اک علمی دعا: ’اللھم ارنی حقائق الاشیا کما ہی‘ ، جو ہم سے سہو ہو گئی


ہماری درسی و تعلیمی کتب پر بالعموم، نیزتعلیمی اداروں اورتعلیم سے متعلق دفاترکی دیواروں پر بالخصوص اک آیت نظر آتی ہے۔ ’و ُقل ربِ ذِ د نی علما‘ ۔ ( ترجمہ) ’اور کہہ، اے میرے رب، میرے علم میں اضافہ فرما‘ ۔ (سورہ 20 طہ: آیت 114 ) ۔ یہ آیت پڑھ کر کبھی خیال آیا کہ عام جگہوں پہ، عوام کے لیے ٔ یہ آیت کیوں نہیں لکھی جاتی۔ کیا عوام کو علم کی ضرورت نہیں؟ نیز جو پہلے ہی علم کے حصول کے لیے ٔ آے ٔ ہیں، انہیں ہی کیوں اضافہ علم کا کہا گیا؟ اور وہ وہ کون سا علم تھا جِس کیاضافہ کا کہا گیا؟ آج کا زمانہ جدید ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کا زمانہ ہے۔ کیا آج بھی اس آیت اور دُعا کی کو ئی ضرورت ہے؟

اگر جواب ’ہاں‘ ، میں ہے تو پھر سوچیے ٔ، اتنی ترقی کے بعد کہ انسان چاند و مریخ سے آگے کی سوچ میں ہے۔ ہزاروں کلو میٹر دور افراد سے آمنے سامنے بات کی جا سکتی ہے، گوگل ارتھ سے زمین کا ہر ایک انچ دیکھا جا سکتا ہے، تو پھر اور کس اضافہ اور کس علم کی ضرورت باقی ہے۔

اگر جواب ’نہیں‘ ، میں ہے تو ذرا غور فرمایے ٔ۔ سایٔنس ابھی تک کائنات کے فاصلے ناپنے کے پیمانوں اور نوری سالوں کی محدودیت پر نالاں ہے۔ اہرامِ مصر کے اسرار پر جدید سا ئینس حیران ہے، قوانینِ فطرت کے خاص موقعوں پر بے وقعت ہونے اور معجزات کے وقوع پزیر ہونے پرسایئنسداں اتفاق نہیں کر سکے۔ جب کہ مذ ہب تسخیرِ کاینات کا درس دیتا ہے۔

آیے ٔ اک بار علامہؔ محمد اقبال سے بھی رہنمائی طلب کر دیکھتے ہیں۔

علامہؔ محمد اقبال نے اپنی کتاب ”تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ“ میں بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ ہمیشہ دعا فرماتے تھے : ’اللھم ارنی حقائق الاشیا کما ہی‘ ۔ ترجمہ ”اے اللہ مجھ کو اشیا کی اصل حقیقت سے آگاہ کر“۔ نقطہ یہ ہے کہ علاؔمہ محمد اقبال نے ’و ُقل ربِ ذِ د نی علما‘ ۔ کے علاوہ اس دعا کے بیان کی ضرورت کیوں محسوس کی ہو گی۔

اس دعا (بعض کے مطابق حدیث) کے ہر لفظ میں اک دنیا پشیدہ ہے۔ ’حقائق‘ سے مراد صرف مادی دنیا ہی نہں ہے بلکہ عالمین کی طرف ا شارہ ہے۔ یہ عالمین، نارمل مادے کے بھی ہیں نیز ’ڈارک مے ٹر‘ اور ’ڈارک انرجی‘ کے بھی ہیں ان کے علاوہ عالم روحانیات کے بھی جو سائنس کے دائرہِ کار سے باہر ہیں۔

اشیا سے مراد یہ تمام مادی عالم ہے۔ اور اس میں موجود اشیا جو کہ جگہ گھیرتی ہیں، وزن رکھتی ہیں، ہمارے اعضائے حواس پراثر انداز ہو کر ہمارے علم میں اضافہ کرتی ہیں۔ کیا ان سے حاصل کردہ علم حقیقی ہے، اگر یہ حقیقی ہے تو اس دعا ’اللھم ارنی حقائق الاشیا کما ہی‘ کی ضرورت نہیں رہتی۔ تو کیا اشیا کی حقیقت پہ شک کیا جا سکتا ہے؟ جو کرسی یا میز کی حقیقت پہ شک کرے، ذرا ان کے سر پہ کرسی یا میز اٹھا کر مارئیے پھر پوچھیے کہ ان اشیا کے وجود اور حقیقت پر اب بھی کوئی شک ہے؟

کویٗ بھی عام انسان مزید شک سے انکار کر دے گا، مگر اک اہل علم سوال کرے گا کہ چوٹ سے تو صرف چھونے کی حس کی شدت میں اضافہ کی وجہ سے، درد کا احساس پیدا ہوا ہے۔ چوٹ سے کرسی یا میز کی حقیقت یا شناخت تو نہیں ہوئی، اگر چوٹ کے وقت آنکھیں بند ہوں تو کسی بھی کرسی، میز، ڈنڈے کی شناخت ختم ہو جاتی ہے۔ اور بات صرف کسی وزنی شے پر ختم ہو جاتی ہے۔ بتایئے ’حقیقت الاشیا‘ کہاں گئی۔ فرض کیجئیے ہمارے دماغ میں درد یا حواس کی اطلاع موصول کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے تو پھر مادی شے کی حقیقت ہمارے لئے کیا ہو گی۔ یقیناً کچھ نہی۔ تو پھر اقبال اس دعا کے بیان کرنے میں حق بجانب ہیں اور ہم پہ فرض ہے کہ اس دعا کو پھر علمی میدان میں دبارہ قابل عمل بنانے کی کوشش کر کے اس سے فائدہ اُٹھائیں۔

حقیقت الاشیا ’کی اصل حقیقت جاننے کے ضمن میں اک اور مثال پہ غور کیجئے۔ تین برتن پانی کے لیں۔ ایک میں ٹھنڈا پانی ہو، دوسرے میں گرم پانی ہو اور تیسرے میں معتدل پانی۔ اک ہاتھ ٹھنڈے پانی میں ڈالئے، دوسرا ہاتھ گرم پانی کے برتن میں ڈالئے۔ کچھ دیر بعد دونو ہاتھ معتدل پانی میں ڈال دیجیے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ گرم پانی والے ہا تھ کو معتدل پانی ٹھنڈا لگے گا۔ جب کہ ٹھنڈیپانی والے ہاتھ کو معتدل پانی گرم لگے گا۔ اب بتا یئے۔ ، کہ معتدل پانی کی‘ حقیقت الاشیا ’کیا ہے۔ صرف متناقض معلومات کا ایک منبع۔ اس کی اصل حقیقت کیا ہو گی۔ یہی حال عالم اشیا کا ہے۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ کی دعا پر عمل کی آج بھی ضرورت ہے کہ:‘ اللھم ارنی حقائق الاشیا کما ہی ’۔ ترجمہ ”اے اللہ مجھ کو اشیا کی اصل حقیقت سے آگاہ کر“۔

علم کا حصول اور علم میں اضافہ کی دعا کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ جس شے کا علم حاصل کرنا مقصود ہو اُس شے کی اصل حقیقت کا علم ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں علامہ محمد اقبال نے علم کو دعا سے اور مذ ہب نے حصولِ علم کو عبادت سے تعبیر کیا ہے۔ اسی علمی مقام سے علاؔمہ نے مذہب کی تفھیم اور مذہبی شعور کے تین درجوں کی تقسیم متعارف کروائی۔

علامؔہ محمد اقبال کے مطا بق پہلا درجہ ’ایمان‘ کا ہے۔ دوسرا درجہ ’فکر‘ کا ہے، جبکہ تیسرا درجہ ’معرفت‘ کا ہے۔

درجہٗ اوؔل جو کہ ایمان کا درجہ ہے اس میں علم، عقائد اور احکامات کی صورت میں نازل ہوتا ہے، اس کے متعلق سوال و جواب نہں اُٹھائے جاتے۔ بس جو احکام مل جایئں انھیں صرف تسلیم کر کے عمل پر اکتفا کر لیا جاتا ہے۔

دوسرا درجہ ’فکر‘ کا ہے۔ اس درجے میں وہ لوگ آتے ہیں جو علم کے دائرہِ کار میں انسانی عقل و تجزیہ اور تجربہ و مشاہدہ کو علم کی جستجو کا لازمی حصہؔ قرار دیتے ہیں۔ عقل کے استعمال، تنقید و تحقیق و تجزیہ کے ذریعہ علم سمجھنے والے افراد کو فلاسفرز کہتے ہیں۔ جب کہ تجربہ و مشاہدہ، غلطی و جستجو اور نتیجہ کے پیروکار سائینسداں کہلاتے ہیں۔ ان دونوں گروہوں کے نزدیک احکام الہی کا بس ماننا ہی کافی نہیں ان کی عقلی تفھیم بھی ضروری ہے۔

تیسرے درجے میں معرفت کا مقام آتا ہے جس کا خاصؔہ اک نفسیاتی کیفیت ہے۔ اس میں انسان اللہ تعالی سے براہِ راست اتصؔال کا متمنی ہوتا ہے۔

ہمارا موضوع سخن ’اللھم ارنی حقائق الاشیا کما ہی‘ ہے۔ یہی دوسرا درجہ ہے جسے ہم بُھلا چکے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جس کے بھلانے کی وجہ سے ہم مسلمان سائینس و فلسفہ میں کئی سو سال سے کوئی کارِ نمایاں نہ انجام دے سکے۔ مغرب نے، محسوس یاغیر محسوس طریق پر اس نقطئہ نظر پر علم کی بنیادیں استوار کیں اورسائینس و فلسفہ میں انقلابات برپا کیے۔

اسی دعا یا حدیث کی اہمیت جان کر ہم اشیا کی حقیقت جان سکتے ہیں۔ اپنی تعلیمی پالیسیاں بنا سکتے ہیں، علومِ سائینس و فلسفہ کی ترویج کر کے بیرونی دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ علامؔہ اقبال نے اس ضرورت کو سو سال قبل محسوس کر لیا تھا اور اس کی ترویج بھی کی تھی، افسوس ہم نے اقبال کو ’یومِ اقبال‘ منانے تک محدود کر دیا اور اقبال کی تعلیمات کی بُھلا دیا۔ اقبال کو ماننے کا مطلب تو یہ ہے کہ اقبال کی تعلیمات کو بھی سمجھا جائے۔

خود اقبال کی تعلیمات کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے بھی اسی دعا پر عمل ضروری ہے۔ سایئنس و فلسفہ کی ترقی بھی اسی پر عمل پیرا ہو کر ممکن ہے۔ صرف ’و ُقل ربِ ذِ د نی علما‘ ہی کافی نہیں بلکہ: ’اللھم ارنی حقائق الاشیا کما ہی‘ ۔ ترجمہ ”اے اللہ مجھ کو اشیا کی اصل حقیقت سے آگاہ کر“ پر عمل پیرا ہونے کی بھی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).