صلاح الدین کے بعد، گفتار کے غازی اور کردار کے کچے لوگ


سوشل میڈیا پر ایکٹو نہ ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کو بہت سی باتوں کا پتہ ہی نہیں چلتا یا پھر اس تفصیل سے پتہ نہیں چلتا جس تفصیل سے ”مجاہدین سوشل میڈیا“ بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ ایکٹو ہونے کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ ایمازون کے گہرے تاریک جنگلوں میں کوئی کتا اور بلی آپس میں بوس و کنار کریں تو یار دوست وہ وڈیو بھی کسی نہ کسی بہانے دکھا ہی دیتے ہیں۔ ہم نے ایکٹو ہونے کے نقصانات زیادہ دیکھے اس لیے اپنی سرگرمیاں محدود ہی رکھی ہیں، اسی سبب صلاح الدین واقعے کے بارے تمام تفصیلات ہمارے علم میں نہیں۔

یہاں تفصیلات سے مراد وہ مرچ مصالحہ اور چٹخارا پن ہے جو ”مجاہدین سوشل میڈیا“ ریٹنگ کے لیے استعمال کرتے ہوئے حکومت وقت اور حکومتی اداروں کو بدنام کرتے ہیں۔ صلاح الدین کا واقعہ ہوا اور ایسے واقعات پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں۔ جذباتیوں سے کوئی پوچھے کہ کراچی میں ریحان کو کس نے ننگا کیا، وڈیو بنائی اور پھر قتل کیا؟ جب ملک کے عوام ہی ایک دوسرے کو کتے بلی جیسی حیثیت دیں گے تو حکومتی ادارے خواہ وہ پولیس ہو یا کوئی اور، وہ کیسے آپ کو اپنے سر کر تاج بنائیں گے کہ پولیس میں بھی تو ابھی تک انہی عوام میں لوگ منتخب ہوتے ہیں، فرشتوں کی بھرتی ابھی شروع نہیں ہوئی۔

صلاح الدین کا واقعہ کیسے ہوا، کس کی غلطی تھی اور کس کی نہیں، کون ذمہ دار ہے اور کون نہیں۔ صلاح الدین کو قتل کر کے کس پولیس والے کو نشان حیدر ملنا تھا اور کس پولیس والے کو پچیس مربع زمین الاٹ ہونی تھی؟ یہ سب ابھی ہمارا موضوع نہیں ہے بلکہ ہمارا موضوع وہ جذباتیت ہے جو گفتار کے غازیوں کی طرف نظر آ رہی ہے۔ فیس بک سمیت سوشل میڈیا کی تما م سائٹس پر بہترین تماشا لگا ہوا ہے اور وفاقی حکومت سے لے کر پنجاب کی صوبائی حکومت تک سبھی کو لعن طعن کیا جا رہا ہے۔

کچھ زیادہ ہی جذباتی صاحبان نے تو یو این، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور غیر ملکی این جی اوز کو ای میلز کرنے کی پوسٹیں بھی ڈالی ہوئی ہیں کہ ”ہم نے فلاں فلاں کو اس ظلم و زیادتی پر باخبر کرتے ہوئے پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے کہا ہے۔“ بندہ پوچھے کہ ان سبھی نے باقی دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ کر دیا ہے کیا جو آپ فریاد لے کر پہنچ گئے ہیں؟ اور دوسری بات کہ کیا ایک پاکستانی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اس طرح سے غیر ملکی اداروں میں اپنے ملک کو بدنام کرے؟

چلیں جناب حب الوطنی کا اچار ڈالتے ہیں لیکن یہ تو بتائیے کہ جب ریحان کو قتل کیا گیا تب زبان پر تالے کیوں پڑ گئے تھے؟ جب شازیہ کی لاش گندے نالے سے ملی تھی تب یہ سارے ادارے کیوں یاد نہیں آئے تھے؟ واقعات کی نہیں بے حسی کی ایک فہرست ہے جسے یہاں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو ہمارے مجاہدین کا آئے روز کا رنڈی رونا ہے کہ کوئی واقعہ ہوتا ہے جو چائے کی پیالیوں میں طوفان کھڑا کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔

صاف پانی میں مدھانی مارتے ہوئے لسی بنانے کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک جوشیلے سے استفسار کیا کہ ”جناب پولیس کے اس خراب سسٹم کو بدلنے بلکہ ٹھیک کرنے کے لیے مجھے امید ہے کہ آپ اپنے بیٹے کو ایک اچھا پولیس والا بنائیں گے تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک اچھا پولیس والا مل سکے۔“ صاحب فوراً بھڑک اٹھے کہ ”نہیں جناب میں نے تو اسے آرمی میں آفسر بنانا ہے۔“ حیرت سے پوچھا کہ ”جناب پولیس کا نظام بہت خراب ہے، تین دن میں آپ سات پوسٹیں کر چکے ہیں پولیس کے مظالم کے بارے میں۔ آپ پڑھے لکھے ہیں، نظام کی بہتری کے خواہاں ہیں اس لیے مجھے تو امید تھی کہ آپ کم از کم اپنے ایک بچے کی تربیت تو ان خطوط پر کریں گے! کہ وہ آنے والے کل میں ایک اچھا پولیس والا بن سکے مگر آپ تو۔“ بولے ”نہیں جی پولیس جائے بھاڑ میں، میرا بچہ تو آرمی میں ہی جائے گا۔“

افسوس کا مقام یہی ہے کہ ہم جس بات کے لیے جذباتی ہوتے ہیں اسی کی نفی کرتے ہیں۔ ہم پولیس کے کردار کے ناقد ہوتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو ایک اچھا پولیس والا نہیں بنوانا چاہتے۔ ہم رشوت کے خلاف ہوتے ہیں لیکن گھر سے نکلتے ہوئے ڈرائیونگ لائسنس کی بجائے بٹوہ اٹھانا ہمیں زیادہ پسند آتا ہے کہ کسی ”ٹلے“ کو چالیس پچاس دے دیں گے۔ ہم حادثات پر روتے ہیں لیکن موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ نہیں پہنتے۔ ہم دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن اپنے کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل اور گاڑی دے دیتے ہیں۔

ہم اسکولوں اور نظام تعلیم پر دن رات تنقید کرتے ہیں لیکن ہمارے پوزیشن ہولڈر بچے صرف ڈاکٹر اور انجنئیر ہی بنیں گے کہ اس کے علاوہ دوسری کوئی فیلڈ ہم نے ان کے لیے منتخب ہی نہیں کی ہوتی۔ ہمیں ٹیکس نظام سے مسئلہ ہوتا ہے لیکن ہماری گزری چھے اور آنے والی سات پشتوں میں بھی کسی کے ایف بی آر میں جانے اور ٹیکس نظام کو ٹھیک کرنے والا نظر نہیں آتا۔ کوئی بتائے کہ پھر نظام کیسے ٹھیک ہو گا جب ہم، جو بہت جذباتی ہوئے پھرتے ہیں اتنے بھی جذباتی نہیں ہوتے کہ خود یا اپنی اولاد میں سے کسی کی بہترین تربیت کرتے ہوئے نظام ٹھیک کرنے کی کوشش کر سکیں تو پھر ایک صلاح الدین کی کیا بات، ہماری گلیوں اور تھانوں میں یہ تماشا لگا ہی رہے گا۔

مارنے والے اپنا کام کرتے رہیں گے اور ہم ”مجاہدین سوشل میڈیا“ اپنی ریٹنگ کے لیے پوسٹیں لگاتے رہیں گے لیکن مزہ تو تب آئے گا جب ایسے ہی کسی ظلم کی چکی میں ہم خود بہت باریک پیس دیے جائیں گے تب ہمیں پتہ چلے گا کہ کسی کے لیے پوسٹیں لگانے اور عملی کوشش میں کیا فرق ہوتا ہے؟ ہمدردی کی پوسٹیں بھی تب کتنی تکلیف دیتی ہیں یہ اپنے اوپر گزرنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن ہم کچھ ایسے بے حس لوگ ہیں کہ شاید تب بھی ہمیں کوئی فرق نہ پڑے کہ ساری عمر اس نظام کو روتے ہوئے گزر گئی ہے کچھ دن اور سہی۔ ہاں لیکن سدھار کے لیے کوئی کوشش نہیں کرنی کیونکہ جب ہم نے ظلم کی اندھیری رات دیکھی ہے تو کوئی دوسرا کیوں ایک اچھا اور چمکتا دن دیکھئے اور یہی ہمارا معاشرتی رویہ ہے۔ پولیس اپنے کام میں خوش، حکومت اپنے کام میں مگن اور ”مجاہدین“ اپنی فکروں میں بے فکرے۔ نظام خوب چل رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).