ہمارے ہیروز!


شہید کی جو مقت ہے وہ قوم کی حیات ہے!

ہم دراصل بڑی جذباتی قوم ہیں۔ ہمارے تمام تر جذبے فوری ری ایکشن ہوتے ہیں بلکہ شدید ترین ری ایکشن۔ ہم ایک لمحے میں کسی کو بھی اپنا قومی ہیرو بنا لیتے ہیں اور پھر چار دن اس کی اس قدر واہ واہ ہوتی ہے کہ لگتا ہے اس سے پہلے کوئی ایسا آہی نہیں سکتا تھا حالانکہ تاریخ ایسے ہیروز سے لبالب بھری پڑی ہے۔ جن کے کارناموں نے دنیا کے نقشے میں بے شمار نگ جڑے جنھیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

اگر پاکستان کی تاریخ کھولی جائے مطالعہ پاکستان کے علاوہ تو یہاں جتنی تعداد میں لوگ پیدا ہوتے ہیں اسی تیزی سے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی محاذ پر یا بنا محاذ کے بھی شہید ہو جاتے ہیں یہاں تک دل میں شہادت کا کوئی جذبہ نہ بھی ہو۔ تب بھی اکثر بم دھماکے سے بھرے بازار میں شاپنگ کرنے اور تھڑے پر بیٹھ کے بھنگ پینے والے بھی شہید بنا دیے جاتے ہیں۔

پاکستان کا یومِ تھا۔ ہر سال کی طرح جذبہ حب الوطنی نے خون گرمادیا تو اپنی فوج کے جوانوں کے لئے دل سے بے ساختہ سلامتی کی دعائیں نکلیں۔ لیکن اب ان خالی دعاؤں سے یقین اٹھتا جارہا ہے۔ ہم اپنے شہیدوں کو سیلوٹ کرتے ہیں انھیں فوجی سلامی پیش کی جاتی ہے۔ مائیں اپنے جوان جگر کے ٹکڑے کی میت کو آخری بار دیکھ کے کھل کے رو بھی نہیں پاتیں کہ جذبہ حب الوطنی شرمندہ نہ ہوجائے۔ جس کا مضبوط بازو ٹوٹ جائے وہ باپ سر کو جھکائے آنے والے دنوں کی پریشانیوں کو آنکھوں میں چھپائے خون کے آنسو پی رہا ہوتا ہے۔

ایک تکلیف کو فخر کے جھنڈے میں چھپادیا جاتا ہے۔ بے شک جذبہ حب الوطنی سلامت رہے۔ مگر شہید ہونے والے کے خاندان کا کوئی نہیں سوچتا کہ سرکار کے معمولی تنخواہ بھی بند ہوگئی۔ اور جو جان چلی گئی۔ جو بچے یتیم ہوئے کیا ان کا فخر ان کا پیٹ بھر سکے گا۔ کیا یہ فخر باپ کی جگہ لے سکے گا۔

پاکستان تو ویسے بھی شہیدوں کی دھرتی ہے جس ملک جو چاہیے ہوں پاکستان کی فوج مرنے مرانے کے لئے پیش کر دی جاتی ہے۔ چاہے پھر افغانستان ہو بوسنیا ہو عراق یا کشمیر۔ کوئی وہیں مر گئے گھروں تک لاشیں بھی نہ پہنچائی جاسکیں تو کوئی اگر بچ کر آگئے تو کٹے پھٹے یا پھر ذہنی معذور۔

جاپان کی جنگ میں جانے والے فوجیوں پر احمد ندیم قاسمی نے ایک افسانہ لکھا تھا جس میں فوجی کا ذہنی توازن اتنا خراب ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو بھوک پیاس میں سسکتا چھوڑ کر ٹرین کے نیچے آکے مر جاتا ہے۔

اس وقت بھی ایل اوسی پر دن رات ہمارے فوجی شہید ہورہے ہیں گھر اجڑ رہے ہیں۔ بچے یتیم ہورہے ہیں۔ خاندان مالی طور مفلوج ہورہے ہیں مگر ایک طبقہ ہے جو نرم صوفے میں گھسا زنگر چکن کھاتا ہوا جنگ کا جوش بھرا سٹیٹس لگا کے انڈین فلمیں دیکھنے بیٹھ جاتا ہے۔ ایک طبقہ محض لفظوں کے جنگ میں مگن ہے۔ ایک طبقے نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر جنگ شروع کر رکھی ہے۔

ہوگا کیا دونوں طرف سے محض گھر اجڑیں گے لوگ مریں گے۔ معیشت اور گرے گی۔ معاملات کنٹرول سے باہر ہوں گے تو عدم برداشت بڑھے گی اور وہ آگے ہی آخری سانسیں لے رہی ہے۔

شہید ہوجانے والا تو سرخرو ہوجاتا ہے۔ مگر ریاست اس کے خاندان اور اس کے بچوں کی کفالت کا ذمہ کس حد تک اٹھاتی ہے یہ وہی جانتا ہوگا جس پہ بیتتی ہے۔ ہم وہ قوم ہیں صرف ہیرو بنادیتے ہیب اور پھر ہیرو کو انسان نہیں سمجھتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).