صلاح الدین نے کس کا منہ چڑایا؟


یہاں ظلم اور نا انصافی کے ثبوت کے لیے اک لاش کی گواہی درکار ہے۔ اک ایسی لاش جو اخبار کے سینے پہ سجے۔ وہ لاش نہیں جو امرِ ربی کے ڈر سے چپ چاپ اپنی قبر میں اتر جائے۔ اک لاوارث لاش جو کوڑے کے ڈھیر سے ملے۔ اک ایسی لاش جسے خونخوار بھیڑیوں کا غول چوراہے پر اپنے نوکیلے دانتوں سے چبا ڈالے۔ اک برہنہ لاش جو ظلم اور نا انصافی کا منہ بولتا ثبوت ہو۔ کسی نابالغ کی عریاں لاش جسے شیطانی ہوس کا نشانہ بنا کر پھینک دیا جائے اور کتے جس کو نوچ رہے ہوں۔ اک ایسی لاش جسے بے رحمی سے موت کی نیند سلا دیا گیا ہو اور اس کے خواب اس کی نیم کھلی آنکھوں میں گڑھے دکھائی دیں۔ ایسی لاش جو اپنے ہی گھر سے برآمد ہو اور اس پر رونا والا کوئی نہ ہو۔ اک ایسی لاش جسے غیرت کی سولی پر لٹکا دیا جائے مگر اس کے سینے میں جینے کی خواہش ابھی باقی ہو۔

جب جب ایسی کوئی لاش وصول ہوتی ہے تب تب ہماری سستی جذباتیت جاگ اٹھتی ہے۔ ہم گلے پھاڑ پھاڑ کر اس کا ماتم منانا شروع کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تشہیر کر کے لوگوں کے ضمیرجھنجھوڑتے ہیں اور اپنے ضمیر کی تشفی کرتے ہیں۔ مقتدر حلقوں کو موردِالزام ٹھہراتے ہیں اور ان سے انصاف کی بھیک مانگتے ہیں۔ عدل وانصاف کے ایوانوں کے درودیوار پر ایسے سر پھٹکتے دکھائی دیتے ہیں جیسے پاگل پنچھی پنجرے کی سلاخوں سے ٹکراتا ہے۔ اور پھر جیسے جیسے اس لاش کی بو اجتماعی قومی شعور کی ناک سے معدوم ہونے لگتی ہے تو ہم بھی ہچکیاں لیتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس اطمینان کے ساتھ کہ ہم نے لاش سے انصاف کر دیا۔ اور یہ ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے۔

زندہ لاشیں، مردہ لاشوں کا حساب مانگتی ہیں۔ ہمیں انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم دکھائی نہیں دیتے۔ بھوک کی گود میں تڑپتے زندہ لاشے دکھائی نہیں دیتے۔ چوراہوں پر پھیلے ہوئے ننھے ہاتھ دکھائی نہیں دیتے جن کی قسمت کی لکیریں مٹ چکی ہیں۔ تندور کی آگ میں سلگتے ہوئے جیون دکھائی نہیں دیتے۔ بلکتے بچوں کے چیخے سنائی نہیں دیتے۔ نحیف کاندھوں پر طبقاتی تقسیم کی سولی دکھائی نہیں دیتی۔ آنکھوں میں کرچیاں ہوتے خواب دکھائی نہیں دیتے۔ اور لمحہ لمحہ راکھ ہوتی زندگی دکھائی نہیں دیتی۔ کیونکہ یہاں سماجی نا انصافیوں کو امرِربی پکارتے ہوئے استحصالی نظام کی جڑیں مضبوط کی جاتی ہیں۔

ہم صرف لاشوں کی تکریم کرتے ہیں انسانوں کی تعظیم نہیں کرتے۔ اسی لیے انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کو امریکی ایجنٹ تعبیر کیا جاتا ہے۔ انھیں ملکی سلامتی کے لیے خطرہ گردانہ جاتا ہے۔ انھیں یہودی لابی کہا جاتا ہے۔ کافر، مخبر اور غدار جیسے سابقوں اور لاحقوں سے نوازا جاتا ہے۔ اور ان کے جنازے تک نہیں پڑھے جاتے کیونکہ اس سے نکاح فسخ ہو جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی بات کرنا غیر اسلامی فعل تصور کیا جاتا ہے اس لیے اسے بیرونی سازش کہا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی بحث خطرہِ ایمان ہے۔ یہاں تک کہ اسے گالی سمجھا جاتا ہے۔ ظلم کی چکی میں پسنے والے لوگوں کے حق میں تب تک آواز بلند نہیں کی جاتی جب تک وہ مر کر اپنی مظلومیت ثابت نہ کر دیں۔

ان دنوں ہم صلاح الدین کا ماتم منا کر اس کی لاش سے انصاف کرنے اور اپنے اپنے ضمیر کی تشفی کرنے میں مشغول ہیں۔ اور یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ جلد از جلد محکمہ پولیس کی اصطلاحات کی جائیں یا پھر اس ادارے کو سرے سے ختم کر دیا جائے۔ لیکن اک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشعال خان، ذیشان، سجاد مسیح اور صائمہ مسیح کو تو کسی ایک ملکی ادارے نے بہیمانہ طریقے سے قتل نہیں کیا بلکہ انہیں تو محبوس سماج کے وحشی گروہوں نے نوچ ڈالا تھا۔

اس کا حساب کس سے مانگیں گے۔ آپ کے اصول کے مطابق تو انہیں بھی نست و نبود کر دینا چاہیے۔ لیکن کیا اس سے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ نہیں بالکل نہیں۔ جب تک سوچ کو بدلنے کی کوشش نہ کی جائے اور دوسروں کے انسانی حقوق، اظہار رائے اور شخصی آزادی کو تسلیم نہ کیا جائے۔ برداشت کے عمل کو نہ اپنایا جائے کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔

در حقیقت ہم لاشوں سے انصاف کرتے کرتے خود زندہ لاش بن چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم صلاح الدین کی طرح منہ چڑانے کے عمل کو منہ چڑانے کا عالمی دن قرار دے کر پھر لمبی تان کر سو جائیں اور اگلی لاش کا انتظار کریں۔ یاد رکھیں، صلاح الدین نے صرف کسی ایک فرد یا ادارے کو منہ نہیں چڑایا، بلکہ اس نے منفی سوچ، دم توڑتی ہوئی انسانیت اور مرتی ہوئی اقدار کو منہ چڑایا ہے۔ اس نے اس ملک کے ہر ادارے، معاشرے کے ہر فرد اور تعفن زدہ سماج کو منہ چڑایا ہے۔ مجھے منہ چڑایا ہے۔ آپ کو منہ چڑایا ہے۔ ہم اس کا رخ کسی ایک طرف موڑتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).