سفر امریکہ کی روداد ( 1 )۔


لڑکپن کے دور میں جان ٹراولٹا کی ( سیٹرڈے نائٹ فیور ) اور مائیکل جے فوکس کی ( بیک ٹو دا فیوچر ) نامی فلمیں جب دیکھیں، تو بہت اچھی لگیں۔ مذکورہ فلموں میں امریکی تہزیب و ثقافت دل چسپ، زندگی سے بھرپور اور جاذب نظر لگی۔ دونوں فلمیں دیکھ کر غیر محسوس طریقے سے امریکہ جانے کی خواہش نے جنم لیا۔ لیکن ازلی کاہلی و سستی اور ناکارہ ہونے کی وجہ سے کبھی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی۔

جب ہمشیرہ اور بہنوئی نے امی کے ساتھ امریکہ آنے کی دعوت دی، تو سفر امریکہ کے لیے سنجیدہ ہوئے اور لڑکپن سے دبی خواہش نے از سر نو جنم لیا۔ بہن اور بہنوئی نے امریکی ویزے کے حصول کے لیے ہر طرح رہنمائی کی۔ جو دوست احباب امریکہ سفر کر چکے تھے، ان سے بھی رہنمائی لی۔

امریکی ویزے کے لیے آن لائن درخواست جمع کرانی ہوتی ہے۔ امریکی ویزے کا درخواست فارم نہایت سادہ ہے۔ درخواست فارم کو غور سے پڑھیں اور پھر بھریں تو اعتراض کی گنجائش نہیں نکلتی۔ جن افراد کو فارم بھرنے میں دشواری در پیش ہو ان کو چاہیے کہ درخواست فارم کو ڈاؤن لوڈ کرلیں اور ویزا فارم بھرنے کے لیے درکار دستاویزات کی روشنی میں فارم بھریں۔ جب مطمئن ہو جائیں تو بھرے گئے فارم کو دیکھتے ہوئے، آن لائن فارم بھر کر جمع کرا دیں۔ درخواست کی منظوری کے بعد ویزا فیس کی ادائیگی کے لیے بذریعہ ای میل مطلع کیا جائے گا، جو 160 ڈالر فی کس ( نا قابل واپسی ) ہے۔ ویزا فیس جمع کرانے کے بعد انٹرویو کی تاریخ ملتی ہے۔

جس صبح ہمارا انٹرویو تھا، رات بھر جم کر بارش ہوئی۔ انٹرویو کے لیے پہنچے تو موبائل، بیلٹ، بٹوا، پرس اور بیگ قونصلیٹ والوں نے امانتًا اپنے پاس رکھ لیا۔ صرف پاسپورٹ اور ویزے کے حصول میں مدد گار کاغذات کے ساتھ انٹرویو ایریا میں جانے دیا۔ جہاں پوچھا گیا کہ ”کس زبان میں انٹرویو دیں گے؟ “ جوابًا عرض کیا : ” اردو۔ “

جب انٹرویو کے لیے پہنچے تو اکثریت بنا ویزا منظوری کے مایوس واپس لوٹ رہی تھی۔ جب ہمارا نمبر آیا تو دو چار رسمی سوالوں کے بعد ویزا منظوری کا بتایا اور پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیے۔

چار دن بعد ویزا لگے پاسپورٹ وصول کیے۔ ہوائی ٹکٹ آن لائن خریدے۔ اور ایئر لائن آفس جا کر امی کے منع کرنے کے با وجود مکمل سفر کے لیے وہیل چیئر بک کروائی۔ محکمے میں بیرون ملک جانے کے لیے چھٹی کی درخواست دی۔ بالآخر وہ دن آ ہی گیا، جس دن عازم سفر ہونا تھا۔ قریبی اعزا و اقارب سے مل ملا کر ایئرپورٹ پہنچے۔ سامان کم ہی تھا، بورڈنگ کارڈ کے اجراء کے بعد پسنجر لاؤنج کے لیے روانہ ہوئے۔ لاؤنج جاتے ہوئے، مٹھائی کی مشہور دکان دکھائی دی۔ مٹھائی اسی قیمت پر ملی، جس قیمت پر شہر والی دکان میں ملتی ہے۔

پہلی پرواز کراچی سے دبئی تھی۔ ڈنر پرواز میں ہی کیا، جو مجھے تو پسند نہیں آیا لیکن امی نے پسند کیا۔ ڈنر سے فراغت کے بعد ایک آدھ گھنٹے میں دبئی آمد کا اعلان ہوا۔ دبئی میں جہاز کے دروازے پر ہی امی کو اٹینڈنٹ کے ساتھ وہیل چیئر مہیا کر دی گئی۔ اٹینڈنٹ نے ہمارے بورڈنگ کارڈ لے لیے اور کہا کہ ”اگلی پرواز سے قبل میں آپ کو لینے آ جاؤں گا۔ جب تک آپ آرام کریں اور چاہیں تو ڈیوٹی فری شاپ گھوم پھر لیں۔“ امی کو آرام دہ جگہ پر بٹھا کر ڈیوٹی فری شاپس کا چکر لگایا۔

ہر چیز کی قیمت زیادہ محسوس ہوئی۔ دبئی ڈیوٹی فری شاپس وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ تمام شاپس دیکھنے کے لیے کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ کے ماحول کے مقابلے میں دبئی ایئرپورٹ کی رونق دیکھنے لائق ہے۔ سیاح خوش و خرم گھوم پھر اور کھا پی رہے تھے۔ سگریٹ نوشی کے لیے علیحدہ جگہ فراہم کی ہوئی ہے۔ سیاحت کو فروغ دینا ہے، تو وطن عزیز میں ایئرپورٹس کے گھٹن زدہ ماحول کو سب سے پہلے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکہ کے لیے پرواز سے تین گھنٹے قبل بذریعہ ٹرین ایک اور پسینجر لاؤنج لے جایا گیا۔ اس لاؤنج میں بھارت سے تعلق رکھنے والے مسافر زیادہ تھے اور بہت پریشان تھے۔ چونکہ ان دنوں پاک بھارت تعلقات معمول سے زیادہ کشیدہ تھے۔ اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر اپنی فضائی حدود استعمال کرنے پر جزوی پابندی لگائی ہوئی تھی۔ جہاز پر سوار ہونے سے قبل امریکی تربیت یافتہ عملے نے سامان اور مسافروں کی ایک دفعہ پھر تلاشی لی، پاسپورٹ اور ویزے چیک کیے۔ یہاں سے فارغ ہو کر ایک اور لاؤنج میں پہنچے، جہاں سے جہاز میں سوار ہونا تھا۔ جہاز میں سوار ہونے تک اٹینڈنٹ امی کے ساتھ رہا۔ اٹینڈنٹ پاکستانی نوجوان تھا۔ جو مسلسل باتیں بھی کر رہا تھا۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ پردیس میں رہنے والے اپنے وطن کو کتنا یاد کرتے ہیں۔

جہاز میں بیٹھتے کے ساتھ ہی موبائل چارجنگ پر لگایا۔ اور جہاز کے اڑنے تک رسائل کا مطالعہ کیا۔ کھڑکی والی نشست پر مدراس سے تعلق رکھنے والا نوجوان بیٹھا تھا۔ اس نے فضائی میزبان سے کہا کہ ”میرے لیے دوسری نشست کا انتظام ہو سکتا ہو تو کر دیں۔“ فضائی میزبان مسکرا کر ہاں کے انداز میں سر ہلا کر چل دی۔ چند منٹ بعد کھڑکی والی نشست خالی تھی۔ جس کی وجہ سے سفر مزید آرام و سکون سے گزرا۔ آدھے ایک گھنٹے بعد فضائی میزبانوں نے ناشتے کا اہتمام شروع کر دیا۔

ناشتے سے فراغت کے بعد ایک خوش شکل نوجوان بھارتی فضائی میزبان امی کے پاس آئی اور شستہ اردو میں باتیں کرنے لگی۔ اور نشست کی پشت پر لگے، ٹی وی کا استعمال سکھانے لگی۔ جہاز کی اندرونی لائٹس بند کر دی گئیں اور کھڑکیاں بھی ڈھک دی گئیں۔ ہم نے بھی آنکھیں ایک لمبی نیند لینے کی غرض سے بند کیں اور کب نیند کی آغوش میں جا پہنچے، کچھ پتا نہیں۔

سفر کئی گھنٹوں پر محیط تھا۔ اس لیے ناشتے اور کھانے کے علاوہ بھی وقفے وقفے سے کھانے پینے کی اشیاء نشستوں پر تقسیم کی جا رہی تھیں۔ جب لینڈنگ کا اعلان ہوا، تو سکون ملا کہ امی کو لے کر خیریت سے امریکہ پہنچ گئے۔ یہاں بھی جہاز سے باہر آتے ہی وہیل چیئر بمع اٹینڈنٹ مہیا کر دی گئی۔ خاتون اٹینڈنٹ نے امی کا پاسپورٹ لے لیا اور مجھ کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور تیز قدموں سے چلتی ہوئی، دو چار منٹ کے بعد ایک مشین کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ مشین پر امی اور میری تصویر، پاسپورٹ اور ویزے کی تصویر محفوظ کی۔ یہاں سے فراغت کے بعد آگے چلے تو ایک خاتون جو مسافروں کی رہنمائی کے لیے موجود تھیں، میری نئی جیکٹ دیکھ کر بولیں : ”نائس جیکٹ“ میرے مسکرانے اور شکریہ ادا کرنے پر انہوں نے اپنی خوب صورت مسکراہٹ میں شرماہٹ کا مزید اضافہ کر لیا۔

اب ویزا افسر کے سامنے تھے۔ افسر نے رسمی سوالات کے بعد چھے مہینے قیام کا ویزا فراہم کر دیا ( پانچ سالہ کثیر المدتی ویزے کا اجراء کراچی سے ہو ہی چکا تھا )۔ یہاں سے فراغت کے بعد اس جگہ پہنچے جہاں سے سامان لینا تھا۔ سامان لینے کے بعد وہیل چیئر اٹینڈنٹ اس ٹرمینل تک لے گئی، جہاں سے شکاگو کے لیے بس میں سوار ہونا تھا۔ گیٹ کے سامنے ہی کرنسی ایکسچینج کاؤنٹر تھا۔ کچھ رقم بطور ٹپ وہیل چیئر اٹینڈنٹ کو دی، جو اس نے خوش دلی سے قبول کر لی۔

دبئی ایئرپورٹ پر بھی وہیل چیئر اٹینڈنٹ کو بطور ٹپ کچھ رقم دی تھی۔ واضح رہے کہ معمر و معذور افراد کو ایئر لائن بلا معاوضہ وہیل چیئر بمع اٹینڈنٹ مہیا کرتی ہے۔ ٹکٹ خریدتے وقت یا خریدنے کے بعد بھی یہ خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ایسے مسافر جو وہیل چیئر پر ہوں، ان کی اور ان کی سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال ترجیحی بنیاد پر کی جاتی ہے اور اگر وہیل چیئر پسینجر کے ہمراہ بھی کوئی ہو، تو اس کی چیکنگ بھی جلد ہو جاتی ہے۔

شکاگو کے لیے بس کا انتظار کرتے ہوئے، مسلسل یہی سوچتے رہے کہ کتنی آسانی سے سارے کام ہو گئے۔ ورنہ چاہے میڈیا ہو یا عام افراد، ہر کسی نے ڈرایا ہوا تھا کہ انسان اور سامان کی چیکنگ میں امریکہ میں بہت سختی ہوتی ہے۔ جب کہ نہ سامان کھول کر چیک کیا گیا نہ کوئی کسٹمز کا عملہ یا کاؤنٹر نظر سے گزرا۔ سامان ٹرالی میں رکھا اور یہ جا وہ جا ہوئے۔ کسی نے ہم سے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ ”میاں کہاں سے آئے ہو اور کہاں کے ارادے ہیں؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).