دھرنے کا متبادل: سو جوتے اور سو پیاز


مولانا فضل الرحمن کی جانب سے دھرنے کے اعلان کے بعد ہر طرف سراسیمگی پھیل چکی ہے۔ ایسے میں پرچی اینکروں اور تجزیہ کاروں نے شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ حکومت کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ بعض مطالبات رکھے گئے جو منظور نہیں کیے گئے۔ دوسری جانب حقائق یہ ہیں کہ حکومت کی جانب سے ایک عرصے سے کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح مولانا فضل الرحمن کو رام کر لیا جائے۔ اندرون خانہ رابطے آج بھی جاری ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیر دفاع پرویز خٹک خود چل کر مولانا کے آستانے پر پہنچے مگر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

مولانا فضل الرحمن کا موقف بالکل واضح ہے کہ اکتوبر میں آزادی مارچ کے لیے لاکھوں افراد اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ اس سے یہ تو واضح ہو گیا کہ وہ اس حکومت کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل کے موڈ میں نہیں۔ یہ مولانا فضل الرحمن ہی تھے کہ جنہوں نے 2018 ءکے متنازعہ ترین انتخابات کے بعد تمام متاثرہ پارٹیوں کو مشورہ دیا تھا کہ اسمبلیوں میں جانے کی بجائے سڑکوں پر آیا جائے۔ ان کی آواز پر دوسری جماعتوں نے کان نہ دھرا اور آج حالت یہ ہے کہ سوجوتے اور سو پیاز ایک ساتھ کھارہی ہیں۔

پیپلز پارٹی عام انتخابات سے بہت پہلے ہی بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت الٹانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا ہتھیار بن گئی تھی پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کر کے قوم کو حیرت میں ڈال دیا۔ عام انتخابات کے بعد سپیکر، ڈپٹی سپیکر، وزیراعظم اور بعدازاں صدر مملکت کے الیکشن کے دوران جو کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ ہر طرح کی ”قربانیاں“ دینے کے باوجود آج آصف زرداری اپنی بہن فریال تالپور سمیت گرفتار ہیں اور ان کی باقاعدہ تضحیک بھی کی جارہی ہے۔

مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی ہمشیرہ سمیت سیاست اور ملک چھوڑ کر نکل جائیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے نواز شریف کو اپنی صاحبزادی مریم نواز سمیت ملک بدری پر راضی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک طرف تو یہ حالات ہیں اور دوسری طرف ایسی مصدقہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ایک بار پھر سے کسی ڈیل پر پہنچنے کے لیے مذاکرات بھی جاری ہیں۔ کمال ہے کہ اس تمام صورت حال کے باوجود فل ”مکو ٹھپنے“ کے پلان کو ساتھ ہی آگے بڑھایا جارہا ہے۔ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے پچاس فیصد سے زائد ارکان کو لوٹا بنا کر فارورڈ بلاک کے ذریعے صوبے میں حکومت سے ہی فارغ کر دیا جائے۔

یہ سب کچھ کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہورہا۔ اس حوالے سے مخصوص حلقوں کی سرگرمیاں بڑی حد تک اوپن ہیں۔ اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اخلاقی حمایت کریں گے اور مطالبات سے بھی متفق ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کا صلح جو گروپ بھی ڈانواں ڈول نظر آتا ہے ۔ شہباز شریف کو پہلے بھی کئی بار لارے لگائے گئے اب بھی لگائے جارہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ان کا ایک بیٹا حمزہ جیل میں ہے جبکہ دوسرا بیٹا سلمان اور داماد لندن میں پناہ گزین ہیں۔

ذرائع کے مطابق شہباز شریف پرامید ہیں کہ اگر ان کو پکڑا بھی گیا تو دو تین ماہ کے اندر ڈرائی کلین کر کے رہا کر دیا جائے گا۔ زمینی حقائق پر نظر رکھنے والے حلقے اس سے متفق نہیں۔ کہا جارہا ہے کہ شہباز شریف گرفتار ہو گئے تو طویل عرصہ تک اندر ہی رکھا جائے گا تاکہ سلیکٹڈ سیٹ اپ کے لیے مشکلات پیدا نہ کر سکیں۔ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے آزادی مارچ کے اعلان کے بعد جو حالات بنتے نظر آرہے ہیں عین ممکن ہے کہ اس کے پیش نظر زیر عتاب سیاستدانوں سے ایک بار پھر سے نئی ڈیل یا ڈھیل کی پیشکشیں کی جائیں۔

سبق تو ان کے لیے ہے جو بار بار استعمال ہو کر بھی اپنی عقل سے کام نہیں لے رہے۔ ہو سکتا ہے مصلحت کا شکار ہوں یا پھر ڈرتے ہوں۔ کاروبار مملکت اس مقام پر آپہنچا ہے کہ جہاں حتمی فیصلے ہونا ضروری ہو چکا۔ ایسے میں تذبذب اور گومگو کی کیفیت میں مبتلا عناصر از خود سیاسی عمل سے باہر ہو جائیں تو ملک و قوم کا اس سے بڑا فائدہ ہو نہیں سکتا۔ سیاسی حکمت عملی کے تحت اگر کوئی دھرنے کی علانیہ حمایت کرنے سے گریزاں ہے تو اس میں کوئی ہرج نہیں لیکن اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ بیٹھے بٹھائے منزل مل جائے گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اب نہیں بلکہ اس سازش کے آغاز پر ہی مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے بار بار کہہ دیا تھا کہ زیر عتاب سیاسی شخصیات کو ریلیف اداروں سے نہیں ملے گا۔ اس کے لیے سڑکوں پر آنا ہو گا۔

ن لیگ کسی مجبوری، مصلحت یا کمزوری کے سبب ایسا نہیں کر سکی تو اس کے نتائج خوب بھگت رہی ہے۔ اب جبکہ جیل میں بند نواز شریف نے اپنے داماد کیپٹن(ر) صفدر کے ذریعے یہ پیغام دے دیا ہے کہ ن لیگ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی نہ صرف مکمل حمایت کرتی ہے بلکہ شرکت بھی کرے گی۔ اعلان تو ہو چکا مگر تاحال ن لیگ کی دیگر قیادت اپنا موقف واضح نہیں کرپارہی۔ احسن اقبال نے تو تحریک کو 6 ماہ آگے لے جانے کی تجویز بھی دے دی۔

حالانکہ پاکستان کی سیاست میں مخالف کو وقت دینا اس کبوتر کی مانند ہوتا ہے جو بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لے۔ سیاسی کارکنوں کی سطح پر تو مولانا کے دھرنے کی بھرپو ر پذیرائی ہے لیکن لیڈروں کے لیول پر شاید اس بارے میں مزید سوچ و بچار جاری ہے۔ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ ن لیگ اس حوالے سے کس حد تک آگے جائے گی۔ لیکن یہ طے ہے کہ جے یو آئی(ف) کی اس مہم کو کم و بیش تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے حامیوں خصوصاً کارکنوں کی حمایت حاصل ہے۔

اگر یہ دھرنا ہو گیا تو کچھ ایسے مطالبات بھی سامنے آسکتے ہیں جو اب تک لوگوں کے دل و دماغ سے نکل کر زبانوں تک نہیں آئے۔ گیم لگی تو فیصلہ کن ہو گی۔ مولانا فضل الرحمن کو راضی نہ کیا گیا یا دھرنے سے روکنے کے لیے گرفتاری کی گئی تو اس سے بحران نہیں ٹلے گا۔ اب تو چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی کہہ دیا ہے کہ ملک میں جاری احتساب کے ذریعے سیاسی انجینئرنگ کرنے کا تاثرتباہ کن ہے۔ جسٹس کھوسہ نے میڈیا پر عائد پابندیوں کو بھی نقصان دہ قرار دیا ہے۔

ایک طرف پورے ملک میں سیاسی بحران ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب معاشی عدم استحکام سے نکلنے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ اب قوم کو کہا جارہا ہے کہ 10 سال صبر کرنا ہو گا۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ بھلا کیوں؟ ابھی ایک سال پہلے تک تو ملک میں تمام کاروبار چل رہے تھے۔ ملازمتیں نہ صرف محفوظ تھیں بلکہ ہر سال معاوضوں میں اضافہ بھی ہورہا تھا۔ ترقیاتی کاموں کا یہ عالم تھا کہ گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے لے کر بلوچستان کے ریگزاروں میں ہیوی مشینری اور بلڈوزر دوڑتے پھررہے تھے۔ بڑے شہروں میں میگا منصوبے جاری تھے۔ بجلی کی کمی پوری ہو چکی تھی۔ پھر یہ کیا ہو گیادیکھتے دیکھتے۔

کشمیر پر ہماری سفارتی پوزیشن کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ ایک دن تو یہ کہتے ہیں کہ اس ایشو پر پوری دنیا ہمارے ساتھ ہے، اگلے ہی دن کہا جاتا ہے کہ دنیا کے اپنے مفادات ہیں، اس لیے وہ ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ عدالتی بحران ایسا ہے کہ سب سے بڑی عدالت کے معزز جج کو اپنے ہی ادارے کے سربراہ اور بعض ساتھیوں پر اعتماد نہیں۔ ایسے میں ضروری ہو چکا ہے کہ معاملات کو آئین پاکستان کے تحت چلانے کے لیے عوام میدان عمل میں آئیں۔ قانون کے دائرے میں رہ کر مکمل طور پر پرامن اور بھرپور احتجاج کیا جائے۔ اس لیے تمام سٹیک ہولڈروں کو مجبور کرنا ہو گا کہ وہ اپنے مفادات کے لیے ملک سے کھلواڑ نہ کریں۔ نہ صرف اپنے اپنے دائرے میں رہیں بلکہ اپنی غلطیوں کی اصلاح اور تدارک بھی کریں۔ غلط کام کیے ہیں تو خمیازہ بھی بھگتنا ہو گا۔

جو حلقے کہہ رہے ہیں کہ اب موقع آگیا ہے کہ اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ، ملک کی سالمیت، قانون کی حکمرانی اور دستور پاکستان کی سربلندی کے لیے میدان عمل میں نکلا جائے، ان کی باتوں میں وزن ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو نہ صرف اپنے بلکہ عوامی حقوق کی بحالی کے لیے بھی کھل کر سامنے آنا ہو گا۔ اس وقت مولانا فضل الرحمن ہی ہیں جو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی جیسی قومی سیاسی جماعتوں کی ہر محاذ پر ان سے بھی بڑھ کر نمائندگی کررہے ہیں، وہ ایسے کہ مولانا جہاں جہاں عمران خان کو پکارتے ہیں وہیں براہ راست سلیکٹر صاحبان کا نام بھی لیتے ہیں، اس دور میں ایسی جرا ¿ت کا مظاہرہ شاید ہی کسی بڑے سیاستدان نے کیا ہو۔

اب تک یہ تو نظر آرہا ہے کہ قومی سوچ رکھنے والی کئی چھوٹی سیاسی جماعتیں اور بعض موثر علاقائی پارٹیاں مولانا فضل الرحمن کی پالیسی سے پوری طرح متفق ہیں۔ جے یو آئی(ف) کے دھرنے میں دیگر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہو جائیں تو یہ مشترکہ جدوجہد بن جائے گی۔ نام بھی سب کا ہو گا اور فائدہ بھی سبھی کو ملے گا۔ ملک کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق ایسے میں جو سوچ میں پڑ گیاوہ گیا۔ اور جو سیاستدان ماضی کے تجربات سے سبق نہ سیکھتے ہوئے کسی حکومتی لالی پوپ کے انتظار میں ہیں وہ مزید سو جوتے اور سو پیاز کھانے کے لیے تیار رہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں جب تک انہیں عقل نہیں آئے گی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).