مارشل ژوکوو، ہٹلر کو زیر کرنے والی شخصیت


24 جون 1945 کو ماسکو کے ریڈ سکوائر پر فتح سے منسوب پریڈ ہونا طے تھی۔ اس بارے کہ اس پریڈ کی سرکردگی کون کرے گا اور کون سلامی لے گا، تب نہیں سوچا گیا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ سلامی فوج کے سالار اعلٰی ستالن کو ہی سفید گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر لینی چاہیے تھی۔ مگر معاملہ یہ تھا کہ ستالن، خانہ جنگی کے زمانے سے یعنی 1920 کے عشرے سے گھوڑے پر سوار نہیں ہوئے تھے۔ پیریڈ سے کچھ وقت پیشتر قائد اپنے ذاتی حفاظتی دستے کے سربراہ کے ہمراہ مانیژ پہنچے تھے، جہاں سفید عرب گھوڑی ان کی منتظر تھی۔

وہ مشکل سے کاٹھی پر بیٹھے تھے اور کوشش کی تھی کہ گھوڑی کو کھڑا کیے رکھیں۔ ستالن نے گھوڑی کے پہلووں کو اپنی ٹانگوں سے مضبوطی سے دبایا تھا۔ اس لیے وہ ایک پہلو کی جانب جھک گئی تھی اور کاٹھی محافظ کے بازووں پر آ گری تھی۔ ستالن نے دوسری کوشش کی تھی لیکن گھڑ سواری کی مہارت پر ان کی عمر کا غلبہ ہو چکا تھا۔ فخر سے کاٹھی پر بیٹھ کر انہوں نے گھوڑی کو ایڑ لگا دی تھی۔ وہ الف ہو گئی تھی اور قائد زمین پر آ رہے تھے۔ اٹھ کر انہوں نے جھلاہٹ سے ہاتھ کا اشارہ کیا تھا اور کہا تھا: ”چلو ژوکوو ہی پریڈ کی سلامی لے گا، وہ پرانا گھڑ سوار ہے“۔

فتح پریڈکے بعد گیارگی ژوکوو فوجی دوستوں کے ساتھ اپنے کنٹری ہاؤس پہنچے تھے۔ مدعوئین میں اس زمانے کی معروف مغنیہ لیدیا روسلانووا بھی تھیں۔ فنکارہ کے ساتھ ژوکوو کو زمانہ جنگ میں متعارف کروایا گیا تھا، وہ فوجیوں کے لیے کنسرٹوں میں اکثر شرکت کیا کرتی تھیں۔ جب جام تجویز کرنے کی باری رسلانووا تک پہنچی تو انہوں نے جنرل کے لیے نہیں بلکہ ان کی اہلیہ کے لیے جام صحت تجویز کیا تھا۔ ”جنرلوں کو حکومت تمغے اور اعزازات انعام دیتی ہے۔ ان کی بیویوں کے لیے کوئی تمغہ وجود نہیں رکھتا جبکہ انہوں نے انتظار کیا ہوتا ہے، پیار کیا ہوتا ہے اور نچھاور ہوتی ہیں ”مغنیہ نے کہا تھا۔ پھر اپنے بیگ سے ہیروں جڑا بروچ نکالا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ یہ بروچ مارشل ژوکوو کی اہلیہ الیکساندرا کو برداشت، وفاداری اور مقاومت کے لیے انعام میں دیتی ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک وقت یہ بروچ عظیم روسی شاعر الیکساندر پوشکن کی کی بیوی نتالیا گونچارووا کی ملکیت ہوا کرتا تھا۔ روسلانووا کے ہاتھ یہ تب ہی فروخت کیا گیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ وہ اسے مارشل ژوکوو کی اہلیہ کو تحفے میں دینا چاہتی ہیں۔ متاسفانہ، کچھ وقت کے بعد سالار قیادت کی نظروں سے گر گئے تھے۔ ان کے کنٹری ہاؤس کی تلاشی لیے جانے کے بعد یہ قیمتی شے کھو گئی تھی۔

پانچ مارچ 1953 کو ستالن پر فالج کا حملہ ہوا تھا اور چار روز کے بعد وہ انتقال کر گئے تھے۔ ستالن کے عہد کی تاریخ میں مارشل ژوکوو کا کردار بطور ہیرو اور ان کے خلاف سوویت انتقامی اداروں کی کارروائیوں میں منقسم ہے۔ 26 جون 1953 کو سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کا سربراہ، جو طاقتور ترین اور دہشتناک ترین بیریا تھا کو کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے پریزیڈیم کے اجلاس سے حراست میں لیا گیا تھا۔ گرفتاری کی اس کارروائی کی سربراہی ژوکوو نے کی تھی۔

ظاہر ہے اس خدشے کے تحت کہ اگر طاقت کے استعمال کی یہ کارروائی ناکام ہو گئی تو اس کے اثرات انتہائی خطرناک ہوں گے، اس کام کے لیے ”فتح کے مارشل“ کا نام دیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ کارروائی فیصلہ کن انداز میں جھجھکے بنا سرانجام دی تھی۔ دو سال بعد ژوکوو کو سوویت یونین کے امور دفاع کا وزیر مقرر کر دیا گیا تھا۔ اس طرح درحقیقت کمیونسٹ پارٹی کے نئے سربراہ کو اندرونی مخالفت کی لڑائی میں محفوظ بنانے کا چارہ کیا گیا تھا۔

نیکیتا خروشچیو کو کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کی مرکزی کمیٹی کا اوّل سیکریٹری چنے جانے کی تجویز کے مخالفوں سے کہا گیا مارشل کا یہ مختصر فقرہ ”اگر آپ پارٹی لائن کے خلاف لڑنے کی مزید کوشش کریں گے تو مجھے فوج اور عوام سے رجوع کرنا پڑے گا“ سب سے زیادہ قائل کن رہا تھا۔ ”فوج اور عوام“ کی مخالفت کرنے کی جرات کسی میں نہیں تھی۔

مگر ”فتح کے مارشل“ کی بھرپور شخصیت نے خروشچیو کو اپنے مخالفوں کی نسبت کچھ کم خائف نہیں کیا تھا۔ سیاسی چالوں کے اس ماہر کو یقین تھا کہ ژوکوو زود یا بدیر اپنی طاقت اور وقار کا استعمال کرے گا۔ یہ سوچ کر کہ سر پہ منڈلاتی ایٹمی جنگ سے داستانی شہرت کے حامل مارشل کے بغیر بھی نمٹا جا سکتا ہے، خروشچیو نے وہ فیصلہ کیا تھا جو ستالن نے نہیں کیا تھا۔ 1957 کے موسم خزاں میں، ژوکوو پر پارٹی مخالف سرگرمیوں کا الزام لگا کر ان کو تمام مناسب سے سبکدوش کر دیا گیا تھا۔ زندگی کے باقی سترہ سال مارشل نے ریٹائرڈ شخص کے طور پر بسر کیے تھے اور اپنی یادداشت تحریر کی تھی۔

روس کے لیے گیارگی ژوکوو کی خدمات پر کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ وہ قومی ہیرو تھے اور ہیں۔ ان کانام روس کے داستانی طور پر معروف سپہ سالاروں سووروو اور کوتوزوو کے ساتھ آتا ہے۔ گیارگی ژوکوو وہ انسان تھے جنہوں نے ہٹلر کو زیر کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2