ڈاکٹر مبارک علی اور قا ئدِ اعظم کو مذہبی ثابت کرنے کی کوشش


پاکستان میں قا ئدِ اعظم کی شخصیت اور خیالات کی ”تاریخی حیثیت“ کو کچھ جماعتوں، گروہوں اور نام نہاد محققین نے اپنے مفادات، خیا لات اور نظریات کے مطابق بدل دیا ہے۔ جب کوئی شخص کسی دوسرے کے نظریات سے ”کھلا تضاد“ کرتا ہے تو پھر دو ہی راستے ہوتے ہیں، پہلا یہ کہ اس سے مکمل اختلاف کر کے اس پر تنقید کی جائے اور دوسرا یہ کہ اپنے خیالات کے مطابق دوسرے شخص کو اپنے خاکے میں ڈھال لیا جائے۔ قا ئدِ اعظم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے، کچھ محققین نے اُنھیں اپنے ”من پسند“ خاکے میں ڈھالنے کی کوششیں کی ہیں۔

ایسی ہی ایک کوشش ڈاکٹر مبارک علی نے بھی ”قائدِ اعظم: کیا تھے کیا نہیں تھے“ نامی کتاب لکھ کے کر رکھی ہے۔ کتاب کے پہلے چند صفحات میں ہی پڑھنے کو ملتا ہے کہ ”جناح صاحب کی تاریخی شخصیت کو تبدیل کر کے انہیں مذ ہبی بنانے کی تحریک شروع ہو چکی ہے، اب انہیں صوم و صلٰو ۃ کا پابند اور مذہبی ثابت کیا جا رہا ہے تاکہ اس بنیاد پر پاکستانی ریاست کو مذہبی بنایا جائے۔ ڈاکٹر صفدر محمود، جنھیں اخبارات میں کالم لکھنے کی آزادی ہے وہ مسلسل اس کام میں مصروف ہیں، مثلاً ایک کہانی یہ بیان کی گئی کہ ایک دن حسرت موہانی ان سے ملنے گئے تو وہ ڈرائنگ روم میں نہیں تھے، اس لیے وہ ٹہلتے ہوئے ان کی خواب گاہ میں چلے گئے اور دیکھا کہ جناح صاحب مصلے پر بیٹھے ہیں اور زارو قطار رو رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ اس سے زیادہ بے بنیاد اور لغو کہانی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ جنا ح صاحب اگر کسی کو ملنے کا وقت دیتے تھے تو وہ اس کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔“

چو نکہ حضور کے نام کے ساتھ بھی معروف محقق کا سابقہ جڑا ہے تو ان کی ہی بات مان لیتے ہیں مگرکچھ حاصل کرنے کی جستجوڈاکٹر مبارک صاحب کی کتاب پر ختم نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر مبارک صاحب نے لکھا ہے ”جنا ح صاحب اگر کسی کو ملنے کا وقت دیتے تھے تو وہ اس کی سختی سے پابندی کرتے تھے“، سب سے پہلے اس بات کے جواب میں ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں جس کے راوی مسلم لیگ کے رہنما حسین بیگ محمد کہتے ہیں کہ

”میرے والد صاحب ابو بکر بیگ کے پاس مسلم لیگ کا کچھ پریس فنڈ تھا۔ پاکستان قائم ہوا، تو انہوں نے اس سلسلے میں قا ئدِ اعظم سے ملاقات کرنا چاہی۔ میں نے قائد کے اے ڈی سی سے رابطہ کیا۔ اس نے اگلے روز سات بجے شام کا وقت دیا۔ ہم مقررہ وقت پر پہنچ گئے لیکن قا ئدِ اعظم آدھ گھنٹہ لیٹ آئے۔ یہ بات نئی تھی لیکن قا ئدِ اعظم نے آتے ہی کہا ’معاف کرنا، اے۔ ڈی۔ سی نے غلطی سے آپ کو نماز کے ٹائم پر مدعو کر لیا‘“ (بحوالہ: نقوشِ قا ئدِ اعظم، شاہین رحیم بخش، ص 212 )۔ یہ واقعہ اقرآ جٹھول نے اپنی کتاب ”جینا سے قائدِ اعظم محمد علی جناح تک“ میں ”قائدِ اعظم اور نماز“ کے عنوان سے صفحہ 80 پر نقل کیا ہے۔ امید ہے ڈاکٹر مبارک صاحب کی تسلی کے لیے یہ کافی ہے کہ قا ئدِ اعظم ایک انسان ہونے کے ناتے لیٹ بھی ہو جایا کرتے تھے۔

اب آتے ہیں اس جانب کہ ”انھیں مذہبی بنانے کی تحریک شروع ہو چکی ہے“ تو قا ئدِ اعظم کو اسلامی تعلیمات سے ناآشنا، ایک مغرب زدہ شخص قرار دینا تحقیق کا فقدان کم، عقل کا فقدان زیادہ لگتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی تسلی کے لیے قائد کا تعلق مذہب سے ”رسمی“ بتا سکتے ہیں مگر حقیقت میں وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ اگر ”احرارِ اسلام“ کے رہنما چو دھری افضل حق سے لے کر مظہر علی اظہر کی باتوں پر یقین کرو گے تو ضرور لگے گا کہ قائد ”کافرِاعظم“ تھے مگر حقیقت ان کی باتوں میں پنہاں نہیں۔

قا ئدِ اعظم کی سیاسی زندگی کو دیکھا جا ئے تو 16 ستمبر 1937 کو انڈیا کی اسمبلی میں ایک ”شریعت بل“ منظور کیا گیا۔ شریعت بل کی منظوری پر مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، مولوی محمد عبد الغنی اور قاضی محمد احمد سمیت دیگر ارکانِ اسمبلی نے قائدِاعظم کو مبارکباد دی کیوں کہ بل جناح کی محنت اور قابلیت کی بدولت منظور ہوا تھا۔ محمد جعفر، آئی اے رحمان اور غنی جعفر کی مرتب کردہ کتاب ”جناح ایز اے پا رلیمنٹیرین“ میں شریعت بل پر قا ئدِ اعظم کی طرف سے کی جانے والی بحث یہ افاقہ ضرور مہیا کرتی ہے کہ وہ ”رسمی“ نہیں اچھے مسلمان تھے۔

”قائدِاعظم کا مسلک“ کے نام سے سید صابر بخاری نے بڑی عرق ریزی سے کتاب لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”1945 میں پشاور میں ایک کانفرنس میں کسی نے قا ئدِ اعظم سے پوچھا کہ ’پاکستان میں آپ کا قانون کیا ہو گا؟‘ تو آپ نے جواب دیا ’تم نے قرآن حکیم نہیں پڑھا؟ ہمارا قانون قرآن ہو گا۔‘“ اسی کتاب کے صفحہ 38 پر درج ہے کہ قا ئدِ اعظم نے پیر صاحب مانکی شریف اور خواجہ قمر الدین سیالوی کو خطوط لکھے اور اعلان کیا کہ ”میں پاکستان کا مطالبہ اس لیے کر رہا ہوں کہ اس میں نظامِ مصطفٰے ﷺ نافذ کیا جائے۔“

اختر علی بلوچ اپنی کتاب ”بلوچستان کی نامور شخصیات“ جلد سوم، ص 63 پر آغا سلطان ابراہیم کے باب میں لکھتے ہیں: ”کہتے ہیں کہ بانی پاکستان قا ئدِ اعظم شاہی محل قلات کی مسجد میں ان کی امامت میں نمازیں پڑھتے تھے۔ قائد کے ذوق طلب کو دیکھ کر آغا سلطان ابراہیم نے قر آن مجید کے دو انگریزی ترجمے، دو تفسیریں اور ”شریعت اسلام“ کا ایک نسخہ تحفتاً ان کی نذر کیا تھا، جو ہمیشہ قیام و سفر میں قا ئدِ اعظم کے مطالعے میں رہتا تھا۔ قائد کو آغا صاحب کی دی ہوئی ”شریعت اسلام“ کی جلد کا مطالعہ کرتے بلوچستان کے معرو ف بیرسٹر یحیٰی بختیار (بھٹو دور کے اٹارنی جنرل آف پاکستان) نے بھی دیکھا اور قائد سے اس بارے میں گفتگو بھی کی۔“

پیر سید جماعت علی شاہ کے اس واقعے کے لیے تو کسی حوالہ کی ضرورت بھی نہیں کہ جب انہوں نے اپنے خلیفہ مصطفٰے علی خان کے ہاتھ قا ئدِ اعظم کو قرآن مجیدکا ایک نادر قلمی نسخہ، مدینہ منورہ کی ایک جا نماز، ایک تسبیح، آبِ زم زم اور د یگر کچھ اشیاء روانہ فرمائیں۔ تحائف موصول ہونے پر قا ئدِ اعظم نے شکریہ کے لیے خط میں جو لکھا اس پہ پیر سید جماعت علی شاہ نے بے ساختہ کہا: ”بے شک جناح صاحب تو ولی اللہ ہیں کہ انہوں نے میرے دل کی بات جان لی۔“

پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ سید شریف الدین پیر زادہ کا بیان ہے کہ ”قا ئدِ اعظم کے پاس قرآن مجید کے متعدد مطبوعہ اور قلمی نسخوں کے علاوہ پیغمبرِ اسلام ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی حیاتِ مبارکہ کے بارے میں انگریزی زبان میں کئی کتابیں تھیں۔ قا ئدِ اعظم حضرت عمرؓ کی ایڈمنسٹریشن سے بہت متاثر تھے۔“ (حوالہ: “جینا سے قا ئدِ اعظم محمد علی جناح تک” از اقرآ جٹھول، ص 68 )

”قا ئدِ اعظم کے کوئٹہ میں قیام کے دوران ایک روز یحیٰی بختیار اپنا کیمرہ لے کر قائد کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ اس وقت قا ئدِ اعظم حضرت نبی اکرم ﷺ کی احادیث پر مبنی ایک کتاب جس کا عنوان ”الحدیث“ تھا مطالعہ فرما رہے تھے۔ یحیٰی بختیار صاحب چا ہتے تھے کہ وہ قائد کی تصویر ایسے زاویے سے لیں کہ کتاب کا ٹائٹل بھی فوکس میں آ سکے، لیکن قائد نے تصویر بنوانے سے پہلے کتاب الگ رکھ دی اور یحیٰی کے اصرار پر فرمایا: ’میں ایک مقدس کتاب کو اس قسم کی پبلسٹی کا مو ضو ع بنانا پسند نہیں کرتا۔“‘ (حوالہ: ”جینا سے قا ئدِ اعظم محمد علی جناح تک“، ص 83 اور سعید راشد علیگ کی کتاب ”گفتار و کردارِ قا ئدِ اعظم“ ص 259 )

ڈاکٹر مبارک صاحب! قا ئدِ اعظم تو ایسے مثالی مسلمان تھے کہ فرقہ پسندی جیسی لعنت سے بھی کوسوں دور رہتے تھے۔ کان پور میں ایک احراری کار کن نے قائد سے پوچھا:

احراری:”آپ شیعہ ہیں یا سنی؟“

قا ئدِ اعظم: ”پہلے میں تم سے پوچھتا ہوں کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کیا تھے؟“

احراری: ”وہ تو مسلمان تھے۔“

قا ئدِ اعظم: ”تو پھر میں بھی مسلمان ہوں۔“

معروف محقق رضوان احمد 31 اکتوبر 1981 کے روزنامہ جنگ میں لکھتے ہیں : ”اپریل 1945 میں قائد نے خان آف قلات کے ساتھ ایک سکول کا معائنہ کیا۔ قائد نے بچوں سے کچھ سوال و جواب کیے اور آخر میں کہا ’بچو! تم سب سے پہلے مسلمان ہو، پھر بلوچ یا کچھ اور۔‘“

ڈاکٹر مبارک کی طرح کے کچھ اور لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں قائد کو مذہبی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں :

”21 فروری 1936 کو قا ئدِ اعظم مسجد شہید گنج کے سلسلے میں لاہور تشریف لائے۔ اس روز جمعہ تھا۔ قائد نماز کے لیے بادشاہی مسجد تشریف لے گئے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو خواجہ اشرف احمد ان کے پاس پہنچے اور ان سے آٹو گراف مانگا۔ قائد نے جواب دیا ’یہاں نہیں، گھر جا کر۔‘ خواجہ اشرف لکھتے ہیں کہ: ’محض مسجد کے احترام کی خاطر انہوں نے آٹو گراف نہیں دیا۔ بعد کو میں نے میاں احمد یار کی کوٹھی پر جا کر ان سے آٹو گراف لیا۔‘“ (حوالہ: “گفتارو کردار قا ئدِ اعظم” از پروفیسر سعید راشد علیگ، ص 70 )

ایک روز ممڈوٹ وِلا میں رانا نصراللہ خان، قائد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہ گفتگو ہوئی۔

قا ئدِ اعظم: ”میں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ کئی بار پڑھا ہے، مجھے اس کی بعض سورتوں سے بہت تقویت ملتی ہے۔“

رانا: ”مثلاً؟“

قا ئدِ اعظم: ”وہ چھوٹی سے سورت جس میں ابا بیلوں کا تذکرہ ہے۔“

رانا: ”الم ترکیف فعل ربک۔“

قا ئدِ اعظم: ”جی ہاں۔“

اس واقعہ کے راوی رانا نصراللہ خان کہتے ہیں کہ ”قا ئدِ سورۃ الم ترکیف بہت شوق سے سنتے تھے اور اپنی بات چیت اور فقروں میں اکثر ’سورۃ الم ترکیف‘، ’انشا اللہ اور ’اگر اللہ کو منظور ہوا‘ جیسے فقرے استعمال کیا کرتے تھے۔“ (حوالہ: ”گفتارو کردار قا ئدِ اعظم“ از پروفیسر سعید راشد علیگ، ص 115,116 )

اسی کتاب میں وہ واقعہ بھی موجود ہے جب قائد نے حاتم علوی سے پوچھا: ”’کیا تم روزے سے ہو؟‘ جواب ملا:’ہاں۔‘ توقائد نے کہا ’میں بھی سنِ شعور سے روزے رکھتا رہا ہوں لیکن اب صحت کمزور ہے اس لیے نہیں رکھتا۔‘“

ایک دفعہ میاں بشیرا حمد قائد سے ملنے دہلی میں حا ضر ہوئے۔ تحریک پر گفتگو ہورہی تھی۔

میاں بشیر: ”لوگ کہتے ہیں لاہور ریزولیشن تو پاس ہو گیا ہے لیکن پاکستان شاید سو برس میں بن سکے گا۔ ہماری قوم میں کمزوریاں ہیں، ہم پاکستان کیسے بنا سکیں گے؟“

قا ئدِ اعظم: (میز پر رکھے قرآن مجید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) ”جب ہمارے پاس یہ کتاب موجود ہے میا ں صاحب تو پھر ہمیں کسی چیز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔“ آفتاب احمد اپنی کتاب ”قا ئدِ اعظم چند یادیں، چند ملاقاتیں“ میں یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ”میاں صاحب نے مزید کہا ’اس سے پہلے مجھے معلو م نہ تھا کہ وہ اتنے راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ وہ دراصل اپنی مذہبی نمائش نہیں کرنا چاہتے تھے۔‘“

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک خواب کا سہارا لیتے ہیں تاکہ اس بات کو مزید تقویت مل سکے کہ جناح صاحب کو زبر دستی ”مذہبی ثابت“ کرنے کی کوشش ہر گز نہیں ہو رہی۔ اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں :

”میں نے نصف شب کے بعد ایک خواب دیکھا۔ سرورِ کائنات حضرت محمدﷺ کی محفل لگی ہوئی تھی۔ ان کے ارد گرد خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ تشریف فرما تھے کہ اسی اثنا میں قا ئدِ اعظم اس مقدس محفل میں داخل ہوئے۔ حضور ﷺ نے انہیں سینے سے لگایا تو سب ششدر رہ گئے اور بڑے ادب سے استفسار کرنے لگے کہ ’آپ ﷺ نے ایک داڑھی منڈے شخص کو سینے سے کیوں لگایا؟‘ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ ’اس شخص کے ظاہری لباس اور شکل کو نہ دیکھو بلکہ اس کے سینے میں جھانک کر غور سے دیکھو کہ اس میں ملت اسلامیہ کا بے پناہ درد موجود ہے۔‘ حضرت مولانا موصوف کا کہنا ہے کہ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔“ (حوالہ: ”جینا سے قائدِ اعظم محمد علی جناح تک“ ازاقرآ جٹھول، ص 83,84 )

قا ئدِ اعظم گورنر جنرل کی حیثیت سے اپریل 1948 کو صوبہ سرحد تشریف لے گئے۔ ”عبدالرشید نامی شخص اس وقت گورنر ہاؤس کا بٹلر تھا۔(بحوالہ: ماہنامہ آتش فشاں، قا ئدِ اعظم نمبر) عبد الرشید کا بیان ہے کہ ”رات کا کھانا کھانے کے بعد قائد اپنے سونے والے کمرے میں چلے گئے، میرا کمرہ ان کے ساتھ تھا۔ رات کافی بیت چکی تھی۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز سناٹے کو چیرنے لگی۔ میں فوراً چوکس ہوا۔ یہ آواز قائد کے کمرے سے آ رہی تھی۔ ہم سب حیران تھے کہ رات گئے کوئی قائد کے کمرے میں کیسے گھس آیا؟ اس سوال کا جواب ایک چھوٹی سی درز نے دیا، جس سے کمرے کے اندر کسی حد تک دیکھا جا سکتا تھا۔ چنانچہ ہم نے درز سے دیکھا قائد شلوار اور شیروانی میں ملبوس، مینٹل پیس پر رکھے قرآن مجید پر سر جھکائے کھڑے ہیں۔ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ تھوڑی دیر بعد کمرے میں ٹہلنے لگتے ہیں، ٹہلتے ہوئے پاؤں لکڑی کے فرش پر پڑنے سے ٹھک ٹھک کی آواز آ رہی تھی۔ دراصل وہ آیت پڑھتے تھے، ٹہلتے ہوئے اس پر غور فرماتے تھے۔“ (حوالہ: ”قا ئدِ اعظم بیمثال شخص درخشاں کردار کی جھلکیاں“، از چودھری سلیم، ص 18 )

اسی واقعہ سے ملتے جلتے مولانا حسرت موہانی کے واقعہ کو ڈاکٹر مبارک صاحب نے اپنی کتاب میں بے بنیاد اور لغو کہانی کہا ہے۔ یہ واقعہ ہر گز بے بنیاد نہیں بلکہ منشی عبدالر حمٰن کی کتاب ”قائدِاعظم کا مذ ہب اور عقیدہ“ میں صفحہ نمبر 93 پر موجود ہے۔ ڈاکٹر مبارک صاحب کے دعویٰ ”قائد کو مذہبی ثابت کیا جا رہا ہے“ کو میں تحقیق کا فقدان قرار دیتا ہوں۔ ساتھ ہی میرے پاس بھی جگہ کا فقدان ہے ورنہ پروفیسر سعید راشد علیگ کی کتاب ”گفتار و کردار قا ئدِ اعظم“، سید صابر حسین شاہ بخاری کی کتاب ”قا ئدِ اعظم کا مسلک“، محمد شریف بقا کی کتاب ”قائدِاعظم کے اسلامی افکار“ منشی عبد الر حمٰن خان کی کتابیں ”مشاہدات و واردات“، ”تعمیرِ پاکستان و علما ء ربانی“ اور ”قائد اعظم کا مذہب اور عقیدہ“، میجر جنرل محمد اکبر خان کی کتاب ”میری آخری منزل“، علامہ پرویز کی کتاب ”حسنِ کردار کا نقشِ تابندہ“ اور فقیر محمد ندیم باری کی کتاب ”اخلاقِ قائد اعظم“ جیسی درجنوں کتابوں میں درج سینکڑوں واقعات اس بات کی ”کھلم کھلا“ گواہی ہیں کہ قائد کو مذہبی ثابت کرنے کی کوشش ہر گز نہیں کی جا رہی۔ آخر میں بس اتنا کہوں گا:

؎ مقتدا مذہب و ملت کے بنے ہیں وہ لوگ
واسطہ جن کو نہیں ملت و دیں سے کوئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).