کشمیر کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا؟ 


ماؤنٹ بیٹن نے اسے لاہور میں ایک کانفرنس کی ”خبر“ دی جس میں ہندوستان اور پاکستان نے مل بیٹھ کر مسائل کے حل پر بات کرنی تھی۔ ہندوستان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ کانفرنس نہ ہوسکی۔ نہرو بیمارپڑ گئے اور سردار پٹیل نے بھی لاہور جانے سے گریز کیا۔ 30 اکتوبر کو اسٹفنس نے ماؤنٹ بیٹن کو پیغام پہنچایا کہ کشمیر کے بارے میں وہ اپنی رائے بدلنے کو تیار نہیں اور جب تک وہ ایڈیٹر ہے، جانبدارانہ موقف اختیار نہیں کرے گا۔

ایسی حق گوئی و بیباکی کے بعد جرأت مند صحافی کا اپنے منصب پر فائز رہنا ممکن نہ رہا، اس ماحول میں ”اسٹیٹس مین“ میں آزاد کشمیر کا ایک اشتہار شائع ہونے پر سردار پٹیل بڑےجذبز ہوئے۔  اسٹفنس سے کہا کہ وہ ہندوستان سے چلے جائیں۔

اسٹفنس کے ذریعے اس دور کی تاریخ بیان کرنے کا جواز سعید نقوی کے نزدیک یہ ہے :

 ” میں دکھانا چاہتا ہوں کہ اس المیے کی جڑیں بہت پیچیدہ تھیں اور اس مسئلے کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا گیا۔ “

سعید نقوی کی کتاب میں کشمیر سے متعلق باب اسٹفنس کے تاثرات پر ختم نہیں ہوتا بلکہ کچھ اور دل خراش حقائق سامنے لاتا ہے۔  ان کا کہنا ہے کہ جموں کے مقتل میں کتنوں کا خوں بہا، سرکاری اعداد و شمار اس بارے میں رہنمائی نہیں کرتے، اس لیے ہمیں برطانوی اخبارات کی رپورٹوں پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔

وہ ”دی سپیکٹیٹر“ میں 16 جنوری 1948 کو ہوریس الیگزینڈر کے مضمون کا ذکر کرتا ہے جس کے مطابق، مقتولین کی تعداد دو لاکھ تھی۔ دوسرا حوالہ ”لندن ٹائمز“ کا ہے، جس میں 10 اگست 1948 کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مہاراجہ کی نگرانی میں ہندوؤں اور سکھوں کی مدد سے ڈوگرہ فوج نے 237000 کشمیریوں کو قتل کیا۔

یہ قتل عام پٹھانوں کے حملے سے پانچ دن پہلے اور مہاراجہ کے ہندوستان سے الحاق سے نو دن پہلے ہوا۔ قتل عام کے بعد جموں کی مسلم آبادی اکثریت ( 61 فیصد) سے اقلیت میں بدل گئی۔

سعید نقوی نے لکھا ہے کہ حیدر آباد کی طرح جموں کا قتل عام بھی عوام سے چھپایا گیا۔ جواہر لعل نہرو کا سردار پٹیل کے نام ایک خط بھی کتاب میں نقل ہوا ہے، جس سے آر ایس ایس کی حمایت سے مہاراجہ ہری سنگھ کے قتل عام میں ملوث ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔  سعید نقوی نے لکھا ہے کہ حیدر آباد، جموں اور کشمیر میں ہونے والے واقعات نے ثابت کیا کہ دہلی میں برسراقتدارلوگوں کو ہندوستانی مسلمانوں کی کوئی پروا نہیں تھی۔

جموں کے قتل عام کی د لدوز کہانی کے راوی کے طور پر سعید نقوی نے ایک اور جرأت مند اور لائق اعتماد صحافی اور ایکٹیوسٹ، وید بھیسن کو چنا ہے۔  :

 ” بھیسن نے جو کچھ لکھا ہے وہ جذبات کی رو میں بہہ کر لکھی ہوئی نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے قلم سے لکھی ہوئی محتاط اور موضوعی روداد ہے جو کبھی آر ایس ایس کا رکن تھا۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں کو ایک مقالے کی صورت قلمبند کیا جسے انھوں نے جموں یونیورسٹی کی ایک کانفرنس میں 2003 میں پیش کیا تھا۔ “

بھیسن نے بتایا ہے کہ لوگوں کو قتل ہونے سے بچانے کے بجائے مہاراجہ کی انتظامیہ نے فرقہ پرست خونیوں کی سرپرستی کی، ستم بالائے ستم انھیں ہتھیار فراہم کیے۔  اس کے مطابق جموں شہر میں کرفیو کے دوران فسادیوں کواسلحہ لے کر گھومنے پھرنے کی آزادی حاصل رہی، کرفیو کا اصل مقصد مسلمانوں کی نقل وحرکت روکنا تھا۔

تالاب کھٹیکان کے علاقے میں مسلمانوں کو جس طرح دھوکے سے خون میں نہلایاگیا، وہ حکایت خونچکاں وید بھیسن نے کچھ یوں بیان کی ہے :

 ” اب ان کوجوگی گیٹ میں پولیس لائنز لے جایا گیا(جہاں اب دہلی پبلک سکول واقع ہے )تو بجائے اس کے کہ انتظامیہ انھیں تحفظ فراہم کرتی، ان سے کہا گیا کہ وہ حفاظت کے لیے پاکستان ہجرت کرجائیں۔  ان میں سے کئی ہزار مسلمانوں کو تقریباً ساٹھ لاریوں میں سیالکوٹ لے جانے کے نام پر بھرا گیا۔ اس سے بے خبر کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، یہ سب خاندان گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔  ان گاڑیوں کو فوجیوں کے پہرے میں روانہ کیا گیا۔ وہ جموں سیالکوٹ روڈ پر واقع چٹھہ مقام پر پہنچے جہاں شہر کے نواح میں مسلح آرایس ایس کے ورکروں اور سکھ ریفیوجیوں کی بڑی تعداد پہلے سے تعینات تھی۔ وہاں انھیں گاڑیوں سے کھینچ کر نکالا گیا اور بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ پہرے دار فوجی یا تو اس قتل عام میں شریک ہوگئے یا خاموشی سے دیکھتے رہے۔  اس قتل عام کی خبر کو سات پردوں میں چھپا کر رکھا گیا۔ دوسرے دن بھی مسلم خاندانوں کے دوسرے جتھے کو اسی طرح بسوں میں بھرا گیا اور ان کا بھی وہی حشر ہوا جو پہلے جتھے کا ہوا۔ ان میں سے چند جو اس قتل عام سے بچ کر سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے انھوں نے اپنی بربادی کی داستان وہاں سنائی۔ “

اس زمانے میں بھیسن سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے متحرک تھا، اس نے طلبہ کی ایک پیس کمیٹی بھی تشکیل دی، اس کی مساعی کی قدر تو کیا ہوتی الٹا جموں کے گورنر لالہ چپت رام چوپڑا نے سنگین نتائج کی دھمکی دی، کہا کہ وہ کھتری اور اس کے رشتے دار نہ ہوتے تو جیل میں ڈال دیتا۔ گورنر نے ان سے کہا کہ ہندو سکھ ڈیفنس کمیٹی کا حصہ بن کر ریہاری میں اس مسلح ٹریننگ کیمپ کا حصہ بن جائیں جہاں ہندو اور سکھ نوجوان تربیت پارہے ہیں۔  بھیسن نے اپنے ایک ساتھی کو اس کیمپ میں بھیجا تو اس نے واپس آکر بتایا کہ وہاں پر فوجی آر ایس ایس کے نوجوانوں اور دوسروں کو تھری ناٹ تھری رائفل چلانے کی تربیت دے رہے تھے۔

بھیسن نے یہ بھی لکھا کہ ریاست کے وزیر اعظم مہرچند مہاجن نے ہندؤوں کے ایک وفد سے کہا کہ اقتدار اب عوام کو منتقل ہونے جارہا ہے، اس لیے وہ سیاسی برابری (parity )کا مطالبہ کریں، یہ سن کر نیشنل کانفرنس کے ایک رکن نے کہا کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے، اس لیے ہم سیاسی برابری کا مطالبے کیسے کرسکتے ہیں؟ اس پر وزیر اعظم نے ”پائیں محل واقع رام نگر رکھ نامی محلے کی طرف ( جہاں مارے گئے مسلمانوں کی لاشیں اب بھی پڑی سڑ رہی تھیں )انگلی اٹھا کر فرمایا : ’آبادی کا تناسب بھی بدلا جا سکتا ہے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2