مقتدرہ، سیاسی حکومتیں، حساس ادارے اور سیاسی جماعتیں معمولی سیاسی فوائد کے لیے مذہبی کارڈ استعمال کر تی ہیں۔ دنیا میں آزادی کی جدوجہد ہو، انسانی حقوق کی پائے مالی کی بات ہو یا کسی ملک کا اندرونی انتظامی مسئلہ، ہم پاکستانی اسلام اور مسلمانوں کے ٹھیکیدار بن کر بے خطر کود پڑتے ہیں اور معاملہ بگاڑ دیتے ہیں۔

فلسطین میں مذہب و مسلک سے بالا اچھی بھلی آزادی کی تحریک چل رہی تھی جس میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے مگر ہم نے اس تحریک کو خالص مذہبی رنگ دے کر اور امت مسلمہ کا دیرینہ مسئلہ بنا کر وہ انت مچایا کہ آج خود عرب ممالک فلسطینیوں کی حمایت سے کترا رہے ہیں۔ یہی صورت حال ایک عرصے سے کشمیر میں بھی درپیش ہے۔ کشمیر کا خطہ تین ممالک چین، بھارت اور پاکستان کے زیرانتظام ہے۔

وہاں مسلمانوں کے علاوہ تقریباً تیس فیصد ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کشمیری لیڈر شپ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی حمایت کیوں نہ حاصل کر سکی؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیر کے تمام ہندو اورسکھ مسلمانوں کے بد ترین دشمن ہیں؟ اگر بھارت وہاں انسانی حقوق پائے مال کررہا ہے تو خود بھارت میں موجود تیس کروڑ مسلمان اور دوسری سیکڑوں کمیو نیٹیس کشمیری مسلمانوں کے حق میں آواز کیوں نہیں اٹھا رہیں؟ ارون دھتی کے علاوہ کوئی مٶثر اور توانا آواز ضمیر عالم کو کچوکے کیوں نہیں لگا رہی؟

اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہم فتوحات کے دور میں نہیں بلکہ قومی ریاستوں کے دور میں زندہ ہیں جہاں ملکی مفادات مذہبی مفادات سے بڑھ کر ہیں۔ ماضی جب آپ طاقت کے نشے میں مست تھے تو اسلام کے نام پر دنیا بھر کو تاخت و تاراج کرتے تھے۔ مال غنیمت کے نام پر عبادت گاہیں توڑ کر بت شکن کا لقب پاتے تھے۔ ”دشمن“ کی خواتین اور نو عمر لڑکیوں کو لونڈیاں بنا کر حرم سرا کی زینت بناتے تھے۔ اور تو اور اسی مذہب کے نام پر انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتے تھے۔

آج اگر اہل مغرب کو تھوڑا بہت بدلہ چکانے کا موقع مل رہا ہے تو جز بز کیوں ہو رہے ہیں؟ کھیل اگر طاقت و اختیار ہی کا ہے تو برداشت کریں اور اچھے دنوں کا انتظار کریں یا بدلے ہوئے حالات میں حکمت عملی تبدیل کر کے اپنی جانیں، وسائل اور عزت و ناموس بچائیں۔ ساری دنیا پر اسلام نافذ کرنے سے قبل اپنے خون ریز ماضی سے دامن چھڑا کر اپنے پانچ فٹ جسم پر اپنی مرضی کا اسلام نافذ کریں۔ دیکھنا ساری دنیا کس قدر حسین لگے گی۔

اندریں حالات یو اے ای کے شہزادوں نے بالکل درست پیغام دیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو امت مسلمہ کا مسئلہ بنا کر پیش نہ کریں۔ کشمیریوں کے بھی مالک نہ بنیں بلکہ ایک کروڑ پچیس لاکھ لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دیں۔ ان کے ہاتھوں سے بندوق اور پتھر لے کر کتاب اور قلم تھمائیں۔ انہیں آزادی کے لیے عسکری نہیں سیاسی اور جمہوری جدوجہد کرنے پر آمادہ کریں کیونکہ آپ انڈیا سے جنگ کر کے کشمیر نہیں لے سکتے۔ کشمیر امت مسلمہ کا نہیں کشمیریوں کا مسئلہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).