حسینیت کے فرستادے


سیاہ پوش ہیں کے امڈے ہی چلے آتے ہیں، سڑکوں یا چوراہوں پہ نہیں! یہ تو میرے افکار کی بنت کے خیالی نفر ہیں، سر تا پا سیاہ لبادے میں ملبوس، وحشت زدہ چہرے اور شور کرتے سینے لئے جوق در جوق نہ جانے ذہن کی کس کھڑکی، کس در سے درانہ وار میرے ادراک کے صحن میں جمع ہو رہے ہیں۔

شور ایسا ہے کے کان پڑی صدا سنائی نہ دے۔ لیکن! یہ بکھرے بالوں، پیلے چہروں اور مہین پسلیوں والے سیاہ پوش تو مہر بہ لب ہیں ان کو تو بولنے کا یارا ہی نہیں، یہ تو صدیوں سے یونہی خاموشی سے سرگرداں ہیں، کبھی یہاں کبھی وہاں۔ یہ شور! یہ شور تو ان کے مدقوق سینے کرتے ہیں۔ مجھے ان کے پیپڑی زدہ ہونٹوں کی کپکاہٹ کا سبب معلوم نہیں، نا ہی یہ خود بتاتے ہیں۔ ہاں مگر میرے ادراک کے کسی کونے میں ایک احساس سا چمکتا ہے۔ شاید یہ سوگواران ابن علی ہیں۔ شاید یہ تشنگئی خانوادہ پیمبر کے خیال سے آج تلک اپنی پسلیاں جلاتے چلے آرہے ہیں۔ مگر! یہ سوگوار ہیں تو روتے کیوں نہیں؟ ان کے آنسو کیا ہوئے؟ ہاں مگر ان کے جسموں میں خون ہی کہاں کہ جو ابل کر اشکوں کی بے داغ صورت اختیار کر سکے۔

پر! ان کے ہاتھ تو سلامت ہیں، یہ سینہ کوبی کیوں نہیں کرتے؟ اگر غم ایسا ہی شدید ہے تو اپنے مڑے تڑے ناخنوں سے اپنی چھاتی پر منڈھی کھال کی دھجیاں کیوں نہیں بکھیرتے؟ کیا انہیں یہ سوکھی کھال اپنے غم سے بھی کچھ عزیز ہے؟ نہیں! اگر ان کو یہ کھال اتنی ہی عزیز ہوتی تو یہ اس سے یوں یسیروں والا معاملہ نہ کرتے۔ یہ تو صدیوں کے بن نہائے معلوم ہوتے ہیں۔ عجیب معاملہ ہے کہ اس حالت میں بھی ان کے سوکھے جسموں سے مسحور کن پاکیزہ خوشبو اٹھ رہی ہے۔

فہم نارسا! یہ کیسا گورکھ دھندا ہے۔ یہ اگر سوگواران اہل بیت پیمبر نہیں تو ضرور ان کے مجرم ہوں گے کہ احساس جرم نے ان کی چہرے کی روشنی دھندلا دی ہے۔ اور یہ رائندہ درگاہ عرصے سے اپنا بار گناہ لئے پشیمانی کی چوکھٹ سے سر پھوڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ خوشبو! یہ کسی گروہ مجرماں کا مقدر نہیں ہو سکتی۔ تو پھر یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ کیا یہ کسی کے انتظار میں ہیں؟ ہاں! میں نے راز پا لیا ان کی حلقہ زدہ آنکھوں کی آس و یاس میں لپٹی روشنی چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ انہیں کسی کا انتظار ہے۔ میرے چہرے پر جان لینے کی روشنی دیکھ کر اس سیاہ پوش گروہ میں سے ایک نوجوان کے منجمد تاثرات تغیر پذیر ہوئے ہیں۔ وہ شاید اس ہجوم کا سرغنہ ہے۔

’تم نے پا لیا‘ اس کی آواز پاٹ دار ہے

’تم کس کے منتظر ہو‘ ، اور میری گویا ہیبت زدہ

’تمہارے‘

’میرے‘ ؟ ، میری حیرت بجا ہے۔ میرا ان مجنونوں سے بھلا کیا معاملہ

” کیا تم اب بھی ویسے ہی ناتواں ہو؟ چودہ صدیوں نے تمہارے زور میں کچھ اضافہ نہیں کیا؟ کیا تم اب بھی لا علم اور بے حکمت ہو۔ کیا ہمیں اب اور بھی منتظر رہنا ہوگا؟ “ وہ گویا خود سے مخاطب ہے

” کیا تم کربلا کو اب تک ایک بد قسمت سانحہ سمجھتے ہو؟ “ مجھے اس کی آنکھوں سے خوف آرہا ہے۔ ”کہ جسے ہر سال کے چند مہینے رو پیٹ لیا جائے۔ کیا تم حق و باطل جیت و شکست اور ظالم و مظلوم کے فلسفوں سے اب تلک الجھے ہوئے ہو؟ تمہیں اپنے سود و زیاں کا احساس اب بھی نہیں؟ کیا تمہیں کوئی صدا سنائی نہیں دیتی؟ “ اس کی آنکھوں میں نمی ہے

” حسین ابن علی کی صدا“ لہجہ بھی نم ہے

” عالم زندہ ہے چاہے رحلت کر جائے، وہ کبھی نہیں مرتا“

” سنا ہے علم کو سائنس بھی کہا جانے لگا ہے“ وہ دور کہیں خلا میں دیکھ رہا ہے ”کیا تم سائنس میں اب تک خود کفیل نہیں ہوئے؟ کیا تم اب بھی علم دوستوں کے ٹھٹھے لگاتے ہو؟ تمہارے پڑوس والے چاند کو چھو چکے، کیا تم ان کی سائنسی جسارت پر غمگین و مضطر ہو؟ کیا تمہیں غیرت و رشک کے جذبات سے اب بھی کوئی واسطہ نہیں؟ “

اس کی آواز پھٹ رہی ہے ”پیمبر اسلام نے شریعت کے ساتھ ساتھ تمہیں آفاقی عمرانیت کا نظام بھی سونپا تھا۔ عدالت، جمہوریت، آزادئی اظہار، دستور اور سائنس پرستی سے عبارت وہ نظام کیا ہوا؟ تیس سال بھی وہ تم سے نہ سنبھل سکا اور تمہارے گھروں میں کاٹ کھانے والی ملوکیت داخل ہو گئی۔ “

” تمہیں حسینیت محض فلسفہ تشنگی کا نام ہے؟ “ اس کے ہونٹوں کی پیپڑی ادھڑ رہی ہے ”اصغر کے حلقوم کا پاٹ تو قیامت تک تمہاری اندوہ گیری نہ بھر سکے گی۔ تم سے تو نبی کا فلسفہ جاہ پرستوں اور ابن الوقتوں نے ہتھیا لیا۔ ابن بتول نے آج تک کربلا میں تمہاری امانت سینے سے سینت کر رکھی ہوئی ہے۔ چودہ صدیاں بیت گئیں تم نہ اس قابل ہوئے۔ حسینیت کب سے دشت کربل میں ہے منتظر۔ اب اور کتنا انتظار کرواؤ گے۔ “ لال لال ہونٹ نمایاں ہو گئے ہیں۔

میں لکھ رہا ہوں اور سیاہ پوش ہیں کے امڈے ہی چلے آتے ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).