مطالبہ خالصتان کی تاریخی بنیادیں


خالصتان کی آزادی پر سکھ آبادی ایک بار پھر متحرک ہو رہی ہے۔ سکھ کشمیریوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ کے سکھ رکن نے اسلاموفوبیا اور کشمیر پر بڑے جوش بھرے انداز میں بات کی۔ کینیڈا میں مقیم سکھ برادری نے کشمیریوں کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ برطانیہ میں سکھ نوجوانوں نے کشمیریوں کے ساتھ مل کر بھارتی ہائی کمشن کے دروازے پر انڈے پھینکے۔ خود بھارت کے اندر بہت سے دانشوروں کے علاوہ مشرقی پنجاب کی سکھ آبادی پاکستان اور اہل کشمیر کی حمایت کر رہی ہے۔

نئی دہلی کے ایک انسان دوست سکھ نے ایک سو کشمیری خواتین کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کا خرچ برداشت کیا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت مسلمانوں کی جان کے پیاسے سکھ ایسا کیوں سوچنے لگے ہیں کہ بھارت کے ساتھ شمولیت کی بجائے وہ پاکستان کا حصہ بنتے یا الگ ریاست کے طور پر انگریز سے اپنی سیاسی شناخت مانگتے تو زیادہ اچھا ہو تا؟ انگریزوں نے جب برصغیر کو آزاد کرنے کے معاملے پر مقامی رہنماؤں سے مشاورت شروع کی تو پنجاب میں انہیں قدرے مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔

انگریز کانگرس اور مسلم لیگ کو دو ایسی بڑی قوموں کی نمائندہ تسلیم کر چکے تھے جنہیں تقسیم کی سکیم کو ویٹو کرنے کا اختیار تھا۔ اس صورت حال میں سکھوں نے اپنا مقدمہ الگ سے بنایا۔ سکھ رہنما اس مقدمے کو خاطر خواہ انداز میں آگے بڑھانے کے بجائے کانگرس کی چال میں آ گئے اور اپنا سارا جوش و جذبہ مسلم لیگ کی مخالفت میں پھونک دیا۔ سکھوں کا ابتدا میں یہ خیال تھا کہ پشاور سے ملتان تک پھیلے پنجاب پر انگریز کا قبضہ چونکہ سکھ اقتدار کو ختم کر کے ہوا اس لئے اب جبکہ انگریز برصغیر سے واپس جا رہے ہیں تو انہیں اسی حجم کا پنجاب سکھوں کو واپس کرنا چاہیے۔

سکھ رہنماؤں نے انگریز حکام سے ملاقاتوں اور خطوط میں اپنے الگ ریاستی استحقاق کی متعدد بار بات کی مگر وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور گورنر پنجاب سرجینکنز ان کے مطالبات کو نظر انداز کرتے رہے۔ ایسا نہیں کہ سکھوں نے اس مطالبے کو آسانی سے چھوڑ دیا۔ مہاراجہ فرید کورٹ نے سکھ گروپوں کے ساتھ مل کرالگ سکھ ریاست کی ایک سکیم تشکیل دی۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے 18 اپریل 1947 ء کو سکھ رہنماؤں ماسٹر تارا سنگھ ’گیانی کرتار سنگھ اور سردار بلدیو سنگھ نے ملاقات کی۔

اس ملاقات کا احوال وائسرائے نے اپنی خفیہ ڈائری میں نوٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ”مہاراجہ فرید کوٹ نے مجھے اپنے خیالات سے آگاہ کیا ہے (اس سکیم کے مطابق فیروز پور ’لدھیانہ‘ فرید کوٹ اور لاہور کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر کے اسے سکھ ریاست بنانا تھا) انہوں نے بتایا کہ مسلمان سکھوں پر ناحق حملے کر رہے ہیں اس لئے اب وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے۔ سکھ رہنماؤں نے شکایت کی کہ پولیس میں 73 فیصد مسلمان اور 27 فیصد سکھ اور ہندو ہیں۔

وہ چاہتے تھے کہ گورنر پنجاب چھ ہزار جن نئے افراد کو پولیس میں بھرتی کر رہے ہیں وہ سب غیر مسلم ہوں تاکہ محکمہ میں اقوام کا تناسب 50 فیصد مسلمان ’20 فیصد سکھ اور 30 فیصد ہندو ہو جائے۔ میں نے اس سلسلے میں گورنر کو لکھنے کا وعدہ کر لیا۔ اس کے بعد سکھ رہنماؤں نے شکایت کی کہ بعض علاقوں میں فوج کو سول انتظامیہ کی مدد سے روک دیا گیا ہے۔ میں نے وزیر دفاع سے جائزہ لینے کا کہا۔ پھر وفد نے ایک تحریر میرے حوالے کی جس کا عنوان تھا ”وائسرائے کے ساتھ ملاقات کے لئے اہم نکات“ میں نے ان میں سے دو الگ نکات پر بات کی۔

نمبر ایک عبوری دور میں کام چلانے کے لئے مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب کے لئے دو الگ الگ حکومتیں قائم کرنے کا اعلان اور نمبر 2 پولیس میں بھرتی کا مسئلہ۔ میں نے ان سے سکھ ریاستوں کے بارے میں ان کے خیالات معلوم کیے کہ پٹیالہ ’کپور تھلہ‘ فرید کوٹ ’نابھہ‘ جیند اور خالصہ پر مشتمل کنفیڈریشن کی تشکیل کے بارے میں مذاکرات شروع ہیں۔ انہیں امیدہے کہ مالیرکوٹلہ بھی اس میں شامل ہو گی جس کا حکمران اگرچہ مسلمان ہے مگر وہ اسے سکھ ریاست ہی سمجھتے ہیں۔

انہیں امید تھی کہ مہاراجہ آف نالا گڑھ بھی اس میں شامل ہو جائیں گے۔ نالا گڑھ کی آبادی ہندو اکثریتی ہے مگر حکمران مہاراجہ پٹیالہ کا برادر نسبتی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ برطانوی ہند کا کوئی علاقہ سکھ ریاستوں میں شامل نہیں ہو سکتا۔ مجھے چونکہ برطانوی ہند کا انتقال اقتدار کرنا ہے۔ اس لئے برطانوی ہند کا کوئی حصہ ریاستوں کے حوالے نہیں کر سکتا جنہیں میں برطانوی تسلط سے آزاد کر رہا ہوں۔ (میں نے بہتر سمجھا کہ ان کی توجہ اس خط کی طرف نہ دلاؤں جو انہوں نے مہاراجہ فرید کوٹ کو لکھا تھا اور جس میں انہیں برطانوی ہند کے بعض علاقوں پر قبضہ کرنے کی دعوت دی تھی یا شاید ان کا مقصد ریاست کی سربراہی سنبھالنے کی دعوت دینا ہو) آخر میں انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان اور تقسیم پنجاب کے فیصلے کی صورت میں عام اعلان میں سکھوں کو ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک میں شمولیت کا حق دیا جائے۔

میں نے اسے جائزتسلیم کرتے ہوئے اتفاق کیا ”۔ (لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ڈائری) سکھ اقلیت میں تھے لیکن وہ مسلم اکثریت کی حکمرانی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ کانگرس نے دونوں کے مابین اختلاف بڑھانے کے لئے منصوبہ بندی کی۔ کانگرس ایک طرف پنجاب کے گورداس پور جیسے کچھ علاقوں کو بھارت میں شامل کر کے کشمیر تک رسائی آسان بنانا چاہتی تھی تو دوسری طرف کانگرسی رہنما سکھوں کو بطور ہتھیار تشدد کے لئے استعمال کرنے کا سوچ رہے تھے۔

پنجاب میں حالات خراب ہوئے تو کانگرس کی مجلس عاملہ نے سردار پٹیل کی تجویز پر 8 مارچ کو ایک قرار داد منظور کی جس میں ہندوستان کی تقسیم کا اصول تسلیم کر لیا گیا۔ قرار داد میں پنجاب کے فسادات پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی گئی کہ پنجاب میں تشدد اور جبر سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا اس لئے مسلم اکثریت والے علاقے کو غیر مسلم اکثریت والے علاقے سے الگ کر دیا جائے۔ 14 مارچ کو نہرو نے لاہور میں گورنر جینکنز کے ساتھ ملاقات کی اور کہا کہ ”اب کسی نہ کسی قسم کی تقسیم ناگزیر ہو چکی ہے“ اس نے تجویز کیا کہ ”پنجاب کو تین علاقوں میں بانٹ دیا جائے۔

ایک مسلم علاقہ ’دوسرا وسطی علاقہ اور تیسرا غیر مسلم علاقہ۔ وزیروں کا تقرر اس طریقے سے کیا جائے کہ ہر علاقہ مخصوص شعبوں میں خود مختار ہوجائے۔ تاہم تینوں علاقوں کے وزراء مشترکہ مقاصد کے لئے اکٹھے بھی ہو سکتے ہیں ”نہرو نے پنجاب میں مارشل لاء کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا۔ انہی دنوں بلدیو سنگھ نے بھی اسی نوعیت کا مطالبہ کیا۔ گویا پنجاب میں غیر مسلم اقلیتوں کو جب عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جمہوریت اورسیکولرازم کے نعرے چھوڑ کر مارشل لاء اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کے مطالبات کرنا شروع کر دیے۔

برصغیر کی سطح پر سیکولر جمہوریت کا نعرہ سرمایہ دار ہندو طبقے کے مفاد میں تھا۔ لیکن پنجاب کی سطح پر مسلمانوں کی اکثریت کے باعث انہوں نے اپنے دلکش نعرے کے الٹ موقف اختیار کیا۔ (پاکستان کی سیاسی تاریخ۔ ادارہ مطالعہ تاریخ) محقق زاہد چودھری اور حسن جعفر زیدی کا خیال ہے کہ بلدیو سنگھ اعتدال پسند سکھ رہنما تھا اور مشن منصوبہ کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی حل کا خواہاں تھا۔ جبکہ ماسٹر تارا سنگھ اور گیانی کرتار سنگھ وغیرہ انتہا پسندانہ نعرے لگا رہے تھے۔

کانگرس کی قرار داد نے بلدیو سنگھ کو بھی انتہا پسندوں کی طرف دھکیل دیا۔ مسلم لیگ کے دو قومی نظریے کو مسلسل مسترد کرنے والی کانگرس نے مارچ کے اوائل میں پنجاب کے فسادات کے بعد سکھوں کو تلقین کی کہ وہ محض مذہبی وجوہ کی بنا پر پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت کے قیام کو مسترد کر دیں۔ اس سے کانگریس کی دو رخی پالیسی بے نقاب ہو گئی۔ 10 اپریل 1947 ء کو سرجینکنز گورنر پنجاب نے اپنی سرکاری یادداشتوں کا نوٹ لکھا کہ ”آج شام چار بجے گیانی کرتار سنگھ کی درخواست پر اس سے ملاقات کی۔ اس نے سکھوں کے مسئلے کے بارے میں پیشرفت کا پوچھا میں نے پوچھا کہ سکھ اصل میں چاہتے کیا ہیں۔ (جاری )
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).