کیا پناہ گزینوں نے سویڈش لوگوں کو اپنے ہی دیس میں مہاجر بنا دیا ہے


مجھے سے اب روز یہ نہیں سنا جاتا کہ یہ نیا سویڈن ہے اور یہ ایسا ہی ہے اور اب اسے ایسے ہی قبول کرنا اور نئی صورت حا ل کو پسند کرنا چاہیے۔ مجھ سے پولیس کے نت نئے مشورے نہیں سُنے جاتے جن میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جیسے گاڑی کو چلاتے وقت اندر سے تالا لگا کر رکھو، شام اور رات کو اکیلے گھر سے باہر نہ نکلو، جاگنگ کے لیے جنگل میں اکیلے مت جاؤ، اندھیری سڑکوں یا گلیوں میں مت جاؤ، مہنگی گھڑیاں یا سونے کے زیورات مت پہنو، مخصوص قسم کے کپڑے مت پہنو، مخصوص قسم کی ٹیکسی یا پبلک ٹرانسپورٹ میں شام یا رات کے وقت اکیلے سفر نہ کرو، مخصوص مردوں کے الزامات یا آوازے کسنے کا جواب نہ دو اور نہ ہی اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ تم انہیں دعوت دے رہی ہو وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے لفظوں میں تم اپنے آپ کو گھر کی چار دیواری کے اندر مقید کر لو۔

مجھے لگتا ہے کہ میں ایک جیل میں رہتی ہوں کہ میں آزادی سے سانس نہیں لے سکتی۔ مجھے ہر وقت چوکنا رہنا پڑتا ہے، اپنے اردگرد دھیان اور پیچھے دیکھنا پڑتا ہے۔

میں اصل میں ایک فرانسیسی نژاد ہوں جس نے کئی سالوں سے سویڈش شہریت لے رکھی ہوئی ہے اور میں 1972 سے سویڈن میں مقیم ہوں۔

میں سمجھتی ہوں کہ میں مقامی معاشرے کے ساتھ کافی مربوط بلکہ مدغم ہوں۔ جب بھی مائیگریشن کے حوالے سے بات ہوئی تو میرے شوہر نے کئی بار کہا کہ تم مجھ سے بھی زیادہ سویڈش ہو۔

شاید وہ سچ کہتا ہے کیونکہ مجھے پرانے سویڈن سے محبت ہے اور میں نے اسے اپنا وطن گردانا ہے۔ فرانس سے پوری زندگی میں جو مجھے ملاہے، سویڈن نے مجھے اس سے بھی کہیں زیادہ دیا ہے۔ میری اُس وقت کی جوان زندگی میں سویڈن نے مجھے پہلی بارخوشی دی ہے۔ مجھے دو حیرت انگیز پیار ملے۔ مجھے کم عمری میں ہی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ میں نے بہت محنت کی اور کیرئیر بنایا اور ان تمام سالوں میں اپنے فرائض نبھائے۔ مجھے سرسٹھ سال کی عمر میں پنشن ہو گئی لیکن میں انسٹھ سال کی عمر تک کام کرتی رہی۔ میں نے اپنے تمام قرض ادا کر دیے ہیں جن میں طالبعلمی کا قرضہ بھی شامل ہے۔ میں نے بھاری ٹیکس ادا کیا ہے اور معاشرتی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے معاشرے سے اس قدر لیا نہیں جس قدر دیا ہے۔

سویڈن میرے نزدیک صرف حیرت انگیز اور خوبصورت قدرتی مناظر والا ملک ہی نہیں ہے، جیسے اونچی پہاڑیاں جہاں میں 1992 میں تین ہفتے گھومتی رہی تھی، وہ سفید فریموں والے چھوٹے چھوٹے سرخ کاٹیج، موسم گرما کی آدھی رات جب آپ مکئی کے کھیتوں کے گرد رقص کرتے ہیں اور ”چھوٹے مینڈک“ والا گانا گاتے ہیں۔ سویڈن میرے نزدیک ایک ثقافت ہے جس کا دوسری چیزوں سمیت ہمارے سیاستدان انکار کرتے ہیں۔ سویڈن وائکنگز ہے، ان کے عقائد ہیں، اُن کے وہ نقصانات ہیں جو انہوں نے میرے پرانے وطن فرانس، اور خاص طور پر نارمنڈی کو جہاں میری جڑیں ہیں، کو پہنچائے۔

سویڈن اس کے عظیم بادشاہ ہیں جیسے واسا، کارل دوازدہم، گوستاؤ ہفتم آڈولف۔ سویڈن آ۔ ستریندبیرگ، ایس۔ لاگیرلوف، ڈبلیو، موبیرگ، آ۔ لیند گرین جیسے مصنفین اور آ۔ زورن اور بی للیے فورس جیسے مصوروں کا نام ہے۔ سویڈن الفریڈ نوبل ہے، سویڈش ایجادات جنہیں گنوا کر فہرست کو طویل بنایا جا سکتا ہے۔ سویڈن سکانسن ہے جہاں گزرے وقتوں کے چھوٹے چھوٹے کاٹیج ہیں جہاں آپ تاریخ کے پروں کو محسوس کرتے ہیں، یہاں کی دستکاریاں جیسے شیشے کو پھُلانا، قدرتی مناظر والی کشیدہ کاری، اون اور لِینن کی کتائی، جھالریں لگا نا اور بہت کچھ۔

میں نے حالیہ برسوں میں ایک نئے ملک میں پناہ لینے کے لیے معلومات اکٹھی کی ہیں۔ کئی سال قبل فرانس کو متبادل کے طور پر منتخب کیا تھا۔ اسپین، اٹلی، انگلینڈ، بیلجیئم اور نیدرلینڈ ز جیسے ممالک میں زبان کے علاوہ کوئی کشش نہیں ہے۔ ڈنمارک ایک اور متبادل تھا لیکن اُس کے اپنے مسائل ہیں، حالانکہ یہ سویڈن جتنے سنگین نہیں ہیں، اور جزوی طور پر دوسری وجوہات بھی ہیں۔ یوروپی یونین سے باہر، ہمارے لئے بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔

اورVisegrád Group (چیک ریپبلک، ہنگری، پولینڈ، سلوواکیا) کے ممالک کہاں ہیں، میں ان ممالک کے بارے میں جتنا منفی سنتی ہوں اور پڑھتی ہوں، اتنی ہی مجھے دلچسپی ہوجاتی ہے کہ میں خود الزامات کی تحقیقات کروں۔ ہم نے گذشتہ سال پولینڈ کا دورہ کیا تھا اور اس سال یہ ہنگری تھا۔

میں بوڈاپسٹ میں پینتیس دن رہی اور مجھے اچھا لگا۔ دوسری چیزوں کے علاوہ میں نے یہاں خود کو محفوظ محسوس کیا۔ میں نے ہر روز بسوں اور سب وے میں سفر کیا ہے، حتیٰ کہ کئی بار بہت رات گئے اس میں سفر میں مجھے کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہوا۔ میں سٹاک ہوم میں کبھی ایسی جرأت نہ کرتی۔ میں نے یہاں کے لوگوں کو دیکھا ہے جو دوستانہ رویئے کے مالک اور مددگار ہیں جنہیں اپنے ملک، اپنی اصلیت اور اپنے جھنڈے سے پیار ہے۔ مثلاً پارلیمنٹ کے سامنے فلیگ پول پر ہنگری کا جھنڈا لگا ہوا ہے اور جب جھنڈے کو بلند کیا جاتا ہے تو دو فوجی اسے سلامی دیتے ہیں۔

میں سادہ لوح نہیں ہوں، میں ہرگز یہ نہیں سمجھتی کہ ہنگری میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ مثال کے طور میں دیکھا ہے کہ یہاں غربت ہے، میں نے سڑکوں اور چوراہوں پر لوگوں کو بھیک مانگتے ہے، شاید اس لیے کہ اُن کی پنشن کافی نہیں ہے۔ میں نے یہاں پر نشے کے عادی افراد کو دیکھا ہے۔ اور میں نے سنا ہے کہ یہاں کچھ خاص قسم کے لوگوں کے مسائل ہیں جیسے وہ لوگ جو کھانے پینے کی اشیا کی دکانوں کے سامنے نظر آتے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ اس وقت ہنگری بہت دباؤ کا سامنا کر رہا ہے خصوصی طور پر یورپی یونین کے دباؤ کا۔ اور کسی خوبصورت دن ہنگری یورپی یونین کے دباؤ کی وجہ سے وہی کچھ کرنے پر مجبور ہو جائے جو یورپی یونین چاہتی ہے لیکن میں امید کرتی ہوں کہ میری زندگی میں ایسا نہیں ہو گا۔

یہاں زبان ایک مسئلہ ہے لیکن میں اسے سیکھنے کی پوری کوشش کروں گی، بلکہ میں نے یہ شروع بھی کر دی ہے۔ میں اپنے نئے وطن پر بوجھ نہیں بنوں گی کیونکہ میں معاشی طور پر اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں۔

پرانا سویڈن موجود نہیں ہے اور میں اس نئے سویڈن میں رہ نہیں سکتی۔ میں پرانے سویڈن کو اپنے دل میں اپنے ساتھ لے جاؤں گی اور اسے کبھی بھی فراموش نہیں کروں گی۔ میں اپنی بقایا زندگی اسی دُکھ کے ساتھ گزاروں گی اور اپنے ملک کو یاد کروں گی اور اسی طرح میرے دل میں اپنے سیاستدانوں کے لیے غصہ رہے گا جنہوں نے ایسا ہونے کی اجازت دی اور اس کے یے منصوبہ بندی کی اور اپنے لوگوں کو بدترین دھوکا دیا۔

میں جائیداد کی اپنے نام پر منتقلی کے لیے جلد ہی واپس بوڈاپسٹ جاؤں گی، ایک سال کے بعد سویڈن سے میرا ناتا مستقل طور پر ختم ہو جائے گا اور مستقل طور پر ہنگری میں رہائش پذیر ہو جاؤں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2